بانو تیزی سے ہماری طرف بڑھتی ہوئی بولیں۔ ’’اس پر گولی نہ چلانا۔ ‘‘ سونیا طالب پر نظریں جمائے ہوئے تھی، بانو کی بات کے جواب میں اس نے اثبات میں سر ہلا دیا۔ طالب کو گولی نہ مارنا اس لیے ضروری تھا کہ فائر کی آواز طالبان کے مرکز میں بھی سنی جاتی ۔ طالب اب بیٹھ گیا تھا ۔اس کے چہرے پر اس کی تکلیف نمایاں تھی۔ ایک ہاتھ سے اب بھی وہ اپنا بازو دبائے ہوئے تھا جس میں تیر پیوست تھا ۔ ہماری طرف دیکھتے ہوئے اس کی آنکھوں میں شدید نفرت تھی ۔ ’’اُس کا کیا ہوا بانو ؟ ‘‘میرا اشارہ اس طالب کی طرف تھا جو بانو کو ٹیلے کی آڑ میں لے گیا تھا۔ ’’وہ میرے پیچھے آتے ہوئے میرے قریب آگیا تھا ۔‘‘ بانو نے طالب کے عقب میں جاتے ہوئے کہا ۔ ’’میں نے مڑ کر دیکھے بغیر اپنی دائیں ٹانگ پوری قوت سے اس کی گن پر ماری اور پھر گھوم کر اس کے جبڑے پر ایک گھونسا رسید کیا۔ ‘‘اتنا جواب دے کر بانو نے طالب کے بازو میں پیوست تیر پکڑ کر بہت زور سے کھینچا۔طالب کے حلق سے ڈکراتی ہوئی کراہ نکلی ۔ تیر کے پروں نے اس کا گوشت اور زخمی کردیا ہوگا۔ بانو نے جتنا جواب دیا تھا وہ کافی تھا۔ بانو نے اسے بے ہوش کر دیا ہوگا یا شاید ختم ہی کردیا ہو ۔ دوسرا امکان زیادہ قوی تھا۔ بازو سے تیر نکل جانے کے بعد طالب کے بازو سے خون زیادہ بہنے لگا لیکن اب اس کے چہرے پر تکلیف کے تاثرات نہیں تھے ، یقینا وہ ضبط کر رہا ہوگا۔ دفعتاً وہ چونکا ۔تیر نکلنے کی تکلیف میں اسے فوری طور پر خیال نہیں آسکا تھا لیکن اب آیا سو وہ کچھ حیرت سے بانو کی طرف دیکھنے لگا کیونکہ بانو نے میرے سوال کا جواب اپنی اصلی آواز میں دیا تھا ، مردانہ آواز میں نہیں بولی تھیں ۔ ’’ہاں !‘‘ بانو طالب کی طرف دیکھتے ہوئے دھیرے سے ہنسیں۔ ’’ میں بھی ان لڑکیوں کی طرح مرد نہیں ہوں۔ اور اب تمہیں میرے ایک سوال کا جواب دینا ہوگا؟‘‘ ’’آئی ایس آئی ؟‘‘ طالب کے سوالیہ لہجے میں حقارت بھی تھی ۔ ’’جو چاہو سمجھ لو ۔‘‘ بانو نے کہا پھر بولیں ۔’’یہاں تمہاری ڈیوٹی چوبیس گھنٹے تو نہیں رہتی ہوگی ؟‘‘ ’’ہاں بانو! ‘‘میں نے کہا۔’’ علی محمد نے بتایا تھا کہ چھ چھ گھنٹے بعد ڈیوٹی تبدیل ہوتی ہے ۔اسے اوقات کا علم نہیں تھا ورنہ وہ اس بارے میں بتا دیتا۔‘‘ ’’اسی لئے تو میں اس سے پوچھ رہی ہوں ۔‘‘بانو نے کہا اور جواب طلب نظروں سے طالب کی طرف دیکھنے لگیں جس نے اپنے ہونٹ مضبوطی سے بند کرلئے تھے ۔ ’’بتائو !‘‘ بانو سخت لہجے میں بولیں ۔ ’’خواب مت دیکھو! ‘‘ طالب نے حقارت سے کہا ۔’’میں تمہارے کسی سوال کا جواب نہیں دوں گا ۔ اگر جواب دوں گا تو بھی تم مجھے ما ر دو گی۔ میری شہادت کا وقت آچکا ہے ۔‘‘ ’’شہادت! ‘‘ میں نے برا سا منہ بنایا۔ سونیا بولی ۔ ’’یہ کم بخت خود کو سچا مسلمان سمجھتے ہیں۔ ‘‘ ’’ہم ہیں۔‘‘ طالب نے زور دے کر کہا ۔ ’’اور تم لوگ کافر ہو۔‘‘ ’’یہ کچھ نہیں بتائے گا بانو !‘‘ میں نے کہا ۔ بانو طالب کے پاس سے اٹھ کر میرے قریب آگئیں ۔ان کے چہرے سے فکر مندی ظاہر ہونے لگی تھی۔ ’’کیا کرنا چاہئے ؟ ‘‘وہ اتنی دھیمی آواز میں بولیں کہ طالب نہ سن سکے ۔ ’’اب دوپہر ہوچکی ہے۔ ‘‘ میں نے کہا ۔’’ علی محمد نے مجھے صرف یہ بتایا تھا کہ یہاں دو آدمیوں کی ڈیوٹی چھ گھنٹے ہوتی ہے۔ اگر ہم ابھی مرکز میں داخل ہوئے اور سامنے سے وہ دونوں آگئے جن کو ان کی جگہ لینا ہے تو پھر مسئلہ پیدا ہوگا۔‘‘ ’’تو پھر ایک ہی صورت ہوسکتی ہے ۔‘‘بانو نے کہا ۔’’ہم یہیں رک کر آنے والوں کا انتظار کریں ۔‘‘ ’’جی ہاں بانو !‘‘ میں نے کہا۔ ’’اس کے بعد اندر داخل ہوتے ہوئے کوئی خطرہ پیش نہیں آئے گا ۔ کسی اور کے ادھر آنے کا امکان نہیں۔ مرکز میں جانے اور آنے کے لیے وہ دو اور راستے استعمال کرتے ہیں۔ یہ راستہ اور ایسا ہی ایک راستہ کوئی اور بھی ہے ۔یہ راستے تواس لئے بنائے گئے ہیں کہ اگر پاک فوج کو مرکز کا پتا چل جائے اور وہ یہاں حملہ آور ہو تو وہ ان دونوں راستوں سے فرار ہوسکیں ۔یہ راستے افغان سرحد کے بہت قریب ہیں ۔فرار کی صورت میں یہ لوگ افغانستان ہی کا رخ کرتے ہیں۔‘‘ ’’تو پھر اسے ختم ہی کر دیا جائے !‘‘ بانو نے طالب کو گھورتے ہوئے کہا جو ہمیں گھور رہا تھا ۔ ’’کوئی اور صورت ہے ہی نہیں۔‘‘ بانو نے تیر کمان سنبھالتے ہوئے اس کا رخ طالب کی طرف کیا اور سخت لہجے میں بولیں ۔ ’’اگر تم نے میرے سوال کا جواب نہیں دیا تو یہ تیرتمہارے سینے میں پیوست ہوگا۔‘‘ ’’میں بتادوں گا تو بھی یہی ہوگا ۔‘‘ طالب نے حقارت سے کہا ۔ ’’میں ابھی کہہ چکا ہوں کہ میں شہادت کے لیے تیار ہوں۔‘‘ بانو نے فوراً ہی تیر چھوڑ دیا ۔ طالب نے اس سے بچنے کی کوشش بھی نہیں کی ۔ تیر اس کے سینے میں پیوست ہوا ۔ وہ دونوں ہاتھوں سے سینہ پکڑ کر آگے جھکا ۔ بانو نے دوسرا تیر چلانے میں بھی دیر نہیں لگائی اور وہ تیر طالب کی گردن میں ترازو ہوگیا ۔ سینے پر تیر کھا کر وہ تڑپا نہیں تھا لیکن گردن میں تیر کھا کر وہ تڑپنے لگا ۔ سونیا نے رائفل نیچے کرلی ۔’’ اب طالب کو نشانہ بنائے رکھنے کی ضرورت نہیں تھی ۔ اب ہمیں آگے جا کر مرکز کے راستے کے سامنے کو ئی آڑ لے کر آنے والوں کا انتظار کرنا ہوگا۔ ‘‘ بانو نے کہا ۔ ’’یہ تو ٹھنڈا ہوجائے ! ‘‘میں نے طالب کی طرف اشارہ کیا جو اب بھی تڑپ رہا تھا ۔ ’’دو آدمی آرہے ہیں ۔‘‘ بانو تیزی سے بولیں ۔ ’’میں ان کی آہٹ سن رہی ہوں ۔ ‘‘ آنے والے کون تھے ؟ کل کے روزنامہ 92 میں پڑھیے!