میرے دماغ کو بھی جھٹکا سا لگا تھا ۔ موبائل پر بات کرنے کے دو منٹ بعد ہی بانو میرے پاس پہنچ گئی تھیں ۔ ’’ بانو !‘‘ میں کھڑی ہوگئی ۔ اندھیرے میں بانو مجھے سائے کے مانند نظر آئی تھیں اور مجھے بھی انہوں نے سائے ہی کی طرح دیکھا ہوگا وہ تیزی سے میرے قریب آئیں اور مجھے اپنے سینے سے لگا کر پیار کیا اور بولیں ۔’’ میری تو آدھی جان نکل گئی تھی اس خیال سے کہ تم کہیں طالبان کے ہاتھ نہ لگ جائو ۔ تمہیں تلاش کرنے کے لیے میں اسی وقت مکان سے نکل پڑی تھی ۔‘‘ ’’ لیکن اتنی جلدی یہاں کیسے پہنچ گئیں۔ میرا مطلب ہے ۔ ابھی تو آپ سے فون پر بات ہوئی تھی !‘‘ میں نے حیرانی سے کہا ۔ ’’ میں اسی قطار کے شیڈ میں تھی اس وقت۔‘‘ بانو نے جواب دیا ۔ ’’ اسی لیے تو میں نے تم سے پوچھا تھا کہ تم کس شیڈ میں ہو ۔در اصل تمہارا پچھلا فون سننے کے بعد میں تمھاری تلاش میں مکان سے نکل کھڑی ہوئی تھی ۔ ‘‘ ’’ میں نے کہا تھا آپ سے کہ اس وقت نہ نکلیے گا ، اگر آپ صبح تک مجھے ڈھونڈتی رہیں تو خطرے میں پڑسکتی ہیں۔‘‘ ’’ تمھاری خاطر میں ہر خطرے میں پڑسکتی ہوں میری جان !‘‘ بانو نے محبت سے کہا ۔’’ میں ہر احتیاط بالائے طاق رکھ کر بہت تیزی سے سڑک پر پہنچی تھی ۔ میں نے اندازے سے اس طرف بڑھنا شروع کیا جہاں تم مل سکتی تھیں، میں نے خاصا فاصلہ طے کرلیا تھا کہ سامنے چند طالبان نظر آئے ۔ مجھے راستہ تبدیل کرنا پڑا ۔ سوچا تھا کہ ذرا سا گھوم کر اپنے راستے پر پہنچ جائوں گی ۔ اس طرف چلتے ہوئے مجھے یقین تھا کہ میں پھر سڑک کے کنارے تک پہنچ جائوں گی ۔ اس طرح میں اس مقام تک پہنچ گئی جہاں یہ شیڈ بنے ہوئے ہیں ۔ یہاں میں پھر تین چار طالبان کی نظر میں آنے والی تھی تو میں جلدی سے ایک شیڈ میں گھس گئی ۔ وہاں گھوڑے بندھے ہوئے تھے ۔ یہ شیڈ صرف کاروں کے لیے نہیں ہیں ،یہاں گھوڑے بھی کھڑے کیے جاسکتے ہیں ۔ میں وہاں چھپی ہوئی ہی تھی کہ تمھاری کال آگئی۔تم نے مجھے جو کچھ بتایا ، اس سے میں نے سمجھ لیا کہ میں تو تم سے بہت قریب پہنچ چکی ہوں ۔ تم سے فون پربات کر نے کے بعد میں نے شیڈ کے باہر جھانکا ، وہ طالبان کہیں جاچکے تھے جن کی وجہ سے مجھے شیڈ میں چھپنا پڑا تھا ۔ بس اس کے بعد میں بہ آسانی تم تک پہنچ گئی ۔ ‘‘بانو نے نہایت تفصیل سے سب کچھ بتادیا ۔ ’’ یہ بہت اچھا ہوا کہ آپ مجھ سے آملیں ۔‘‘ میں نے کہا ۔ ’’ آپ میرے ساتھ ہوں تو میں ایسا محسوس کرتی ہوں کہ ہر مشکل سے نکلا جاسکے گا ۔‘‘ ’’ اور ہمیں اجالا پھیلنے سے پہلے اس مکان میں پہنچ جانا چاہئے ۔‘‘ بانو نے کہا ۔ ’’ اس شیڈ کو ہم محفوظ نہیں سمجھ سکتے ۔‘‘ میں ان سے سونیا کے بارے میں پوچھنا چاہتی تھی کہ قدموں کی آہٹ نے ہمیں ہوشیار کردیا ۔ دو طالبان شیڈ میں داخل ہوئے تھے۔ یہ میں نہیںکہہ سکتی کہ یہ وہی طالبان تھے جن کے ساتھ میں جیپ میں یہاں آئی تھی ۔ ان دونوں کو بھی میں نے سائے کے مانند دیکھا تھا اور جو طالبان شیڈ میں داخل ہوئے تھے ، وہ بھی سائے ہی نظر آئے تھے ۔ انہیں دیکھے اور پہچانے بغیر میں نے انہیں ’’ طالبان‘‘ اس لیے سمجھا کہ اس علاقے میں طالبان کے علاوہ کوئی اور ہو ہی نہیں سکتا تھا ۔ ’’ یہ خدا کی مدد ہے ۔ ‘‘ بانو نے میرے کان میں کہا ۔ میں ان کا مطلب نہیں سمجھی تھی لیکن کچھ بولی نہیں ۔ ’’ ان میں سے ایک کو میں سنبھالوں گی ۔ دوسرے کو تم دیکھنا ۔‘‘ بانو نے پھر میرے کان میں کہا ۔ ہم جیپ کے آگے ہی چھپے تھے اس لیے ان کے قدموں کی چاپ سے اندازہ ہوگیا کہ ان میں سے ایک ، جیپ کی ڈرائیونگ سیٹ کی طرف آیا تھا اور دوسرا اس کے برابر کی سیٹ کی جانب!۔ ان دونوں نے اپنے شانوں سے آتشی ہتھیار لٹکارکھے تھے لیکن وہ ان ہتھیاروں کا استعمال نہیں کرسکے ۔ میں اور بانو ان کی طرف جھپٹے تو وہ بوکھلا گئے ۔ انہیں اس کی توقع ہو ہی نہیں سکتی تھی کہ شیڈ میں ان کا کوئی دشمن بھی ہوگا ۔ جب تک وہ بوکھلاہٹ کے دورانیے سے باہرآتے، میرا کراٹے کا ہاتھ ایک کی گردن پر اس طرح پڑا کہ اس کی گردن ایک طرف ڈھلک گئی اور جسم زمین پر گر پڑا ۔ دوسرے کے ساتھ بانو نے کیا برتائو کیا تھا ، یہ میں نہیں جان سکی لیکن وہ بھی زمین پر ڈھیر ہوچکا تھا ۔ ’’ اب ہم اس جیپ پر ہی یہاں سے روانہ ہوں گے ۔ ‘‘ بانو نے دھیمی آواز میں کہا ۔’’ ایک کا قد کچھ چھوٹا ہے لیکن تمھارے قد سے کچھ بڑا ہوگا ۔ اس کا لباس اتار کر تم پہن لو ۔ دورسرے کے کپڑے اتار کر میں پہنتی ہوں ۔ انھی میں سے کسی کی جیب میں جیپ کی چابی ہوگی ۔ ‘‘ میں نے فوراً بانو کی ہدایت پر عمل کیا اور اس کے کپڑے اتارنے لگی جو قد میں مجھ سے کچھ ہی بڑا تھا ۔ بانو دوسرے کے کپڑے اتارتی ہوئی بولیں ۔’’ میں جیپ اتنی تیز رفتاری سے چلائوں گی کہ اگر ہم کسی کی نظر میں آئیں تو وہ ہمیں زیادہ نہ دیکھ سکے ۔ کپڑے تبدیل کرکے ہم طالبان ہی نظر آئیں گے۔‘‘ یہ کام ہم نے بہت تیزی سے کیا ، بانو جیپ کی ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھتے ہوئے چابی کی تلاش میں جیبیں ٹٹولنے لگیں ۔ ’’ تم بھی اپنی جیب میں دیکھو ۔‘‘ بانو نے کہا ۔ ’’ کسی کی جیب میں تو ہوگی ۔ ارے یہ تو اگنیشن ہی میں لگی ہوئی ہے ۔‘‘ اب میری نظر بھی اس طرف پڑی ۔ ’’ غالباً ہر گاڑی میں چابی چھوڑ دی جاتی ہوگی ۔‘‘ میں نے کہا ۔ ’’ ارے ہاں ! اترو تو ۔ ان کی لاشیں یہاں نہیں چھوڑی جاسکتیں ۔ ‘‘ بانو نے جیپ سے اترتے ہوئے کہا ۔ ’’ ان کے ہتھیار بھی ہمیں لے لینا چاہیے ،یہ تو بہت ضروری ہے ۔‘‘ بانو نے جو کچھ کہا تھا ‘ اس پر تیزی سے عمل کیا گیا ۔ لاشیں جیپ کی پچھلی سیٹ پر ڈال دی گئیں ۔ ان کے ہتھیار ہم نے اپنے شانوں سے لٹکا لیے ۔ بانو نے جیپ میں بیٹھ کر انجن اسٹارٹ کردیا ۔ میں ان کے برابر میں بیٹھ گئی ۔ بانو نے جیپ ، شیڈ سے نکالی اور سڑک کی طرف دوڑادی ۔ شاید دو ایک طالبان نے ہمیں دیکھا بھی ہو لیکن اندھیرے میں انہیں ہمارے چہرے نظر نہیں آئے ہوں گے ۔ انہیں اطمینان بھی ہوگا کہ یہاں ان کے ساتھیوں کے علاوہ کوئی نہیں ہوسکتا ۔ ’’ راستہ تو آپ کو یقینا یاد ہوگا !‘‘ میں بولی ۔ ’’ جب سے اس مہم کا آغاز ہوا ہے ، سب کچھ میرے ذہن میں اس طرح نقش ہے جیسے کسی نقشے کی لکیریں ۔‘‘ ’’ لیکن آپ نے سڑک کا رخ کیوں کیا ہے ؟وہ مکان تو.....!‘‘ ’’ مجھے سب یاد ہے جانم!‘‘ بانو نے کہا ۔ ’’ اگر ہمیں جیپ لے جاتے دیکھا گیا ہوگا تو دیکھنے والے کے ذہن میں یہی خیال ابھرا ہوگا کہ ہمیں کسی کام سے افغانستان بھیجا جارہا ہے ۔‘‘ ’’ افغانستان؟‘‘ میں چونکی ۔ ’’ ہاں ‘‘ مجھے شبہ ہے کہ یہ سڑک افغانستان کی طرف گئی ہوگی ۔ سرحد کے قریب جاکر انڈر گرائونڈ ٹریک بھی بنایا جاسکتا ہے ۔‘‘ ’’ ہوں ‘‘۔ میں سر ہلا کر رہ گئی ۔ ہم کسی بھی خطرے کا سامنا کیے بغیر اس مکان میں پہنچ گئے جو ہماری پناہ گاہ بنا تھا ۔ اس وقت صبح ہونے میں چند ہی منٹ باقی تھے ۔ ’’ تم اندر جائو!‘‘ بانو نے مجھ سے کہا ۔ ’’ میں یہ جیپ کچھ دور کہیں چھوڑ کر آتی ہوں ۔ ‘‘ میں ان کی ہدایت کے مطابق جیپ سے اتر کر کھڑکی کے راستے مکان میں داخل ہوئی اس وقت سونیا واپس آچکی تھی ۔ وہ تیزی سے میری طرف آئی ۔ ’’ ہم یہاں اب خطرے میں ہیں لیڈر! کاکڑ کی لاش غائب ہے ۔ بستر کی چادر بھی بدلی گئی ہے ۔ خون کا کوئی داغ نہیں اس پر ! مکان کی نگرانی ضرور کی جارہی ہوگی ۔ مجھے ایسا لگ رہا ہے جیسے اب ہم پنجرے میں آگئے ہیں ۔ یہ مکان ہمارے لیے پنجرہ بن گیا ہے ۔ ‘‘ اس پنجرے کی کہانی ! کل کے روزنامہ 92نیوزمیں پڑھیں !