یہاں میں اپنا ’’ زندگی نامہ ‘‘ پڑھنے والوں کو یاد دلانے کے لیے اپنی بات دہرادوں کہ فری میسن لاج سے تعلق رکھنے والا یہودی سائنٹسٹ کاف مین طالبا ن کے لیے ایک ایسی گیس بنانا چاہتا تھا جو خود کش حملہ آور کی جیکٹ میں بھری جاتی اور جب دھماکے سے جیکٹ پھٹتی تو وہ گیس لوگوں کو اندھا بھی کردیتی ۔ میں کسی طرح بھی اس مکان میں داخل ہو کر تصدیق کرنا چاہتی تھی کہ یہ کاف مین کی لیبارٹری ہی ہے یا وہ طالبان اس گھر میں رہتے ہیں جو کاف مین کے بارے میں باتیں کرتے ہوئے اس مکان سے نکلے تھے ۔ جس مکان میں ہم نے اپنا ٹھکانا بنایا تھا ، یہ مکان اس سے ڈھائی گنا بڑا معلوم ہوتا تھا ۔ میں نے اس مکان کے گرد چکر لگایا تو مجھے معلوم ہوا کہ اس کے بائیں پہلو کی دیوار میں دو کھڑکیاں اور دائیں پہلو میں ایک کھڑکی تھی جس میں روشنی نظر آرہی تھی ۔ باقی دونوں کھڑکیاں تاریک پڑی تھیں۔ اس سے میں نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ ان دو طالبان کے جانے کے بعد بھی اس مکان میں کوئی ہے تو وہ اسی کمرے میں ہوگا جس کی کھڑکی میں روشنی تھی ۔ مکان کے گرد چکر لگا کر میں اسی جگہ آگئی تھی جہاں سے چلی تھی ۔ میں سوچتی رہی کہ اس مکان میں کیسے داخل ہوا جاسکتا ہے ! یہ تو ممکن نہیں کہ اگر کوئی ہو تو دروازہ بند نہ کیا گیا ہوا ور اگر صرف وہی دونوں طالبان اس مکان میں رہتے تھے تو وہ دورازہ مقفل کرکے گئے ہوں گے یا شاید بس کنڈی لگائی ہو ، یا کنڈی بھی نہ لگائی ہو ۔ اس علاقے میں چوری چکاری تو ہوتی نہیں ہوگی! میں یہ سوچتے ہوئے دروازے کی طرف بڑھی کہ دیکھ لینے میں کوئی حرج تو نہیں ہے! اگر اندر کوئی ہے بھی تو ممکن ہے کہ اس نے اندر سے بھی کنڈی نہ لگائی ہو۔ میں دو فٹ ہی آگے بڑھی تھی کہ دروازہ کھلا، اندر روشنی تھی مجھے دو آدمی دکھائی دیے۔ میں زمین سے بالکل چپک گئی۔ ان میں سے ایک کے ہاتھ میں بریف کیس تھا۔ ان دونوں نے جب مصافحہ کیا تو دونوں کے چہروں پر اندر کی روشنی پڑنے لگی۔ ان میں سے ایک تو سفید فام تھا اور دوسرا؟ مجھے یوں محسوس ہوا جیسے میرا خون اچھل کر دماغ کی طرف آیا ہو، وہ دوسرا شخص ملا فضل اللہ تھا۔ وہی اپنے ہاتھ میں بریف کیس سنبھالے ہوئے تھا۔ سفید فام کے لیے میرے ذہن میں تھا کہ وہ کاف مین ہی ہوگا۔ اسی وقت مشرق کی جانب سے ایک سے زائد گھوڑوں کی ٹاپیں سنائی دیں جو تیزی سے قریب آرہی تھیں۔ ’’تمھارا اندازہ صحیح تھا، تمھارا گھوڑا لایا جارہا ہے۔ ‘‘سفید فام نے پشتو زبان میں کہا۔ ’’میرے اندازے بہت کم غلط ثابت ہوتے ہیں۔ ‘‘ملا فضل اللہ نے ہنس کر جواب دیا۔ ’’تم یہاں کب تک ہو؟ ‘‘سفید فام نے پشتو ہی میں پوچھا۔ ’’پرسوں افغانستان چلا جائوں گا۔‘‘ فضل اللہ کا جواب تھا، پھر اس نے بریف کیس تھپتھپا کر کہا۔ ’’میں تمھارا شکریہ ادا کرنا تو بھول ہی گیا!‘‘ ’’اس کی ضرورت ہی نہیں، تم نے بریف کیس کھول کر دیکھا بھی نہیں، یہ ڈالرز کی گڈیوں سے بھرا ہوا ہے۔‘‘ ’’دیکھنے کی کیا ضرورت ہے،تم مجھ سے مذاق تو نہیں کرو گے۔‘‘ دو گھوڑے قریب آکر رک گئے۔ گھڑ سوار ایک ہی تھا جو دوسرا گھوڑا اپنے ساتھ لایا تھا۔ وہ گھوڑے سے اتر کر تیزی سے ان دونوں کی طرف بڑھا۔ اس نے ایک بڑا گلدستہ فضل اللہ کو دیا اور فضل اللہ نے وہ سفید فام کی طرف بڑھا دیا۔ جس کے بارے میں یہ بات میرے ذہن میں آچکی تھی کہ وہ کاف مین ہی ہوگا۔ ’’خوب!‘‘ گلدستہ لے کر سونگھتے ہوئے کہا گیا۔ ’’یہ میں ہی لے کر آتا لیکن بھول گیا تھا۔‘‘ فضل اللہ نے کہا۔’’ اسی لیے میں نے اپنے ایک ساتھی کو اپنے ہی گھوڑے پر یہ لینے کے لیے بھیجا تھا، اور کچھ دیر پہلے جو دو آدمی تمہارے لیے جو سامان چھوڑ گئے ہیں وہ دیکھ لینا۔‘‘ ’’اس وقت تو نہیں دیکھوں گا۔ آج بہت تھک گیا ہوں۔ لیبارٹری میں بس پندرہ منٹ کا ایک کام ہے۔ پھر میں سونے چلا جائوں گا۔‘‘ ’’جیسا مناسب سمجھو! ‘‘ملا فضل اللہ نے ایک بار پھر اس سے ہاتھ ملایا اور اپنے گھوڑے کی طرف بڑھ گیا۔ لیبارٹری کا ذکر آجانے کے بعد میرے لیے شبہے کی بات نہیں رہی تھی۔ وہ شخص یہودی سائنٹسٹ کاف مین ہی تھا۔ فضل اللہ گھوڑے پر بیٹھا اور پھر دونوں گھوڑے وہاں سے روانہ ہوگئے۔ اس دورانیے میں میرا دل بہت چاہا تھا کہ ریوالور نکال کر فضل اللہ کی کھوپڑی اڑا دوں لیکن گولی چلنے کی آواز سن کر بہت سے طالبان اس طرف دوڑ پڑتے اور میرا مشن ادھورا رہ جاتا۔ ابھی تو اس طالبانی مرکز کے بارے میں اطمینان بخش حد تک معلومات حاصل کرنی تھیں۔ کاف مین نے دروازہ بند کرلیا اور دونوں گھوڑے بھی اتنی دور نکل گئے کہ اب ان کی ٹاپیں سنائی نہیں دے رہی تھیں۔ اب مجھے یہ یقین بھی ہوچکا تھا کہ جس کھڑکی میں روشنی تھی، وہی کاف مین کی لیبارٹری ہوگی۔ اسی یقین کے باعث میں نے اس کھڑکی کی طرف بڑھنا شروع کیا۔ میں دیکھنا چاہتی تھی کہ اب کاف مین کو پندرہ منٹ اپنی لیبارٹری میں کیا کرنا تھا۔ کھڑکی کے قریب پہنچ کر میں کھڑی ہوگئی اور جھانک کر دیکھنے کا خطرہ مول لیا،یہ دیکھ کر خطرے کا احساس جاتا رہا کہ کاف مین ایک موٹی سی کاپی میں کچھ لکھ رہا تھا۔ جب تک وہ لکھتارہتا، اس کی نظر کھڑکی کی طرف نہیں اٹھ سکتی تھی۔ میں نے ایک طائرانہ نظر ڈال کر دیکھ لیا تھا کہ وہ کسی سائنس دان کی تجربہ گاہ ہی ہوسکتی تھی۔ اس قسم کے سامان کے علاوہ ایک صوفہ سیٹ بھی تھا۔ کاف مین اس خاصے بڑے کمرے کو ڈرائنگ روم کے طور پر بھی استعمال کرتا ہوگا۔ میں جھانکتی رہی اور جیسے ہی کاف مین نے لکھنا موقوف کیا، میں نے اپنا سر پیچھے کرلیا۔ مجھے کاف مین کی یہ بات یاد تھی کہ پندرہ منٹ بعد وہ سونے چلا جائے گا۔ میں وہاں اس توقع پر رکی رہی کہ کاف مین لیبارٹری سے جاتے وقت کھڑکی بند کرنا بھول جاتا تو مجھے لیبارٹری میں داخل ہوکر وہ کاپی دیکھنے کا موقع مل جاتا جس میں کاف مین نے دس بارہ منٹ تک کچھ لکھا تھا۔ میں نے اس کے قدموں کی آواز سنی جو کھڑکی کی طرف نہیں آرہی تھی۔ اس وقت میں نے پھر جھانکا۔ کاف مین دروازے کی طرف جارہا تھا۔ اس نے دروازہ کھولا اور وہیں دیوار پر لگے ہوئے سوئچ بورڈ کا ایک بٹن نیچے کرکے لائٹ آف کردی۔ میں نے لیبارٹری میں چھا جانے والی تاریکی میں دروازہ کھلنے اور بند ہونے کی آواز سنی۔ کاف مین جاچکا تھا۔ صدف کو لیباری سے کیا حاصل ہوا؟ کل کے روزنامہ 92 میں پڑھیے!