دوپہر کی فلائٹ سے میں جھنگ کیلئے روانہ ہوگئی ۔ گزشتہ رات میں خاصی دیر تک بانو کے گھر میں رہی تھی ۔ میرے سامنے ہی بانو کے کچھ لوگ آئے تھے اور دونوں ’’قیدیوں ‘‘ کو لے کر چلے گئے تھے ۔ ان دونوں قیدیوں میںسے ایک ،لاش میں بدل چکا تھا۔ اس کی ریڑھ کی ہڈی پر لگنے والی میری کہنی کی ضرب نے اس کا ایک مہرہ تو توڑ ہی دیا تھا لیکن اس کی وجہ سے اسے اندرونی طور پر کوئی ایسی چوٹ بھی پہنچی تھی کہ وہ جانبر نہ ہوسکا تھا۔ اس کی موت میرے لیے یوں نقصان دہ تھی کہ اس کا شناختی کارڈ جھنگ کا تھا ۔ اس سے کچھ معلومات ہوسکتی تھیں لیکن بس ایک خیال تھا ۔ ممکن ہے وہ کچھ بھی نہ بتاتا ۔ اس کے ساتھی نے تو صبح تک زبان نہیں کھولی تھی حالانکہ اولڈ ہائوس میں اس پر خاصا تشدد کیا گیا تھا ۔ جھنگ کے لیے لاہور روانگی سے قبل مجھ کو بانو سے فون ہی پر یہ معلومات حاصل ہوئی تھیں۔ رات کو ہی میں نے وہ فائل بھی پڑھی تھی جو مجھے اپنے دفتر سے ملی تھی ۔ اس میں رانا ثنااللہ پر شبہے کا اظہار کرتے ہوئے یہ بھی لکھا گیا تھا کہ اگر شبہ درست ثابت ہوا تو رانا ثنا اللہ کی حیثیت فرنٹ مین کی ہوگی اور جو کچھ کروانے کی کوشش کی گئی تھی ، اس کا بنیادی کردار مرکزی قیادت تھی ۔ اس کے علاوہ فائل میں کوئی ایسی بات نہیں تھی جو اس وقت کے تناظر میں کوئی اہمیت رکھتی ۔ میں نے کراچی چھوڑنے سے قبل اپنے ادارے کے سربراہ مسٹر داراب کو اس سے آگاہ کرنا ضروری سمجھا تھا اور انہیں اس کی اطلاع فون پر ہی دی تھی۔ انھوں نے مجھ سے کہا تھا کہ میں پندرہ منٹ ان کے فون کا انتظار کروں اور پھر انھوں نے فون کرکے مجھ سے کہا تھا کہ جھنگ میں مجھے کم از کم ایک اسسٹنٹ کی ضرورت تو پڑہی سکتی ہے لہٰذا لاہور ائیر پورٹ پر مجھے اپنے ہی ادارے کا ایک آدمی لیفٹیننٹ ارباز مل جائے گا۔ انھوں نے فون پر ہی مجھے اس کی تصویر بھیج دی تھی اور اس کا موبائل فون نمبر بھی بتادیا تھا ۔ لاہور ائیر پورٹ پر اترتے ہی میں نے اپنے موبائل پر لیفٹیننٹ ارباز سے رابطہ کیا ۔ میں نہیں جانتی تھی کہ وہ میرے قریب آئے ۔ وہ مجھ سے دور دور رہ کر ہی میرے لیے زیادہ کار آمد ثابت ہوسکتا تھا ۔ اگر مجھے اس کے ساتھ کی ضرورت پڑتی تو میں اسے اپنے قریب کسی وقت بھی بلا سکتی تھی ۔ اسے ہدایت کرنے کے بعد، ائیر پورٹ کی عمارت سے باہر نکل کرمیں نے اس طرف رخ کیا جہاں کاریں پارک تھیں ۔ وہاں مجھے وہ کار مل جاتی جس کا نمبر مجھے بانو نے بتادیا تھا ۔ اگر وہ میرے لیے یہ بندوبست نہ کرتیںتو مجھے کرائے کی کار کا بندوبست کرنا پڑتا۔ میں نے کار تلاش کرکے اس کی ڈرائیونگ سیٹ کا دروازہ کھولا اور اس میں بیٹھ گئی ۔ کار کی چابی لگی ہوئی تھی ، جیسا کہ بانو نے مجھے بتایا تھا ۔ ڈرائیونگ سیٹ سنبھالنے کے بعد میں نے انجن اسٹارٹ کردیا ۔ اپنا سوٹ کیس میں نے ڈگی میں رکھنے کی بہ جائے پچھلی نشست پر ڈال دیا تھا ۔ لاہور میرا دیکھا بھالا شہر ہے ۔ میں سیدھی کانٹی نینٹل ہوٹل پہنچی ۔ اس میں کمرا میں نے کراچی ہی سے فون کرکے بک کرالیا تھا ۔ جھنگ کا رخ تو میں شام کے بعد کرنا چاہتی تھی لیکن دن بھر کے لیے لاہور میں رکنے کا فیصلہ میں نے یہ اندازہ لگانے کے لیے کیا تھا کہ اگر کوئی میرے پیچھے لگے تو مجھے اندازہ ہوجائے ۔ میرے پیچھے ایک کار لگی ہوئی تھی لیکن اس میں لیفٹیننٹ ارباز تھا ۔ ہوٹل کے کمرے میں کچھ وقت گزارنے کے بعد میں وہاں سے نکلی ۔ اس دن کا بیشتر حصہ میں نے شالیمار باغ اور شاہی قلعہ دیکھنے اور انارکلی میں شاپنگ کرتے ہوئے گزارا ،پھر ہوٹل پہنچی۔ میں اب پُر یقین تھی کہ میرا تعاقب کسی نے نہیں کیا تھا ۔ دو گھنٹے آرام کرنے کے بعد میں نے ہوٹل چھوڑ دیا اور جھنگ کی طرف گام زن ہوئی ۔ہوٹل ہی سے میں نے جھنگ کے ایک ہوٹل ’’ مسکنِ طیب‘‘ میں کمرا بک کرالیا تھا ۔ ’’تم بھی اسی ہوٹل میں قیام کرنا ۔‘‘ میں نے موبائل پر اربازکو کچھ ہدایات دینے کے بعد کہا تھا ۔ جھنگ پہنچنے سے پہلے میں فیصل آباد میں رکی جو لاہور سے ستر اسی میل کے فاصلے پر ہے ۔اس وقت رات ہوچکی تھی لیکن زیادہ نہیں گزری تھی ۔آٹھ ہی بجے تھے۔میں اتنی جلدی کھانا نہیں کھاتی لیکن میں نے فیصل آباد کے ایک ریستوران میں کھانا کھایا ۔ نہ جانے کیوں میرے دماغ میں یہ خیال سرسرا رہا تھا کہ میں جھنگ پہنچتے ہی کسی غیر یقینی صورت حال سے دو چار ہوسکتی ہوں لہٰذا کھانے کے بہانے میں اپنی تھوڑی سی تکان بھی دور کر لوں جو فیصل آباد تک کی ڈرائیونگ میں ہوئی تھی ۔ فیصل آباد سے جھنگ 50 میل کے فاصلے پر ہے اس لیے وہاں پہنچنے پر میں تازہ دم ہی ہوتی ۔ میں نے کھانا شروع کیا ہی تھا کہ میں نے محسوس کیا، کوئی بہت تیزی سے میرے قریب آیا تھا ۔ ساتھ ہی نسوانی آواز سنائی دی ۔’’ہلو صدف!‘‘ میں نے چونک کر نظریں اٹھائیں۔’’ اوو! شاردا! ’’میرے منہ سے نکلا ۔ ’’کافی عرصے بعد دیکھا تھا تمھیں لیکن دور سے بھی پہچان گئی ۔ ‘‘شاردا نے ایک کرسی ذرا سی گھسیٹی اور بیٹھ گئی ۔ ’’ یہاں کیسے؟‘‘ میں نے پوچھا ۔ ’’ سامنے جو ہوٹل ہے ، میں اسی میں ٹھہری ہوں ۔ صرف ایک دن کے لیے آئی ہوں ۔ میں بالکونی میں کھڑی تھی تو میں نے تمھیں کار سے اترتے دیکھا ۔ بس لپکتی چلی آئی۔ میاں جی نے مجھے یہاں کچھ شاپنگ کرنے کے لیے بھیجا تھا ۔ صبح آئی تھی ۔ایک گھنٹے بعد واپسی کے لیے چل پڑوں گی ۔‘‘ شاردا بڑی تیزی سے بولتی چلی گئی ۔ لندن میں اس نے میرے ساتھ ہی پڑھا تھا ۔ میں بھول ہی گئی تھی کہ وہ جھنگ ہی میں رہتی ہے ۔ وہاں کے ایک بہت بڑے جاگیردار کی بیٹی تھی ۔ اپنے والد کو وہ میاں جی کہتی تھی ۔ اس ملاپ کے نتیجے میں کیا حالات ہوئے؟ یہ کل کے اخبارمیں ملاحظہ فرمائیں!