اس پر خطر لمحے سے پہلے بانو باتیں کرتے ہوئے اطراف کا جائزہ بھی لیتی رہی تھیں۔قدموں کی آہٹ انہوں نے مجھ سے اور سونیا سے پہلے سن لی تھی ۔ ’’ لیٹ جائو!‘‘ بانو کی سرگوشی بہت ہی مدھم تھی لیکن اتنی مدھم بھی نہیں کہ میں اور سونیا سن ہی نہ پاتے۔ فوراً ہی ہم تینوں لیٹ گئے۔ چند سیکنڈ گزرے تھے کہ ہمیں اس طرف آنے والوں کی دھیمی آوازیں بھی سنائی دینے لگیں ۔وہ بھی دو ہی تھے ۔ یہ اندازہ مجھے ان کے قدموں کی آہٹ سے ہوا ۔ ’’ حیرت کی بات بھی ہے اور پریشانی کی بھی ۔ ‘‘ ایک آدمی کی آواز آئی ۔وہ پشتو ہی بولا تھا ۔’’ مجھے سارے معاملے کا علم نہیں ۔ مجھ سے بس یہ کہا گیا تھا کہ تمہارے ساتھ جائوں ۔ تم بھی مجھے کچھ نہیں بتارہے ہو۔‘‘ ’’ میں سوچ رہا تھا کہ جو ابھی دوگئے ہوں گے ، وہ بھی ہمیں ملیں گے یا نہیں !‘‘دوسری آواز۔’’ تم میرے اس جواب سے بھی کچھ نہیں سمجھے ہوگے ۔‘‘ ’’ کیوں نہیں ملیں گے ؟‘‘ وہ آوازیں ٹیلے کی بائیں جانب سے آرہی تھیں ۔ بانو نے دائیں جانب سرکتے ہوئے میرا ہاتھ دبایا ۔ میں ان کا اشارہ سمجھ گئی اور ان کے ساتھ سرکتے ہوئے میں نے سونیا کا شانہ تھپکا ۔ اس نے مجھے اور بانو کو دائیں جانب سرکتے دیکھ ہی لیا ہوگا ۔وہ بھی ہمارے ساتھ سرکنے لگی ۔ بانو کا مقصد یہی ہوگا کہ دائیں جانب کچھ دور ہوجانے کے باعث ہم آنے والوں کی نظروں سے محفوظ رہتے ۔ ہم جب سرک رہے تھے تو ایک طالب دوسرے طالب کو بتا رہا تھا کہ پہرہ دینے کے لئے جو دو آدمی صبح آٹھ بجے گئے تھے ، وہ بھی واپس نہیں پہنچے ہیں اور جو دو بجے ڈیوٹی دینے گئے تھے ، ان کے بارے میں بھی معلوم نہیں کہ وہ کہاں غائب ہوگئے تھے ۔ ان چاروں کے واپس نہ آنے کی اطلاع کچھ ہی لمحے پہلے اس شخص کو ملی تھی جو ان لوگوں کو پہرہ دینے کے لئے بھیجتا تھا ۔ اب اس نے ان دونوں کو اس لئے بھیجا تھا کہ جو دو طالب ابھی ڈیوٹی دینے گئے ہیں، کہیں وہ بھی غائب نہ ہوگئے ہوں ۔ ان دونوں کو بانو ذرا ہی دیر پہلے ٹھکانے لگا چکی تھیں ۔ جسے یہ سب کچھ بتایا گیا تھا ، وہ بولا ۔ ’’ مجھے بس اتنا کہاگیا تھا کہ ہمارے کچھ ساتھی غائب ہوگئے ہیں ، ان کے بارے میں معلوم کرنا ہے ۔‘‘ دونوں طالبان کی ان باتوں کے دوران ہم تینوں دائیں جانب کافی حد تک سرک گئے تھے اور ان دونوں کو سایوں کے مانند دیکھ بھی لیا تھا ۔ آگے بڑھتے ہوئے ان دونوں میں سے ایک کے ہاتھ میں ٹارچ تھی۔ وہ ہم سے دور بھی ہوتے چلے گئے تھے ، اس لئے ان کی آوازیں بھی ہمارے کانوں تک پہنچتے ہوئے مدھم بھی ہوتی چلی گئی تھیں ۔ ’’ کچھ ایسا لگتا ہے جیسے ......‘‘ لفظ ’’ جیسے‘‘ کے بعد کیا کہا گیا تھا ، وہ ہمارے کانوں تک نہ پہنچ سکا ۔ میں نے سرگوشی میں بانو سے کہا ۔’’ ابھی آپ نے جن طالبان کو ہلاک کیا ہے ، ان کی لاشیں مل سکتی ہیں ان دونوں کو ۔‘‘ ’’ نہیں ۔‘‘ بانو نے جواب دیا ۔’’ اس طرف بھی ایک کھائی ہے ۔ میں نے ان کی لاشیں اسی کھائی میں گرادی تھیں ۔ خون کے دھبوں پر پتھر بھی ڈال دیئے تھے ۔‘‘ ’’ تو ان دونوں کو دراڑ کے باہر کوئی بھی نہیں ملے گا ۔ ‘‘ بانو نے میری بات پر کوئی تبصرہ کئے بغیر کہا ۔ ’’ ہمیں اب جلد از جلد اپنے لئے کوئی ایسا ٹھکانا تلاش کرنا ہے جہاں ہم محفوظ رہ سکیں ۔ جب دن نکلے گا تو یہاں خاصی نقل و حرکت ہوجائے گی ۔ اس وقت ہم کسی کی نظر میں آسکتے ہیں ۔‘‘ یہاں میں اعتراف کروں گی کہ بانو کی موجودگی میں میرا دماغ کام کرنا ہی چھوڑ دیتا ہے ۔ میں اگر تنہا ہوتی تو یقینا وہ بات میرے ذہن میں آجاتی ، جو بانو نے کہی تھی ۔ ہمیں یقینا کسی محفوظ جگہ کے لئے فکر مند ہونا چاہئے تھا ۔ بانو نے جس وقت یہ بات کہی تھی ، اس وقت وہ ٹیلے کی اوٹ سے سر نکالے دوسری طرف پھیلی ہوئی وادی کا جائزہ لے رہی تھیں ۔ سونیا مدھم آواز میں بولی ۔’’ یہاں چھوٹے چھوٹے مکان ہیں ۔ کیوں نہ انھی میں سے کسی مکان پر قبضہ کیا جائے ! اس کے مکین اگر زیادہ نہ ہوں تو ان پر آسانی سے قابو پایا جاسکتا ہے ۔‘‘ بانو نے اس کی بات پر بھی کوئی تبصرہ نہیں کیا اور بولیں ۔’’ تم دونوں یہیں رکو ! میں قرب و جوار کا جائزہ لے کر آتی ہوں۔‘‘ اس سے پہلے کہ میں کچھ کہتی ، بانو ٹیلے کی اوٹ سے دوسری طرف رینگ گئیں ۔ میں نے جھانک کر دیکھا ۔وہی منظر سامنے تھا جو دراڑ سے اندر آنے کے بعد دیکھا تھا ۔ اونچے نیچے ٹیلے ، چھوٹے چھوٹے مکانات،کچھ درخت اور جھاڑیاں اور اِدھر اُدھر آنے جانے والوں کے سائے جو ٹارچ کی روشنیوں کے باعث قدرے واضح دکھائی دے رہے تھے ۔ بانو کا رینگتا ہوا سایہ بھی نظر آیالیکن جلد ہی تاریکی میں مدغم ہو گیا۔ وہ رینگتی ہوئی ایک جانب گئی تھیں ۔اگر کھڑی ہو کر جاتیں تو وہ بھی سائے کے مانند نظر آجاتیں ۔ مصنوعی چھت کے سوراخوں سے چاندنی ، زمین تک پہنچنے کی موہوم سی کوشش کررہی تھی ۔ ’’ بانو اکیلی ہی نکل گئیں ۔‘‘ سونیا مدھم آواز میں بولی ۔ ’’ اس خطرناک فضا میں زیادہ افراد کی نقل و حرکت ہوتو نظر آجانے کا امکان بڑھ جاتا ہے ۔ ‘‘ میں نے اسے جواب دیا ۔’’ بانو کچھ کرکے ہی لوٹیں گی۔‘‘ ’’ نہ جانے کتنی دیر لگے !‘‘ ’’ انتظار تو کرنا ہی پڑے گا ۔‘‘ پھر بانو کا انتظار کرتے ہوئے زیادہ وقت نہیں گزرا تھا کہ انھی طالبان کی آہٹ اور پھر ان کی آواز سنائی دینے کے ساتھ ہی ان کے سائے بھی دکھائی دے گئے۔ وہ اس مرتبہ بڑی تیزی سے قدم بڑھا رہے تھے۔ ٹارچ کی روشنی کے باعث اس اونچے نیچے راستے پر تیزی سے چلنا ان کے لئے مشکل نہیں تھا۔ ’’ہاں، بہت ہی عجیب بات ہے۔ ‘‘ایک آواز سنائی دی۔ میں سمجھ گئی کہ ان کے لئے کیا عجیب تھا۔ انھیں وہ دونوں بھی نہیں ملے ہوں گے جنھیں اس وقت دراڑ کے باہر پہرے پر مامور ہونا چاہیے تھا۔ دوسری آواز سنائی دی۔’’ میں تمہاری یہ بات نہیں مانوں گا کہ پہرے پر پے درپے جانے والے ہمارے چھ ساتھیوں نے تحریک سے بغاوت کی ہو اور فوج کے پاس چلے گئے ہوں۔‘‘ ’’میں دوسرے زاویے سے بھی سوچ رہا ہوں۔ اگر فوج سے جاملنے کی بات مانی جائے تو صبح آٹھ بجے غائب ہونے والے ہمارے دونوں ساتھی فوج کو مرکزکے بارے میں بتاچکے ہوتے اور فوج یہاں ریڈ کرچکی ہوتی۔‘‘ ’’تو پھر شاید وہ ان جاسوسوں کے ہاتھوں شہید ہوگئے ہوں جن کی وجہ سے ہمارے دو اڈے بمباری کا نشانہ بنے تھے۔‘‘ ’’اگر ایسا ہوا ہے تو وہ کہیں ہمارے مرکز میں نہ آچکے ہوں!‘‘ وہ دونوں اسی قسم کی باتیں کرتے ہوئے اتنی دور نکل گئے کہ ان کی آوازیں سناٹے میں مدغم ہوگئیں۔ ’’یہ برا ہوا۔‘‘ میں نے حسب معمول مدھم آواز میں سونیا سے کہا۔’’ ہم نے کوشش تو برابر کی تھی کہ مرکز میں، طالبان کو ہماری موجودگی کا علم نہ ہو لیکن بات کھلتی نظر آرہی ہے جس سے ہمارے لئے خطرہ بڑھ جائے گا۔‘‘ کیا صدف کا اندیشہ صحیح نکلا؟ کل کے روزنامہ 92 میں پڑھیے!