سونیا اس وقت کاکڑ کی گن ہاتھوں میں سنبھالے ہوئے تھی ۔ میں نے فوراً اپنے شانے سے کلاشنکوف اتار کر اس کا رخ کھڑکی کی طرف کر دیا ، جیسے سمجھ رہی ہو کہ طالبان اُدھر ہی سے آئیں گے حالانکہ اندر آنے کے لیے ترجیح وہ بیرونی دروازے ہی کو دیتے ۔ ’’ اچھا ہوا کہ بانو ابھی باہر ہی ہیں ۔ وہ سنبھالیں گی اس صورت حال کو ۔‘‘ مجھے بانو پر بے انتہا اعتماد تھا ۔ ’’ وہ کہاں رہ گئیں ۔‘‘ سونیا بولی ۔ ’’ اب تک تو انہیں آجانا چاہئے تھا ، اجالا ہونے ہی کو ہے ۔‘‘ ’’ وہ میرے ساتھ ہی ہیں ۔‘‘ میں نے جواب دیا ۔‘‘ میں کھڑکی دیکھ رہی ہوں،تم دروازے کا خیال رکھو !‘‘ سونیا نے اپنی پوزیشن بدل لی تاکہ دروازے پر نظر رکھ سکے ۔ ’’ آپ کے ساتھ آئی ہیں وہ ؟‘‘ سونیا نے کچھ تعجب سے پوچھا ۔ ’’ ہاں۔‘‘ میں نے کہا اور پھر اپنے حالات سے آگاہ کیا ۔ ’’ آپ اب کچھ پریشان نظر آرہی ہیں لیڈر !‘‘ سونیا بولی ۔ ’’ بانو کو اب تک آجانا چاہئے تھا ۔ ‘‘ میرے لہجے میں تشویش تھی ۔ اسی وقت کھڑکی میں بانو کا سایہ نظر آیا ۔ وہ کھڑکی سے اندر آگئیں ۔ ’’ یہ کیا!‘‘ وہ چھوٹتے ہی بولیں ۔’’ تم دونوں اس طرح گنیں سنبھالے ہوئے ہو جیسے کسی وقت بھی یہاں طالبان کا حملہ ہوسکتا ہے ۔‘‘ ’’ ہم ایک پنجرے میں پھنس گئے ہیں بانو!‘‘ میں نے کہا اور انہیں سب کچھ بتا دیا جو مجھے سونیا سے معلوم ہوا تھا ۔ بانو دھیرے سے ہنس دیں ۔سونیا فوراً بول پڑی ۔ ’’ میں نے لیڈر کو جو کچھ بتایا ہے ‘ وہ کوئی مذاق نہیں کیا ہے میں نے !‘‘ ’’ میں کب کہہ رہی ہوں کہ تم نے مذاق کیا ہے ۔ کاکڑ کی لاش میں نے ہی اس کے بیڈ کے نیچے چھپائی ہے ۔ اس کمرے میں کپڑوں کا جو صندوق ہے ‘ اس سے چادر اور تکیے نکال کر بستر تبدیل کیا ہے ۔ خون آلود چادر بھی جلا کر اس کی راکھ غسل خانے میں بہادی ہے ۔ یہی سب کرنے کا خیال اچانک آیا تھا اور میں لوٹ آئی تھی ۔اگر کوئی کسی وجہ سے کاکڑ کے پاس آتا تو اس کی لاش ایک ہنگامے کا سبب بن جاتی ۔ خالی بستر دیکھ کر تو یہ ہی سمجھا جاتا کہ وہ قید تنہائی سے گھبرا کر نکل بھاگا ہے ۔ ‘‘ ’’ اوہ !‘‘ سونیا کے منہ سے نکلا ۔’’ میں تو اعصابی تنائو کا شکار ہوگئی تھی ‘ اور یہ کیا کہا آپ نے ؟ غسل خانہ ؟ وہاں راکھ بہائی ؟‘‘ ’’ وہاں جو نیلا پردہ دیوار سے لگا ہوا ہے ‘ وہ کوئی ڈیکوریشن کے لیے نہیں !.....اسکے پیچھے غسل خانہ ہے ۔‘‘ ’’ ہم نے دیکھا ہی نہیں ! کیوں لیڈر ؟‘‘ ’’ میں دیکھ چکی ہوں ۔‘‘ ’’ سونیا !‘‘ بانو بولیں ۔’’ میں نے تم سے رابطہ کرنے کی کئی کوششیں کی تھیں ۔‘‘ ’’ میرا موبائل ٹوٹ بھی چکا ہوگا ۔‘‘ سونیا نے جواب دیا ۔’’ مجھے ایک ٹھوکر لگ گئی تھی ۔ موبائل ہاتھ سے گرا اور ایک نشیب میں لڑھکتا چلا گیا ۔ پھر میں نے ایسی آواز سنی جیسے گہرائی میں کہیں گرا ہو ۔ ثابت تو نہیں رہا ہوگا ۔‘‘ ’’ پھر تو اس علاقے میںتمھارا تنہا کہیں جانا مناسب نہیں ہوگا ۔ ‘‘ بانو نے کہا ۔ ’’ تم میرے ساتھ رہو گی یا اپنی لیڈر کے !.....تمھاری لیڈر نے جو آج ایک کارنامہ انجام دے ڈالا ہے اور میں بھی اپنے ساتھ ایک چیز لائی ہوں ۔‘‘ میں جلدی سے بولی ۔’’ مجھے نہیں بتایا آپ نے !‘‘ بانو نے سونیا سے کہا ۔ ’’ تم بھی کچھ معلوم کرسکیں ؟‘‘ ’’ میں نے ایک جگہ کچھ روشنی دیکھی تھی ۔ قریب گئی تو معلوم ہوا کہ مارشل آرٹ کی تربیت دی جارہی ہے ۔ ایک جگہ مجھے کچھ تختے بھی نظر آئے ۔ان میں چھوٹے بڑے دائرے بھی بنے ہوئے تھے ۔ وہاں نشانہ بازی کی مشق کرائی جاتی ہوگی ۔ تختوں پر گولیوں کے نشانات تھے ۔‘‘ ’’ ہوں ۔‘‘ بانو سر ہلا کر رہ گئیں ‘ کوئی تبصرہ نہیں کیا ۔ یہ بات تو عام ہوچکی تھی کہ طالبان نے کئی جگہ تربیت گاہیں قائم کرلی ہیں ۔ میں بولی ۔’’ کیا اہم چیز اپنے ساتھ لائی ہیں بانو؟‘‘ بانو نے کچھ مڑے تڑے سے کاغذ نکال کر مجھے دیئے ۔ وہ دیکھنے کے لیے سونیا میرے قریب آگئی ۔ ’’ یہ تو قرآن شریف کے صفحات معلوم ہوتے ہیں !‘‘ ’’ ترجمہ پڑھ کر دیکھو!‘‘ بانو نے کہا ۔ ’’ پہلے وہ دیکھو جو نیچے ہے ۔‘‘ میں نے نیچے کا ورق نکال کر اس کا ترجمہ آواز سے پڑھنا شروع کیا ۔ ’’ اور جنت میں حوریں ہیں جو دنیا کی عورت سے زیادہ خوب صورت ہیں اور جب کوئی شہید ہوتا ہے تو جنت والے کو وہ روحیں.....‘ یہاں آکر میری زبان لڑکھڑا گئی ۔ بلند آواز میں پڑھنا میرے لیے ممکن نہیں رہا ۔لکھا گیا تھا کہ وہ حوریں شہیدوں کے تصرف میں رہیں گی اور ہر حور کے ساتھ اس کی ستر خادمائیں بھی ہوں گی ۔ ’’ مائی گاڈ ۔‘‘ میرے منہ سے نکلا۔ ’’ اس طرح نوجوانوں کے جذبات ابھار کر انہیں خود کش حملہ آور بنایا جاتا ہے ۔‘‘ بانو نے کہا ۔’’ یہی باتیں ایک ملا ہمارے ملک میں اپنی تقریروں کا موضوع بناتا رہا ہے ۔ میں حیران ہوں کہ حکومت اس کا نوٹس کیوں نہیں لیتی ۔ وہ قطعی طور پر طالبان کا سہولت کار ہے ‘ میں نے سنا ہے کہ نواز شریف کا ایک وزیر اس کا سرپرست ہے ۔‘‘ ’’ وزیروں کی سرپرستی میں تو بہت کچھ ہورہا ہے ۔‘‘ ’’ یہ اوراق آپ کو کہاں سے ملے بانو؟‘‘ سونیا نے پوچھا ۔ ’’ یہاں ایک پریس بھی قائم ہے ۔ ‘‘ بانو نے کہا ۔ ’’ مجھے اس میں داخل ہونے کا موقع مل گیا تھا ۔ جب پرنٹنگ شروع ہوتی ہے تو ابتدا میں خاصے کاغذ ضائع ہوتے ہیں جو مشین مین اِدھر اُدھر پھینک دیتا ہے ۔ میں وہاں سے ہی یہ مڑے تڑے کاغذ اٹھا کر لائی ہوں ۔ پریس کے علاوہ یہاں ایک مدرسہ بھی ہے وہاں یہی ترجمہ پڑھایا جاتا ہوگا ۔‘‘ ’’ نو عمر لڑکوں کو !‘‘ میں نے کہا ۔ ’’ وہ جو ایک جیپ دیکھی تھی میں نے ‘ اس میں لڑکے تھے جنہیں اغوا کر کے لایا گیا ہوگا ۔ ‘‘ ’’ ہمیں دو اہم باتیں معلوم ہوچکی ہیں ۔ ‘‘ بانو نے کہا ۔ ’’ ایک تو قرآن کا یہ غلط ترجمہ اور دوسرا یہ ثبوت کہ اسرائیل ان دہشت گردوں کو مالی امداد فراہم کر رہا ہے ۔ اسلحہ وغیرہ بھی دیتا ہوگا ۔‘‘ ’’صرف ان صفحات کی تصویریں تو کوئی ٹھوس ثبوت نہیں ہے ۔‘‘ ’’ ہاں ۔‘‘ بانو نے سر ہلایا ۔ ’’ اسی لیے میں چاہتی ہوں کہ ہم کاف مین کو یہاں سے اغوا کر لے جائیں ۔ ہمیں جو معلومات حاصل ہوچکی ہیں‘ وہ کافی ہیں ۔ تمہارا کیا خیال ہے صدف؟ تم اس مہم کی لیڈر ہو۔فیصلہ تو تمہیں کرنا ہے ۔‘‘ ’’ آپ کی موجودگی میں میرے لیڈر ہونے کی کوئی بات ہی نہیں ہے ۔ شرمندہ نہ کیجئے مجھے !‘‘ ’’ تو بس ۔‘‘ بانو نے فیصلہ کن انداز میں کہا ۔’’ کل ہمیں یہاں سے چلے جانا ہے اور کاف مین کو بھی اغواکرکے ساتھ لے جانا ہے ۔ اس کے لیے ہمیں کچھ سوچنا ہوگا ، کوئی پلاننگ کرنی ہوگی ۔ ‘‘ بانو کے چہرے پر سوچ بچار کا تاثر ابھر آیا ۔ میں اور سونیا ان کا چہرہ دیکھتی رہ گئیں ۔ کیا وہ تینوں ‘ کاف مین کو اغواکرسکیں ؟ کل کے روزنامہ 92میں پڑھیے!