پارلیمنٹ در حقیقت ایک آئین ساز ادارہ ہے اور قانون سازی کا عمل کسی بھی جمہوریت کا ایک اہم حصہ ہوتا ہے۔ اس عمل کے ذریعے ہی قوانین بنائے جاتے ہیں، جو حکومت کو عوام کے سامنے جوابدہ بناتی ہے۔ تاہم، جب قانون سازی کے درست عمل کو نظرانداز کیا جاتا ہے، یا بغیر بحث کے قوانین منظور کیے جاتے ہیں، تو یہ انصاف کی فراہمی پر سنگین اثر ڈال سکتا ہے اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے خدشات و تحفظات جنم لیتے ہیں۔ کسی بھی قانون میں ترمیم کے لئے ایوانوں میں اراکین اور قائمہ کمیٹی ایک ایسے پلیٹ فارم ہیں جو بل یا آئینی ترمیم پر غور و خوض کا موقع فراہم کرتی ہے اس لئے بحث کے بغیر قانون سازی کا عمل جمہوری اقدامات کے لئے خطرناک تصور کیا جاتا ہے بالخصوص جب کوئی بحث نہیں ہوتی ، تو عوامی نمائندوں کے لیے اپنے تحفظات کا اظہار کرنے کا، یا ماہرین کے لیے ان پٹ فراہم کرنے کا کوئی موقع نہیں ہوتا ہے۔ اس سے ایسے قوانین منظور ہو سکتے ہیں جو عوام یا بعض اداروںکے بہترین مفاد میں نہ ہوں۔ بحث کے بغیر قانون سازی کا عمل حکومت کو جوابدہ ٹھہرانا مزید مشکل بنا سکتا ہے۔ جب قوانین بغیر بحث کے منظور کیے جاتے ہیں، تو عوام کے لیے یہ سمجھنا زیادہ مشکل ہوتا ہے کہ قوانین کیوں منظور کیے گئے، اور ان کے کیا اثرات ہیں۔ سوشل میڈیا میں افواہ سازی اور پراپیگنڈہ کا غلط استعمال معاشرے میں ناہمواری کا باعث بھی بنتا ہے اور اس سے شکوک و شبہات جنم لیتے ہیں۔ اب تک جتنی بھی قانون سازی حکومت کے اقتدار کی مدت مکمل سے کچھ دن قبل ہوئی، اس سے اس بحث نے جنم لیا ہے کہ آخر کیا وجہ ہوسکتی ہے کہ اراکین کو آگاہ کئے بغیر اسپیڈقانون سازی کی جا رہی ہے، دلچسپ امر یہ بھی ہے کہ تیز رفتار قانون سازی کی منطق خود حکومتی اتحادیوں کو بھی سمجھ میں نہیں آئی۔ بادی النظر موجودہ مخلوط حکومت کو اپنی مدت ختم ہونے سے قبل متعدد اہم قوانین کی منظوری کے لیے نامعلوم دباؤ کا سامنا ہے۔حکومت کو بہت سے چیلنجز کا سامنا ہے، جن میں ایک جدوجہد کرتی ہوئی معیشت اور بڑھتا ہوا سکیورٹی خطرہ شامل ہے۔ غالب امکان یہ بھی ہے حکومت جاتے جاتے عوام کی توجہ ان مسائل سے ہٹانا چاہتی ہے جس میں سخت فیصلوں کی وجہ سے انہیں سیاسی طور پر نقصان اٹھانا پڑا ۔ تیزرفتار قانون سازی اور ترامیم بل ، بغیر بحث کے منظور کیے جانے کے حالیہ رجحان نے غلط استعمال کے امکانات کے بارے میں خدشات کو جنم دیا ہے۔ کچھ لوگوں نے یہ بھی سوچا کہ کیا یہ کسی اپوزیشن پارٹی کو نشانہ بنانے یا سیاسی فائدے حاصل کرنے کے خفیہ ایجنڈے کا حصہ ہے۔ جمہوریت میں، قانون سازی کے عمل کو حکومت کی طاقت پر ایک چیک سمجھا جاتا ہے۔ یہ عوامی رائے اور بحث کی اجازت دیتا ہے، اور یہ یقینی بنانے میں مدد کرتا ہے کہ قوانین لوگوں کے بہترین مفاد میں بنائے جائیں۔ یہ یقینی طور پر کہنا ناممکن ہے کہ پاکستان میں تیز رفتار قانون سازی کا حالیہ رجحان کسی خفیہ ایجنڈے کا حصہ ہے یا نہیں۔ تاہم، فکر مندی ضرور ہے۔ اس کے علاوہ، حکومت پر مبینہ الزام لگایا گیا ہے کہ انہوں نے پارلیمنٹ میں اپنی اکثریت کو قانون سازی کے ذریعے ریل روڈ پر استعمال کیا اور صحیح جانچ نہیں کی ۔ اس کی وجہ سے یہ الزامات لگ رہے ہیں کہ حکومت جمہوری عمل کو نظر انداز کر رہی ہے۔کوئی خفیہ ایجنڈا نہ ہونے کے باوجود بھی جلد قانون سازی کے خطرات حقیقی ہیں۔ جب حکومت سیاسی مصلحت سے متاثر ہوتی ہے، تو اس کے ایسے قوانین منظور کرنے کا زیادہ امکان ہوتا ہے جو غیر منصفانہ ہوں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ حکومت کا عوام پر قوانین کے اثرات کے بارے میں فکر مند ہونے کا امکان کم ہے، اور اپنی سیاسی قسمت پر قوانین کے اثرات کے بارے میں زیادہ فکر مند ہے۔ حکومت کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے قانون سازی کے عمل میں زیادہ شفاف اور جوابدہ ہو۔ حکومت کو اپنے قوانین کے عوام پر اثرات کا بھی زیادہ خیال رکھنا چاہیے۔ اسپیڈ قانون سازی کا حالیہ رجحان ایک خطرناک پیش رفت ہے۔ اس سے ایک ایسی حکومت کا خوف پیدا ہوا جو اپنی طاقت کو مستحکم کرنے کے لیے جمہوری عمل کو نظر انداز کرنے پر آمادہ ہو۔ یہ تباہی کا ایک نسخہ ہے، اور اسے کسی عمل کی حمایت نہیں کی جاسکتی اسے روکنا چاہیے تھا۔ حکومت کو اپنے قانون سازی کے عمل میں زیادہ شفاف اور جوابدہ ہونا چاہیے۔ اسے عوام پر اس کے قوانین کے اثرات کا بھی زیادہ خیال رکھنا چاہیے۔ فعال جمہوریت کے لیے قانون کی حکمرانی ضروری ہے۔ کوئی بھی حکومت بغیر بحث کے قوانین پاس کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہے تو یہ قانون کی حکمرانی کو نقصان پہنچاتی ہے اور غلط استعمال کے دروازے کھول دیتی ہے۔ حکومت کو جمہوری عمل کا احترام اور قانون کی حکمرانی کو برقرار رکھنا چاہیے۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) اور اتحادیوں کو اجتماعی طور پر تیز رفتار متنازع قانون سازیوں کا بوجھ اپنے کندھے پر اٹھانا پڑے گا لیکن سب سے زیادہ نقصان ن لیگ کو ہی ہوگا کیونکہ حکمرانی کا نمایاں چہرہ ان کاہے۔ غیر مقبول فیصلے کس دبائو کے تحت کئے گئے ،اس کا آنے والے وقت میں علم ہوسکے گا تاہم تحفظات ہیں کہ اس کا خمیازہ عوام کو بھگتنا نہ پڑے۔ آئندہ انتخابات کا تاخیر سے ہونے کا ابہام بہر صورت برقرار ہے بلکہ تحفظات بڑھ رہے ہیں کہ جانے والی حکومتیں عام انتخابات کے موقع پر ایسے اقدامات سے گریز کرتی ہیں ۔عام انتخابات کی تاخیر سے ن لیگ کو مزید سیاسی دبائو کا سامنا کرنا پڑے گا بالخصوص اتحادیوں جماعتوں سے جنہیں اپنا ووٹ بنک بڑھانے اور مینڈیٹ حاصل کرنے کے لئے سیا سی پوائنٹ اسکورنگ کرنے کا یقینی امکان ہے ۔