کہنے کو بہت کچھ‘ مگر سنتا کون ۔ جس ملک کے وزیر اعظم آفس کی آڈیو ریکارڈنگ سوشل ویب پر فروخت کے لئے پیش کی جائے ،وہاں کچھ بھی ہو سکتا ہے۔اس ملک اور معاشرے کا اللہ حافظ، جہاں پر شعبدہ بازمعزز اور نجیب خوار و زبوں۔ آڈیو لیکس کے بعد وزیر اعظم شہباز شریف اور محترمہ مریم نواز کی اخلاقی پوزیشن خراب ہوئی‘ وہی پر عمران خاں کے سائفر کا بھی جنازہ نکلا۔اب تو سائفر غائب ہی ہو گیا،کہانی ختم : نہ رہے گا بانس نہ بجے گی بانسری عمران خاںلاکھ شور مچائیں،جلسے کریں یاجلوسوں میں کاغذ لہرائیں۔ مچاتے پھریں۔ شہر شہر قریہ قریہ ان کی آواز سننے والے لاکھوں موجود،مگر اب تحقیق کس پر ہو گی ۔کیونکہ مدعا ہی ختم ہو گیا ۔تحریک انصاف کے جنرل سیکرٹری اسد عمر نے بجا فرمایا: شکر کریں،سائفر غائب ہوا،کہیں آگ نہیں لگی ۔پاکستان میں ریکارڈ غائب کرنے کے لیے شارٹ سرکٹ کا کردار بھی سامنے آتا ہے ۔لاہور ایل ڈی اے پلازہ میں ریکارڈ غائب کرنے کے کی بجائے ،آگ نے بلڈنگ ہی جلا دی۔اسلام آباد پی آئی ڈی میں شارٹ سرکٹ نے ریکارڈ جلا دیا تھا ۔ حکمران اتحاد نے نیب ترامیم کے تحت اپنے کیسز ختم کرا لئے۔بیٹی باعزت بری، والد بھی چند دنوں تک صادق و امین قرار دیے جائیں گے ۔پھر سیاسی میدان سجے گا، عوام کو ایک بار پھر بیوقوف بنانے کے لئے سیاستدان اپنے اپنے مورچے سنبھالیں گے۔اسٹیبلشمنٹ اپنے مہرے تیار کرے گی، یوں یہ نظام چلتا رہے گا مگر غریب کا اس میں کیا فائدہ۔سیلاب متاثرین اگلے چھ مہینے تک گھروں کو واپس نہیں جا سکتے۔بجلی کے بل کپڑے بیچ کر ادا کیے جا رہے ہیں ۔دو وقت کی روٹی کھانے کے لالے پڑے ہیں ۔غریب روٹی کو ترس رہا، امیر کی امارت دن بدن بڑھ رہی ہے ۔ہر طرف ایک طوفان بدتمیزی برپا۔مریم اورنگزیب پر آوازے کسنے والوں نے بھی کسی کی کوئی خدمت نہیں کی، حد سے زیادہ کشیدگی سیاست ہی نہیں قوم کو بھی برباد کر دیتی ہے۔ نون لیگ نے لاکھ برا کیا مگر پی ٹی آئی والے بھی ایک دن پچھتائیں گے۔ عظیم دانشور نے کہا تھا: صبر کا ایک لمحہ بڑی تباہی سے بچا سکتا ہے اور بے صبری کا ایک لمحہ پوری زندگی برباد کر سکتا ہے۔ احسن اقبال پر آوازے کسے گئے، بعدازاں فیملی نے آ کر معذرت کی۔ صبر ہر مصیبت کا بہترین علاج ہے۔صبر فاتحانہ صفت ہے، حصول منازل کے لئے صبر پہلی سیڑھی ہے۔حضرت خضرؑ نے حضرت موسیٰؑ سے کہا تم صبر نہیں کر سکو گے۔ پے درپے واقعات کے بعد کلیم اللہ کا صبر جواب دے گیا۔لیکن حصول علم کے لئے آپ کو صبر کرنے کا کہا گیا۔بڑے معرکوں کو سر کرنے کے لئے صبر پہلی سیڑھی ہے مگر یہاں الٹی گنگا بہتی ہے۔جاوید لطیف نے چند روز قبل ایسا زہر پھیلایا کہ اگر ان کے زہریلے الفاظ دریائوں اور ندیوں میں ملا دیے جائیں تو سارے کا سارا پانی زہر آلود ہو جائے۔وقت تیزی کے ساتھ گزر رہا ہے مگر سیاستدانوں سمیت عوام خود تساہل تعیش اور باہمی خلفشار کا شکار ہیں۔مشہور برطانوی مورخ ایڈورڈ گبن نے مشرق کے شاہی خانوادوں کی داستان حیات کو پانچ لفظوں میں بیان کیا ہے۔جانبازی‘ عظمت ‘ ناچاقی‘ ابتذال اور فنا۔یہ قول مشرق کے شاہی خانوادوں پر صادق آکر رہا۔یہاں تک کہ اٹھارویں صدی کے وسط میں ایک نووار قوم کے غلام بن گئے۔ انگریز یہاں آئے بھی اجنبی بن کر اور یہاں رہے بھی اجنبی بن کر۔ انہوں نے یہاں کا مذہب اختیار کیا نہ بودوباش ۔چنانچہ ایسی قوم کا یہاں سے کوچ کرنا مقدر تھا۔مگر ہمارے سیاسی لوگ بڑے عقلمند ہیں، انہوں نے ہر سیاسی پارٹی میں بیٹی‘ بیٹے ‘ پوتے ‘ پوتی ،نواسے ،نواسی یا بھتیجے بھتیجی کو بیاہ رکھا ہے۔یہ اقتدار سے نکل کر بھی اقتدار میں ہی ہوتے ہیں۔اس بناء پر نہ صرف انگریز سے زیادہ چالاک نکلے بلکہ ان کی سیاست کو دوام بھی۔ اسٹیبلشمنٹ اور بیورو کریسی میں رشتہ داری قائم کی تو 60برس تک اقتدار کی راہداریوں میں مٹر گشت کر رہے ہیں۔ اسحق ڈار کی واپسی کو ہی دیکھ لیں، میاں نواز شریف لندن بیٹھ کر بھی اب اقتدار میں مکمل ان ہیں۔اسحق ڈار کی تائید کے بغیر شہباز شریف ایک قدم نہیں اٹھائیں گے اور ڈار صاحب کا سانس بھی بڑے میاں صاحب کی سانس کے ساتھ نتھی ہے۔موجودہ مسلم لیگ میں کسی کی بھی جرات نہیں کہ وہ اسحاق ڈار کے سامنے اونچا بول سکے ۔لہذا میاں نواز شریف نے بڑا پتہ کھیل کر واسپی کی راہ ہموار کی ہے ،ڈا رصاحب کے نہ صرف اسٹبلشمنٹ کے ساتھ اچھے تعلقات قائم ہیں بلکہ خزانے کی چابی بھی ان کی جیب میں۔میاں نواز شریف نے بظاہر ایک اچھا کھیل کھیلا ہے۔نومبر سے قبل ان کی واپسی کی بھر پور کوشش ہے۔لندن میں موجود ذرائع نے بھی اس کی تصدیق کی ہے کہ چند دنوں تک مریم نواز بھی لندن چلی جائیں گی،اکتوبر کے آخر میں والد کے ساتھ اسلام آباد ائیر پورٹ پر لینڈنگ کا پروگرام ہے ۔ پیپلز پارٹی‘ نون لیگ اور پی ٹی آئی میںبعض ایسے سیاستدان موجود ہیں،جن کے خونی رشتہ دار مخالف پارٹی میں ہیں ۔تاکہ خاندان کا کوئی نہ کوئی فرد اقتدار میں موجود ہے۔مرزا غالبؔ نے کہا تھا: ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ دیتے ہیں دھوکہ یہ بازی گر کھلا امت محمدیہ وجود میں آئی تو مشرکین مکہ سے ٹکرائی۔ پھر منافقین مدینہ اور خیبر کے یہود سے‘قیصر و کسریٰ کے عساکر سے۔قرآن کریم سب سے پہلے عرب شعرا اور خطبا کی سحر بیانی سے ٹکرایا تھا۔ بعدازاں بازنطینی اور یونانی فکر سے۔مسلمان صوفیا نے عیسائی راہبوں کے کشف و کرامات کے پول کھولے۔ اسی طرح کش مکش کا یہ سلسلہ جاری رہے گا ،کوئی بھی سیاستدان بیورو کریسی کے طائفے سے نبردآزما ہو سکتا ہے نہ اسٹیبلشمنٹ سے۔ کل تک جو لوگ کہتے تھے کہ پانامہ کیس کی تحقیقات میں والیم دس جب کھلے گا تو بڑے بڑے چہروں سے نقاب سرکیں گے۔اب کئی چہرے بے نقاب ہو چکے ہیں۔ غریب عوام کے جذبات کے ساتھ امرا سیاستدانوں اور وڈیروں کا کھیل جاری ہے اور رہے گا تاآنکہ ایک منادی اعلان کرے گا کہ اگلے انتخاب فلاں فلاں تاریخ کو ہونگے۔ اس اعلان کے بعد سب بہروپیوں کی ٹانگیں کانپیں گی کیونکہ تب سے اگلے تین مہینے ان کے حساب و کتاب کے ہونگے جس میں انہیں عوام سے سامنا کرنا ہو گا۔لیکن اگر انھوں نے صبر سے کام لیا تو کامیابی سے ہمکنار ہوں گے ورنہ اگلے پانچ برس کا پچھتاوا۔