اسلام دنیا کا دوسرا سب سے بڑا مذہب ہے۔اسلام مشرق وسطی، شمالی افریقہ اور ایشیا کے بعض علاقوں میں غالب اکثریت کا دین ہے۔ جبکہ چین، بلقان، مشرقی یورپ اور روس میں مسلمان بڑی تعداد میںموجود ہیں۔مسلم مہاجرین کی کثیر تعداد دنیا کے دیگر حصوں مثلا مغربی یورپ میں آباد ہے۔ایک امریکی تھنک ٹینک پیو فورم آن رلیجن اینڈ پبلک لائف کی رپورٹ کے مطابق اس وقت دنیا میں مسلمانوں کی تعداد ایک ارب ستاون کروڑ ہے اور ان میں سے ساٹھ فیصد براعظم ایشیا میں رہتے ہیں۔ اس رپورٹ کی تیاری میں تین برس کا عرصہ لگا اور اس دوران دنیا کے دو سو بتیس ممالک اور علاقوں سے مردم شماری کے اعدادوشمار اکٹھے کیے گئے۔محققین نے رپورٹ کی تیاری کے لیے مردم شماری رپورٹس، ڈیموگرافک سٹڈیز اور آبادی کے عام سروے جیسے پندرہ سو ماخذ سے استفادہ کیا۔اس رپورٹ کے مطابق مسلمانوں کی کل تعداد کا بیس فیصد مشرقِ وسطٰی اور شمالی افریقہ میں رہتا ہے جبکہ اعدادوشمار کے مطابق اس وقت جرمنی میں لبنان سے زیادہ مسلمان بستے ہیں اور روس میں مسلمانوں کی تعداد لیبیا اور اردن کے مسلمانوں کی مجموعی تعداد سے زیادہ ہے۔یہ رپورٹ تیار کرنے والے سینئر محقق برائن گرم نے سی این این کو بتایا ہے کہ ان کے لیے مسلمانوں کی اتنی بڑی تعداد حیران کن ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’مسلمانوں کی کل تعداد میرے اندازوں سے کہیں زیادہ ہے۔ اس وقت دنیا کے بڑے وسائل اسلامی دنیا کے پاس ہیں اوراسی طرح دنیا کے بڑے بڑے مسائل بھی اسلامی دنیا کے حصے میں ہیں۔قطع نظر تفصیل کے،جب بھی اسلامی ممالک میں سے کسی ایک پرکوئی مشکل آتی ہے توستاون مسلم ممالک کو جیسے سانپ سونگھ جاتاہے۔ ان کے حکمران جیسے بھیڑوں کا ریوڑبن جاتے ہیں جو دنیا میں کٹتے مٹتے مسلمانوں کے خون کا تماشا کرتے ہیں۔ دوسری جانب یورپ اور مغرب ہے جو انسانوں کو ’’بچانے ‘‘کے نام پرکبھی افغانستان پر چڑھائی کرتا ہے کبھی عراق اس کو ’’پکارتا‘‘ ہے۔کبھی ایران میں ’’انسانی حقوق کی پامالی‘‘ کو ختم کرنے کو دوڑتے ہیں کبھی کوریا انہیں کھٹکتا ہے کبھی شام،کبھی برما اور کبھی یمن ان کی نظروں سے اوجھل ہو جاتے ہیں۔ مسلمانوں کو دبا کر رکھنے اور ان کے وسائل لوٹنے کے لیے سب متحد ہیں۔ اسلام کو ایک جنگ جو دین اور مسلمانوں کو دہشت گرد قوم ثابت کرنے کے لیے عالم گیر پیمانے پر پروپیگنڈا کیا جا رہا ہے۔صہیونی میڈیا کی قوت کے بل پر دنیا کی اکثریت اس جھوٹ کا شکار بنا دی گئی ہے ۔ مسلمانوں کے اندروہ اتحاد و یگانگت مفقود ہے جو اس اسلام کی دعوت حق میں تاثیر پیدا کرنے کے لیے ضروری ہے ۔ آج یورپ و امریکا میں انسانیت کو مٹا کر اپنی بالا دستی قائم کرنے کے طریقوں پر تو اختلاف ہو سکتاہے‘ لیکن اس بات پر وہ سب عملاً متفق ہیں کہ زندہ رہنے کا حق صرف ان ہی کو حاصل ہے۔امریکہ ایک قہر خداوندی کی شکل میں اسلام کے قلب پر ٹوٹا تو اسلامی دنیا کے حکمران توقع کے عین مطابق بے چارگی اور کسمپرسی کے انداز میں نہ صرف اس کے سامنے سپر انداز ہو گئے۔یہ حقیقت بھی کچھ کم الم انگیز نہیں کہ اس چیلنج کو اسلامی دنیا کے ضمیر نے بھی جرات و ہمت سے قبول نہیں کیا۔یہاں تک کہ وہ اسلامی تحریکات بھی اس چیلنج کو کماحقہ سمجھ پائیں‘نہ ہی ان کی طرف سے اس کا مقابلہ یا تدارک کرنے کی کوئی اجتماعی سعی دیکھنے میں آئی ۔ مختلف ممالک میں اسلامی تحریکیں مقامی مسائل اور معاملات میں الجھی رہیں اور ان کی طرف سے بھی امریکی جارحیت کا جواب اس فہم و فراست اور بصیرت سے نہیں دیاگیا جس کا وقت تقاضا کرتا تھا۔ اس کے برعکس ایک عمومی ناامیدی‘بے جواز غم و غصے یا حالات سے سمجھوتے کی کیفیت پائی جاتی ہے۔یہ درست ہے کہ اسلامی تحریکات کے لیے موسم ناموافق ہے‘ لیکن اہل حق کے لیے تائید و نصرت الٰہی کے سوا پہلے کوئی مادی سہارا تھا‘نہ آج موجود ہے۔یہ بھی درست ہے کہ اسلامی دنیا مغرب کے گھیرے میں آ ئی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔مغربی فکر‘اقدار‘ٹیکنالوجی‘ ثقافت‘ معاشرت اور معیشت سے پہلے ہی مسلمانوں پر دائرہ تنگ ہو رہا تھا‘اب سیاسی اور عسکری غلبہ بھی مسلط ہو رہا ہے۔بڑھتے ہوئے دبائوسے بہت سے لوگ گھبرا کر کہتے ہیں کہ اس وقت اسلامی تشخص برقرار رکھنا اور مسلم قوم کی بقا اور وجود کو باقی رکھنا اصل چیلنج ہے۔ لیکن کیا عجب تاریکیوں کا یہ سفر اسلام کی پر نور منزل پر پہنچنے کا پیش خیمہ ثابت ہو۔یہ بھی درست ہے کہ علمائے اسلام کو مغرب اپنے راستے کا روڑا سمجھتا ہے‘ سردست وہ ان کی کوئی بات سننے کو تیار نہیں ہوگا لیکن اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ ستاون ممالک بائیس تیئس ممالک کے سامنے گھٹنے ٹیک دیں۔ امریکا اور اس کے اتحادی اگر ہزاروں میل دور کا سفر کر کے عراق‘ افغانستان اور دیگر ملکوں پر چڑھائی کر سکتے ہیں تو دنیا کی کس کتاب میں لکھا ہے کہ غزہ کے محصور سولہ لاکھ انسانوں کی مدد کے لیے کوئی بھی اسلامی حکمران بات بھی نہیں کر سکتا اور یہ بھی ناممکن بنا دیاگیا ہے کہ وہ اسلام کا عالمگیر سچ ان ظالموں کے سامنے پیش کریں اور ان کی دوہری اور دو غلی پالیسی کا بودہ پن کھول کر بیان کر سکیں۔ ان حکمرانوں کے پاس کچھ کرنے کا وقت کم رہ گیا ہے۔ ستاون ملکوں کے گونگے بہرے حکمرانوں کو اپنی اس معذوری کا علاج تلاش کرناہوگا ورنہ یہ معذوری ہمیں ذلت کی گہرائیوں میں لے جائے گی۔امریکا اور اس کے اتحادی ایک ایک کر کے اسلامی ملکوں کو اسی طرح کچلتے جا ئیں گے اور ہر ایک اپنی گردن بچانے کی فکر میں رہے گا تو پھر وہ وقت بہت جلد آ جائے گا جب یہ چار چار کنال کے جسم‘طوفانی پیٹ اوردودو مرلے کی گردنیں ایک ایک کر کے ڈرون حملوں راکٹوں اور ’’جعلی مقابلوں‘‘ میں اڑا دی جائیں گی۔