اسوقت پنجاب بھر میں سرکاری اسکولوں کے لگ بھگ تین لاکھ اساتذہ کا احتجاج جاری ہے۔ سرکاری اسکولوں کی نجکاری کے خلاف تمام اساتذہ سڑکوں پر ہیں اور اپنے حق کیلیے سراپا احتجاج ہیں اور اس جرم کی پاداش میں سینکڑوں جیل کی ہوا کھانے پر مجبور ہیں۔ وطن عزیز کا المیہ ہے کہ اول تو ہم سے کچھ چلتا نہیں ، کسی بھی ادارے کو چلانے کے چکر میں اسکا مزید ستیاناس کر دیاجاتا ہے اور جب کسی ادارے کا بیڑا غرق ہو جاتا ہے تو سرکار ایک سوتیلی ماں کا روپ دھارتے ہوئے اس غرق شدہ ادارے یامحکمے کو کسی اور کے حوالے کر دیتی ہے۔ یہ طبع آزمائی پہلے پی آئی اے اور محکمہ ریلوے کے ساتھ کرنے کی کوششیں کی گئیں اور اب محکمہ تعلیم کیساتھ بھی یہی کیا جا رہا ہے۔ ملک بھر میں غربت، مہنگائی اور بیروزگاری نے پہلے ہی عوام کا جینا محال کر دیا ہے اور سرکاری اسکولوں کے اساتذہ کی آزمائش مزید سوا ہو گئی ہے۔ ایک جانب پرائیویٹ سیکٹر نے تعلیم کو کاروبار بنا رکھا ہے جہاں مہنگی فیسیں اور تعلیمی اخراجات عام آدمی کی پہنچ سے دور ہیں۔ وہیں غریب اور محنت کش طبقے کے لیے سرکاری اسکول کے علاؤہ اور کوئی آپشن نہیں کہ جہاں سے وہ اپنے بچوں کو تعلیم دلوا سکیں۔ سرکاری طلباء و طالبات کی اکثریت ان گھرانوں سے تعلق رکھتی ہے جہاں بمشکل روٹی، بجلی اور گھر کے کرایوں کے بھاری اخراجات کے بعد کچھ بچتا ہو۔ پاکستان میں پہلے ہی لگ بھگ دو کروڑ سے زائد بچے اسکول سے باہر ہیں اور ابتدائی تعلیم سے محروم ہیں اور سرکاری تعلیمی اداروں کی پرائیوٹائزیشن طلباء کو تعلیم سے محروم کرنے کے مترادف ہے۔ فی الحال ابتدائی مرحلے میں تقریباً دس ہزار اسکولوں کو این جی او کے تحت کیا گیا ہے جنکے تحت یہ ادارے چلائے جائیں گے۔ اگرچہ نگران حکومت کے اس عمل کو محض ایک افواہ یا پراپیگنڈا بھی کہا جا رہا ہے اب یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا کہ یہ حقیقت ہے یا فسانہ۔ لیکن احتجاج کرتے لاکھوں اساتذہ شدید مشکلات کا شکار ہیں۔ جیلوں میں بند اپنے حقوق کی جنگ لڑرہے ہیں انکی پریشانی یہ بھی ہے کہ سرکاری مراعات کے ساتھ پینشن اور ریٹائرمنٹ پر ملنے والی پینسشن میں بھی کمی کی جارہی ہے۔ نیز سالانہ ترقی جو ہر سال دسمبر میں دی جاتی تھی اس کوبھی ختم کیاجا رہا ہے۔ این جی اووز اور نجی شعبے کے حوالے کیے جانے کا یہ عمل والدین کے لیے بھی یکساں پریشانی کا باعث ہے۔ ہڑتال اور تعلیمی اداروں میں اساتذہ کی عدم موجودگی کے باعث تعلیمی سلسلہ منقطع ہوگیا ہے۔ اکثر اسکولوں میں پڑھائی کا سلسلہ تعطل کا شکار ہے اور طلباء و طالبات کا قیمتی وقت ضائع ہو رہا ہے۔ بقول والدین کے ہم اپنی محنت مزدوری اور نوکریوں پر چلے جاتے ہیں اور بچے سارا دن کھیل کود میں مشغول رہتے ہیں۔ پنجاب حکومت نے اس خبر کو محض ایک پروپیگینڈہ قرار دیا ہے ان کا کہنا ہے کہ ہم سرکاری سکولوں کی حالتِ زار میں بہتری لانا چاہ رہے ہیں اور انکا معیار تعلیم بلند کرنا چاہتے ہیں۔ یہاں یہ سوال جنم لیتا ہے کہ آخرہر ادارے کی بہتری اور بھلائی کیلیے ہمیں نجکاری کے عمل پر انحصار کیوں کرنا پڑتا ہے؟ ہمارے تمام سرکاری ادارے بھلے وہ ریلوے ہو، تعلیم ہو ، صحت ہو یا دیگر اداروں کی تنزلی ! سبھی کو چلانے کیلیے آخر کون سی راکٹ سائنس درکار ہے؟ انہی اداروں کے نام پر عوام سے بھاری ٹیکس وصول کیا جاتا ہے۔ سالانہ بھاری ریونیو اکٹھا کیا جاتا ہے لیکن جب بجٹ آتا ہے تو ہمیشہ کی طرح تعلیم اور صحت کے شعبے کو سب سے کم بجٹ ملتا ہے۔ عوام الناس کے مستقبل سے جڑے تعلیم و صحت کے شعبے کو نظر انداز کر کے سرکار حقیقتاً ایک سوتیلی ماں کا کرادار ادا کرتی ہے اور اب سرکاری سکولوں کی نجکاری اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہے اور بلاشبہ غریب کے بچے کو اسکے تعلیمی حق سے محروم رکھنے کے مترادف ہے۔ ایک جانب پرائیویٹ سیکٹر عوام کا خون چوس رہا ہے تو دوسری طرف سرکاری تعلیمی اداروں کی کارکردگی بھی اگرچہ اتنی حوصلہ افزا نہیں تھی لیکن بہرحال بنیادی تعلیم کا سلسلہ تو جاری تھا۔ اب اس پر بھی کاری ضرب لگا کر غریبوں کو جہالت کے اندھیروں میں دھکیلا جا رہا ہے۔ تعلیم کے شعبے سے وابستہ ہونے کے ناطے یہ میرا فرض ہے کہ اس ظلم و زیادتی پر آواز اٹھاؤں۔ میں اور مجھ جیسے کتنے ہی افراد جو سرکاری اداروں سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد مختلف شعبہ ہائے زندگی میں کامیابی سے اپنا کردار ادا کر رہے ہیں اور اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ بلاشبہ سرکاری تعلیمی اداروں کی زبوں حالی کے باوجود انہیں اداروں سے تعلیم حاصل کرنے والے طلباء و طالبات محنت و مشقت کی چکی میں پسنے کے بعد ملک کو قوم کا نام روشن کرنے میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔ یہ بات واضح ثبوت ہے کہ اگر پاکستانی بچوں کو بہترین قیادت اور بہترین تعلیمی ماحول مہیا کیا جائے تو وہ اپنی محنت اور ذہانت سے وطن عزیز کو ترقی کی راہ پر گامزن کر سکتے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں کتنے ہی غریب گھرانوں کے بچے بچیاں ہیں جو غربت و تنگدستی کے باوجود ، سرکاری اداروں کی زبوں حالی اور ناکافی سہولیات کے باوجود اپنی اور اساتذہ کی محنت سے زندگی میں آگے بڑھنے اور نمایاں مقام حاصل کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں۔ لہذا نگران حکومت ہو یا الیکشن کے بعد آنے والی نئی حکومت ، ان سے گزارش ہے کہ اس مسئلے کا دیر پا اور مناسب حل نکالے۔ سرکاری اداروں کی نجکاری کے بجائے محکمہ تعلیم کے سالانہ بجٹ میں سو گنا اضافہ کیا جائے۔ تعلیمی نصاب سے لے کر اسکول کی عمارتوں پر پیسہ خرچ کیا جائے۔ تعلیم کو اولین ترجیح دیتے ہوئے کتابیں اور یونیفارم مہیا کیے جائیں اور اپنے عیش و عشرت کی قربانی دے کر آنے والی نسلوں کا مستقبل سنوارنے پر توجہ دی جائے ورنہ تاریخ میں ہمارا نام ایک ناکام ریاست کے طور پر کیاجائے گا۔