پچھلے ہفتے رؤف کلاسرا شادی میں شرکت کے لیے لاہور آئے ہوئے تھے، کمالِ مہربانی وہ تھوڑی فرصت پاکر تشریف لائے، ان کے ساتھ ساتھ انہی کی وساطت سے عامر خاکوانی صاحب سے بھی ملاقات ہوگئی، مختلف موضوعات زیر بحث رہے ، سیاست ، صحافت، کتابیں اور پتہ نہیںکیا کیاکچھ۔ کسی بات کے جواب میں ایک مختصرکہانی کہنا شروع کی مگر بات بیچ میں رہ گئی، بوقتِ رخصت عرض کیا، کہانی ادھوری رہ گئی مگر کوئی بات نہیں، آئندہ ہفتے کے کالم میں لکھ دوں گا۔ آپ کی وجہ سے قارئین بھی پڑھ لیں گے۔ وسیم سجاد سینیٹ کے چیئرمین تھے، صدر مملکت غلام اسحاق خان کے مستعفی ہونے کے بعد وہ قائم مقام صدر کے فرائض انجام دیتے رہے، یاد رہے کہ صدر پاکستان اور وزیر اعظم نواز شریف کے مابین طویل کشمکش کے بعد فوج کی مداخلت سے دونوں کو مستعفی ہونے پر آمادہ یا مجبور کردیا گیا تھا، وزیر اعظم منصب سے الگ ہوئے تو اسمبلیاں بھی تحلیل کردی گئیں۔ نئی انتخابات ہوئے جس کے نتیجے میں پیپلزپارٹی کی چیئرپرسن بے نظیر بھٹو نے وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھالا، مسلم لیگ کے نواز شریف اپوزیشن لیڈر مقرر ہوئے، پنجاب میں مسلم لیگ کو اکثریت حاصل تھی، چنانچہ شہباز شریف وزیراعلیٰ بن گئے، سندھ اور صوبہ سرحد کی حکومتیں پیپلزپارٹی کے حصہ میںآئیں، اب منصب صدارت کا معرکہ درپیش تھا، سینیٹ میں پیپلزپارٹی کی نمائندگی نہ ہونے کی برابر تھی، یوں صدارتی انتخاب میں پیپلزپارٹی کے مقابلے میں اپوزیشن کے ووٹ زیادہ تھے، وسیم سجاد چیئرمین سینیٹ تھے ، سینیٹرز کے ساتھ ان کے تعلقات ہمیشہ خوشگوار رہے، نواز شریف نے وسیم سجاد کو عہدہ صدارت کے لیے میدان میں اتارا، پیپلزپارٹی کے امیدوار سردار فاروق خان لغاری تھے، وسیم سجاد کو فاروق لغاری کے مقابلے میں کم از کم بیس ووٹوں کی برتری حاصل تھی، ایک مرحلے پر بے نظیر بھٹو آمادہ تھیں کہ اس اہم عہدہ پر شکست کا داغ لینے اور صدر کو اپنا مخالف بنالینے کی بجائے وسیم سجاد کو بلامقابلہ منتخب کرلیا جائے لیکن آصف علی زرداری جو خود بھی اسمبلی کے ممبر منتخب ہوئے تھے، ان کا ارادہ تھا کہ اب کے بار مکمل اختیارات اور قوت کے ساتھ حکومت کی جائے تاکہ کوئی رکاوٹ ان کے ارادوں میں حائل نہ ہوسکے، چنانچہ انہوں نے بے نظیر کو قائل کرلیا کہ ووٹوں کا فرق زیادہ نہیں ، ہمیں بس تھوڑے ہی ووٹ خریدنا پڑیںگے اور چند ووٹ مرکزی حکومت کے اثرورسوخ سے حاصل ہوجائیں گے، چنانچہ سینیٹ اور قومی اسمبلی کے ممبران میں سے خریداری شروع ہوئی، چند ایک کو مرکز میں وزارت کا لالچ دے کر بہلایا گیا ، سینیٹ میں بکنے والے تین ممبران کے بارے میں وسیم سجاد بھی جانتے تھے،ہماری موجودگی میں ایک بکنے والے گھوڑے کی زبانی پوری روئیداد ہم نے کانوں سنی، اگرچہ آنکھوں دیکھی تو نہ تھی مگر ’’From Horse's Mouth‘‘سننے کا لطف کچھ اور تھا۔ منڈی لگی، خریداری ہوئی، ان بکنے والوں میں سب سے دلچسپ کہانی ایم کیو ایم کی ہے، اس کی تفصیل آئندہ کسی نشست تک اٹھارکھتے ہیں۔ وسیم سجاد حسبِ روایت بڑے وقار کے ساتھ میدان میں رہے، انہوں نے اوچھے ہتھکنڈے آزمائے نہ میدان میںاتارنے والوں کو ووٹوں کی خریداری کیلئے کہا ، چنانچہ پاکستانی سیاست کی روایت کے مطابق اصول اور ایمانداری منہ دیکھتی رہ گئی اور فاروق لغاری ’’صدرِ پاکستان ‘‘منتخب ہوگئے۔ اس صدارتی معرکے میں راقم الحروف کا ووٹ وسیم سجاد کے لیے نہیں تھا، باوجودیکہ وہ میرے دوست تھے، خوشگوار ، شریف النفس مگر نواز شریف کا امیدوار ہونے کی وجہ سے نہ چاہتے ہوئے بھی ووٹ کا حق فاروق لغاری کے لیے استعمال کرنا پڑا، ویسے فاروق لغاری کی ذاتی شہرت بہت اچھی تھی، پرہیز گار ، تہجد گزار ، دیانتدار۔ یہی ایک ووٹ بعد میں بے نظیر حکومت کے لیے بھاری پڑنے والا تھا۔ اب آتے ہیں اصل کہانی کی طرف ، جو اس دن کہنے سے رہ گئی تھی، صدارتی الیکشن کے چند دن بعد حسبِ عادت ’’واک‘‘کے لیے ’’ای سیون‘‘ کی پکڈنڈی (ٹریل) پر کار سے اترا تو پیچھے سے وسیم سجاد صاحب کی آواز سنائی دی، مڑ کے دیکھا تو وہ برآمدے کی چھت پر سرما کی دھوپ سے لطف اندوز ہورہے تھے،بولے،آئیے! چائے پیتے ہیں۔ کہا، واپس آؤں گا۔ ملاقات ہوئی، صدارتی انتخاب کے بعد تنہائی میں یہ ہماری پہلی ملاقات تھی، وسیم سجاد جانتے تھے کہ راقم نے ووٹ انہیں نہیں دیا۔ کہنے لگے، چوہدری صاحب! اب دیکھئے ، سیاست کا توازن باقی نہیں رہا، پیپلزپارٹی کو مکمل اقتدار پورے اختیارات کے ساتھ حاصل ہو گیا ہے، اب زیادہ دنوں کی بات نہیں، آرمی چیف کی مدت پوری ہونے پر وہ اپنا جنرل لے آئیں گے، پھر ان کی راہ میں کوئی رکاوٹ نہیں ہوگی، کرپشن ، دھونس ، دھاندلی اور اگلا الیکشن بھی ان کے ہاتھ رہے گا۔ اپوزیشن کے لیے بھٹو کا زمانہ لوٹ آئے گا، بلکہ اس سے کہیں بدتر، کہ بھٹو پڑھا لکھا سیاستدان تھا یہاں اب ہمارا واسطہ نیم خواندہ آصف علی زرداری سے ہو گا۔ وہ کیاکیا ہتھکنڈے کس برے طریقے سے اختیار کرسکتا ہے اس کا اندازہ آپ کو حالیہ واقعات سے بخوبی ہوگیا ہوگا۔ ان کا اشارہ منصبِ صدارت کے لیے ووٹوں کی خریداری کی طرف تھا۔ عرض کیا ، میرے پاس انتخاب جیتنے کا یقینی نسخہ تھا مگر آپ کو بتایا نہیں، کیوں؟اس لیے کہ اگر نواز شریف کا امیدوار جیت جاتا تو اس کی ادائیں بھی کچھ کم نہ ہوتیں۔ بولے ، اچھا، کہئے۔ وہ نسخہ کیا تھا؟عرض کیا، سینیٹ کی وجہ سے آپ کو ووٹوں کی برتری حاصل تھی، اگر یہ برتری زیادہ ہوتی تو پیپلزپارٹی کی امیدیں ٹوٹ جاتیں اور وہ آپ کو متفقہ امیدوار بنانے کا فیصلہ کرنے پر مجبور ہوتی ۔ مگر یہ برتری زیادہ ہوتی کیسے؟ وسیم سجاد نے استفسار کیا۔ عرض کیا، اب جانتے ہیں کہ فاٹا کے ممبران ہمیشہ اتفاقِ رائے سے فیصلہ کرتے ہیں، اگر آپ فاٹا کے چند ممبران کو بلا کے ان سے کہتے کہ اگر فاٹا کے ووٹ مجھے مل جائیں تو میں (وسیم سجاد) وعدہ کرتا ہوں کہ میرے بعد سینیٹ کا چیئرمین فاٹا سے ہوگا، یہ اتنی بڑی پیشکش تھی کہ وہ لوگ اسے نظر انداز کر ہی نہیں سکتے تھے، یوں آپ کے کھاتے میں سولہ عدد مزید ووٹوں کا اضافہ ہوجاتا ،اتنا بڑا فرق پورا کرنا کسی کے بس میں نہیں تھا ، اتنا زیادہ فرق دیکھ کے ایم کیو ایم کسی طرح کے مطالبے کے بغیر آپ کو ووٹ دینے پر مجبور ہوتی، یہ سن کر وسیم سجاد دنگ رہ گئے، حیرانی سے میری طرف دیکھتے ہوئے گویا ہوئے مگر یہ بات ہمیں کیوں نہیں سوجھی؟بھائی! اگر یہ بات آپ کو سوجھ جاتی تو آپ ’’طارق چوہدری‘‘ ہوتے۔ ہنستے ہوئے ان سے عرض کیا۔ وسیم سجاد کہنے لگے، یہ سب ٹھیک ہیں، اب افسوس کرنے کا کیا فائدہ ہونا تھا جو ہوچکا، مگر اب جو سیاست میں توازن بگڑ گیا ہے یہ مدتوں درست نہیں ہوسکے گا، اس لیے کہ ایک تو فوج کا سربراہ وہ لے آئیں گے اور سینیٹ الیکشن کے بعد اگلا چیئرمین سینیٹ بھی بنانے میں کامیاب ہوجائیں گے تو پھر قوم کو آصف زرداری مدتوں بھگتنا ہوگا۔ عرض کیا ، نہیں، ایسا ہرگز نہیں ہوگا۔ ہوگا یہی ہوگا۔ وسیم سجاد نے زور دیتے ہوئے کہا۔ عرض کیا ،یہ بات لکھ رکھئے کہ زیادہ مدت نہیں گزرے گی کہ فاروق لغاری کے ہاتھوں اس حکمران جوڑے کو واسطہ پڑنے والا ہے ، ایک الگ اور جدا قسم کے فاروق لغاری سے جو پیپلزپارٹی کا ادنیٰ کارکن نہیں ، طاقتور صدرِ پاکستان ہے۔ وسیم سجاد بے یقینی سے دیکھتے رہ گئے۔