پاکستان کی سب سے بڑی بدنصیبی یہ ہے کہ ہم مستقبل پر نظر رکھنے کی بجائے ماضی کی الجھنوں میں پھنسے ہو ئے ہیں اور پسماندگی، جہالت اور سیاسی عدم استحکام کے منحوس دائرے میں محو سفر ہیں جسکی بڑی وجہ سٹیٹ کرافٹنگ کے ہنر سے نا آشنائی ہے۔ 75 سال سے پاکستان کی سیاست، معاشرت، معیشت، کلچر، تہذیب، تجارت اور ڈپلومیسی مسلسل زوال پذیر ہے۔ عوام کو نہ کبھی سول حکمرانی اور نہ ہی فوجی آمریت میں سکھ کا سانس ملا ہے۔ دولت کا ارتکاز ہمیشہ سے چند ہاتھوں میں موجود رہا ہے ۔ ڈپلومیسی کے لحاظ سے ہم عرصہ دراز تک کمیونزم کے خلاف امریکہ کے اتحادی رہے جب ہماری ہندوستان سے جنگیں ہوئیں تو امریکہ نے ہماری فوجی امداد بند کر دی مگر اس کے باوجود ہم ڈالرز کے لیے افغانستان میں سویت یونین کے خلاف فرنٹ لائن سٹیٹ بنے رہے اور ریاست کے اندر نان سٹیٹ ایکٹرز کا راج قائم ہو گیا ۔ ایران، ہندوستان اور افغانستان تینوں سے ہماری مخاصمت قائم و دائم ہے اور واحد دوست چین سے ہم اس قدر قرضے لے چکے ہیں کہ جس کی مثال نہیں ملتی ہے اور عالمی اداروں نے ہمیں صاف کہ دیا ہے کہ ان کے مہیا کردہ قرضوں سے ہم چینی اداروں کو ادائیگییاں نہیں کر سکتے ہیں تو صاف ظاہر ہے کہ جب ہم چین کے ساتھ اپنے کاروباری معاہدوں کی پابندی نہیں کر پائیں گے تو مثالی دوستی برقرار رکھنا ممکن نہیں رہے گا اور آج ڈپلومیسی کے محاذ پر پاکستان عالمی تقاضوں سے مکمل عدم مطابقت کا شکار ہے ساری دنیا کے مبصرین بمشول امریکہ نے ہمارے موجودہ الیکشن کی عدم شفافیت پر تشویش کا اظہار کیا ہے مگر ہماری وزارت خارجہ نے ڈپلومیسی کی روایات کے بر خلاف امریکہ اور یورپی ممالک کے مبصرین کو کہا ہے کہ آپ پاکستان کی انتخابی حقیقتوں سے نا واقف ہیں اور آپ کے اعتراضات ہمارے لیے بے معنی ہیں۔ ان کو کیا پتہ کہ فارم 45 میں جیتنے والوں کو فارم 47 میں کیسے ہرایا جاتا ہے اور ری کاؤنٹنگ میں حکمران جماعت کے دوسرے نمبر پر آنے والوں کو کیسے کامیاب کیا جاتا ہے ویسے تو ڈونلڈ لو کے سائفر پر عمران خان کے خلاف بیانات پر حکومتی سیاست دان تعریفوں کے پل با ندھ رہے ہیں مگر جب وہ انتخابات میں دھاندلی پر امریکی حکومت کی تشویش کا اظہار کرتا ہے تو وزارت خارجہ ڈھٹائی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس کو پاکستان کا اندرونی معاملہ قرار دے دیتیہے حالانکہ کے سب کو پتہ ہے کہ مغربی ممالک کی فنڈنگ کا تعلق جمہوریت کی شفاف بحالی سے ہوتا ہے۔ سٹیٹ کرافٹنگ کے فقدان اور ناقص اور جامد ڈپلومیسی سے پاکستان کے اندرونی اور بیرونی مسائل دن بدن بڑھ رہے ہیں جس کی وجہ سے ہم نہ تو معاشی بحران سے نکل پا رہے ہیں اور نہ ہی سیاسی ۔ پاکستان میں سول سیاست دانوں کی اکثریت کا مؤقف ہے کہ پاکستان سیاست دانوں کی جدوجہد سے معرض وجود میں آیا ہے یہ کوئی فوجی فتوحات کی پیداوار نہیں ہے لہذا اس کو اچھے برے طریقے سے چلانے کا حق سیاست دانوں کا ہے دوسری جانب فوجی نقطہ نظر یہ ہے کہ اگر سیاست دانوں کی باہمی چپقلشوں اور نا اہلیوں سے قومی سلامتی کو خطرہ لاحق ہو جائے تو فوج کا یہ کام ہے کہ وہ مداخلت کرے اور ملکی بھاگ دوڑ سنبھالے کیونکہ ریاست کو بچانا ان کا اولین فرض ہے اس کے لیے آئین، قانون اور صاف شفاف انتخابات اور جینوئن عوامی قیادت کے معاملات ترجیح اول نہیں ٹھہرائے جا سکتے۔ اس پر ایک اینکر پرسن نے یوں بات کی ہے "اگر کسی گھر کے تمام بچے ہیروئین کا نشہ کرنا شروع کر دیں اور اس کو اپنا جمہوری اور شخصی حق قرار دیں تو کیا باپ انہیں اس کی اجازت دے سکتا ہے" جب ملکی معاملات کو گھریلو معاملات کی طرح باپ کی صوابدید پر چلایا جائے گا تو سٹیٹ کرافٹنگ کہاں سے جنم لے گی باپ بیشک بچوں کو افورڈ کر رہا ہو مگر بچے سختی کے خلاف بغاوت کر دیتے ہیں لیکن اگر بچے باپ کو افورڈ کر رہے ہو ں تو وہ کب تک فرنبرداری سے باپ کی بات مانیں گے چاہے وہ ان کی بھلائی کی کیوں نہ ہو ۔پاکستان کا یہ المیہ عظیم ہے اس کو کوئی ایسا لیڈر اور حکمران نہیں ملا ہے جو سٹیٹ کرافٹنگ کے وژن سے آشنا ہو ۔ ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ہر طرف تقدسات اور جذبات کے پروردہ مقدس اوتار بیھٹے ہوئے ہیں جن پر تنقید کرنا جرم عظیم ہے اور ملک و ملت سے غداری بھی۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان ابھی تک قبائلی عصبیتوں، علاقہ پرستی، اداراتی برتری، سیاسی محاذ آرائی، فرقہ واریت، دہشت گردی، لسانی، گروہی اور نسلی امتیازات کے گورکھ دھندوں میں الجھا ہوا ہے ہم کبھی بھی عالمی معاشی اور تہذیبی عناصر سے ہم آہنگ نہیں ہوئے ۔ جدت پسندی، لبرل سوچ و فکر اور سائنسی اور منطقی طرز فکر اور جدلیاتی ارتقاء سے ہمیں بیر ہے ہم اپنے سماج اور ریاستی امور میں بناوٹی تبدیلیوں پر مبنی ایسے سماجی اور سیاسی بیانیے اجاگر کرتے ہیں جو آفات کے نازل ہونے کے بعد پتہ چلتا ہے کہ ہمارے بڑوں سے غلطی ہو گئی تھی۔ جنہوں نے نیشنلا ئزیشن کی، سٹریٹجک ڈیپت کا نظریہ دیا بھٹو کی حکومت ختم کرنے کی تحریک کو نظام مصطفی تحریک کا نام دے کر ضیاء الحق کی آمریت قائم کی۔ ہماری فرسودہ حکمت عملیوں کی وجہ سے ہم کسی ایک شعبے میں بھی عالمی درجہ بندی میں نہیں ہیں۔ کھیلوں کے شعبے میں کبھی ہاکی، کرکٹ اور سکوائش کے میدان میں ہماری حکمرانی تھی ہماری پی آئی اے کا نام تھا مگر آج ہماری شہرت منفی کاموں میں نمایاں ہے ہمیں دنیا میں عزت کی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا ہے ہمارے معاشی ارسطو جن کی اکثریت عالمی اداروں سے آتی ہے وہ معیشت کو بہتر بنانے کے لیے عوام پر ٹیکسوں کے بوجھ لادتے رہتے ہیں اور معیشت کو دستاویزی بنانے کے چکر میں سخت قوانین سے کاروباری طبقے کو خوفزدہ کرنا شروع کر دیتے ہیں جس کی وجہ سے پاکستان کی معیشت بیٹھنا شروع کر دیتی ہے۔ ریاست بس ایک کام کرے لٹیروں اور کرپٹ عناصر کو پیسہ ملک سے باہر نہ لے جانے دے جس کی سرمایہ کاری باہر ہو اس کی شہریت پاکستان میں ضبط کر لی جائے اور پاکستان میں سیاست وہی کرے جس کے معاشی سٹیک پاکستان میں ہوں کیونکہ یہ بدیہی حقیقت ہے کہ جب تک وسائل رزق کی فروانی نہ ہو تو ضروریات زندگی سے محروم عوام زیادہ عرصہ تک نیک اور پرہیز گار نہیں رہ سکتے ہیں ہم کریکٹر کو اخلاقی قوت محرکہ سمجھتے ہیں جب کہ خوشحالی کی قوت محرکہ ہنر مندی ہے اور صنعتی، زرعی اور ٹیکنالوجی کے ذرائع کی ترقی اور نشوونما کے بغیر کسی بھی قسم کے دیرپا انفرادی اور قومی کردار کو برقرار رکھنا نا ممکن ہے وہ ممالک جو کبھی ہم سے پیچھے تھے آج اپنی ہنر مندی سے ہم سے کئی درجے آگے ہیں دوسرے پانچ سالہ منصوبے میں ہما را گروتھ ریٹ ایشیا میں سب سے زیادہ تھا اور ہم نے ہر شعبے میں اپنے اہداف اصل سے کہیں زیادہ حاصل کیے۔ آج چین، جاپان اور کوریا کو تو چھوڑیں بنگلہ دیش اور ہندوستان حتی کہ ایران، ملائشیا اور گلف کو دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے کہ ایک ہم ہیں کہ لیا اپنی ہی صورت کو بگاڑ ایک وہ ہیں جہنیں تصویر بنا آتی ہے