آج کل مذہبی، سیاسی، صحافتی، سماجی حضرات کے علاوہ حکومتی بزرجمہروں کے ذہن پر اصلاح معاشرہ کا خبط سوار ہے کیونکہ سوشل میڈیا کے ذریعے ایک لیڈر نے بارہ کروڑنوجوان نسل کوغیر مہذب اور بے راہرو بنا دیا ہے۔ لہٰذا ضروری ہے کہ سرکاری اور غیر سرکاری دانشوروں کے ذریعے یونیورسٹیوں میں سیمینارز کے ذریعے ان نوجوانوں کی اصلاح کی جائے اور اگر وہ ناصح کے قول و فعل میں تضاد کی نشاندہی کریں تو پھر اپنے ہمنوا ؤں کے ذریعے ان نوجوانوں کو تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے حالانکہ عوام خصوصاً نوجوان نسل کا فہمیدہ طبقہ کیسے ان واعظوں کی ناصحانہ باتوں پر عمل کر سکتا ہے جن کے قول و فعل میں تضاد ہے۔ ان کے اپنے بچے امریکہ اور یورپ میں عیش و عشرت کی زندگی بسر کر رہے ہیں مگر وہ اپنے ملک کے نوجوانوں کو ظلم، ناانصافی، بے روزگاری حق تلفی، سماجی اور معاشی ناہمواریوں کو خندہ پیشانی سے برداشت کرنے کا درس دے رہے ہیں، نوجوان کو درس دیتے ہیں کہ غربت تمہارے لیے نعمت ہے کیونکہ تم روکھی سوکھی کھا کر چین کی نیند سوتے ہو اور امیر آدمی تفکرات کی وجہ سے نیند سے محروم رہتا ہے اس لیے کبھی بھی سرکاری اداروں اور کاروبار ی اداروں کے خلاف اپنے حقوق کے لیے آواز بلند نہ کرنا اس طرح تمہاری حب الوطنی پر سوال اٹھے گا ۔ہر حال میں سٹیٹس کو برقرار رکھنا فرمان امروز ہے، نوجوان جب ایسی بے لغو باتوں پر سیخ پا ہوتا ہے تو انہیںکہا جاتا ہے کہ تم فلاں باغی لیڈر کے کلٹ فالور ہو۔ مگر کیا کیا جائے جب ایسے ناصح حضرات جنہیں خوشامد وراثت میں ملی ہے یا غربت کے سفر سے خوشحالی کی منزل ملی ہے تو جب ایسے ضمیر فروش دانشوروں کے سامنے قیدی حریت فکر کے نعرے بلند ہوں تو تضادات کے حامل معاشرتی اصلاح کے خود ساختہ چیمپینز سرکاری بیانئے کے لیے اخبارات، چینلز اور سوشل میڈیا پر بڑے کمزور دلائل پیش کر تے ہیں اورنوجوان نسل کو گمراہی کا سرٹیفکیٹ تھما نے میں لمحہ نہیں لگاتے ۔یہ جملہ معترضہ ہو گا، میرا نوجوان نسل سے 35 سال سے انٹریکش ہے۔ تیس ہزار سے زائد متوسط گھرانوں کے شاگردان عزیز زندگی کے تمام شعبوں میں کا میاب کیرئیر کے حامل ہیں۔ میں نے اپنے اعمال کی درستگی پر توجہ دی اور کبھی خود کو عقل کل سمجھتے ہو ئے انہیں براہ راست پندو نصائح کا درس نہیں دیا بلکہ ان کی اجتماعی دانش اور شعور سے سیکھ کر جنریشن گیپ کے عذاب سے بچا رہا ۔نوجوان پیار ،ہمدردی اور سچائی کے متلاشی ہیں۔ وہ کہنے والوں کی منطق اور دلیل کو اپنے دماغ سے پرکھتے ہیں کیونکہ انفارمیشن کے سیلاب میں کوئی بھی اپنے آپ کو کیموفلاج نہیں کر سکتا ہے۔ طیب اردگان نے محض فیس ٹائم کے ذریعے عوام کو نکال کر فوجی بغاوت کو کچل دیا ۔ آج کانوجوان تو آپ سے صرف یہ عرض کر رہا ہے کہ یہ کہاں کی دوستی ہے کہ بنے ہیں دوست ناصح کوئی چارہ ساز ہوتا، کوئی غم گسار ہوتا معاشرہ چند افراد کی اجتماعی زندگی کا نام نہیں ہے معاشرے ہمیشہ کچھ اداروں کی وساطت سے معرض وجود میں آتے ہیں اور ان اداروں کے بیانیے ہی عوام کے اجتماعی کردار کا تعین کرتے ہیں۔ عوام عام فہم تصور کے مطابق سوچ و فکر میں آزاد نہیں ہوتے بلکہ ان کی سوچ و فکر اداروں کے عمل کے ردعمل سے جنم لیتے ہیں۔ جیسے کسی تعلیمی ادارے میں ایک ہمدرد اور مہربان استاد کی وہ طالب علم بھی عزت کرتے ہیں جو کسی دوسرے استاد اور انتظامیہ کے لیے درد سر بنے ہوتے ہیں اور وہ ان کو ادارے سے نکالنے کے درپے ہو تے ہیں، مگر میرا استدلال یہ ہے کہ کوئی طالب علم کتنا ہی گستاخ کیوں نہ ہو ایک استاد اپنے تعصب کی بنیاد پر اس کو امتحان میں فیل نہیں کر سکتا ہے۔ اسی طرح تمام تر حماقتوں کے باوجودکسی بھی سیاسی جماعت کے ووٹرز کو ان کے لیڈران کے غلط عمل پر سزاوار قرار دینا کیسے مستحن اور مستجب قرار دیا جا سکتا ہے؟ حد چاہیے سزا میں عقوبت کے واسطے آخر گنہگار ہوں, کافر نہیں ہوں میں اگر عام آدمی آزاد شہری ہے تو آزاد جمہوری اداروں کی نسبت سے ہے، اس لیے انتہا پسندانہ رویوں کا ذمہ دار افرادکوتحہرانا زیادتی ہوگی اس کی ذمہ داری با اختیار افراد پر بھی براپر عائد ہوتی ہے ۔فلسطین اور کشمیر کی نسل کشی میں وہاں کے حکمرانوں کو کیسے بری الذمہ قرار دیا جاسکتا ہے مگر جب حکومتی سطح پر جبر کیا جائے تو اس کی کوئی سزا نہیں ہوتی ہے لیکن انفرادی سطح پر یہ جرم قابل سزا ہوتا ہے۔ آج عام آدمی کسی کے گھر ڈاکہ ڈالے تو وہ مجرم مگر حکومتی ادارے بجلی گیس کے غلط بل عوام پر ڈال کر اربوں کے ڈاکے ڈالیں تووہ ثابت ہو نے کے باوجود جرم نہیں ہے۔ غریب آدمی بھوک اور افلاس سے مر جائے تو ریاست پر کوئی مقدمہ نہیں ہے، کاروباری ادارے غریب افراد کی محنت کا استحصال کر کے اربوں کے ناجائز منافع جات حاصل کر لیں تو ان پر کا کچھ نہیں بگاڑ ا جا سکتا ہے، ضیاء الحق کے ایما پر بھٹو کو پھا نسی دے دی جائے یا کسی ملک کا ایک حصہ الگ ہو جائے تو قومی مفاد میں کسی قصور وار کو سزا نہیں دی جاتی۔ معاشرتی، سیاسی، مذہبی اصلاح کا پتھر وہی گناہ گار پر پھینکنے کا حق رکھتا ہے جو خود اور اس کے آباؤ اجداد مجسمہ نیکی اور پارسائی کے منصب پر فائز ہو ں ،وگرنہ ہمارا تو یہ حال ہے کسی کو اپنے عمل کا حساب کیا دیتے سوال سارے غلط تھے، جواب کیا دیتے