میں ان دنوں اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور میں ایم اے انگریزی کررہی تھی ۔ہوسٹل میں رہا کرتی ، چھٹیوں کے بعد گھر سے ہوسٹل کے لیے جانا ہوتا تو نماز سے بھی پہلے گھر سے نکلنا پڑتا تاکہ ہوسٹل میں سامان رکھ کے کچھ تازہ دم ہوکے کیمپس پہنچ کر پہلی کلاس لی جاسکے۔یہ اور بات کہ پہلی کلاس ہم نے ویسے ہی کم کم لیں۔ سفر کبھی ٹرین پر ہوتا اور کبھی اپنی گاڑی پر روانگی ہوتی۔۔۔ خان پور سے بہاولپور تک کا یہ سفر اس طرح کٹتا کہ رات کی تاریکی سے صبح کی روشنی پھوٹنے کا معجزاتی منظر سفر کے ساتھ ساتھ چلتا۔ یہ منظر میرے اندر اتر جاتا کبھی یوں لگتا کی ساری کائنات بس اسی ایک منظر کی اسیر ہے ۔کبھی ایسا لگتا کہ میں ایک طویل سرنگ میں سفر کر رہی ہوں جس کے آخر ی کنارے پر روشنی ہے۔اس منظر میں امید اور ایمان کا ایک الوہی امتزاج محسوس ہوتا۔ برسوں بعد کا ایک واقعہ ہے کہ میں اور مریم ارشد، سلمیٰ اعوان صاحبہ کے گھر شام کی چائے پر موجود تھے۔ ان کے کمرے میں بیٹھے ہوئے تھے جس میں ایک دیوار گیر کھڑکی تھی ۔ سلمیٰ اعوان صاحبہ نے کہا کہ میں کھڑکی کے پاس بیٹھ کر صبح کی نماز پڑھتی ہوں اور نماز کے بعد کچھ اللہ کا ذکر کرتی ہوں۔ رات کے اندھیرے سے صبح کی پو پھٹنے کا منظر روز بلا ناغہ دیکھنا بھی میری عبادت کا حصہ ہے ۔ جیسے ایک روشنی کا گولا پھٹتا ہے ، رات کے پیالے میں روشنی انڈیل دیتا ہے۔ قرآن پاک میں خالق کائنات نے کئی بار رات کی تاریکی سے دن نکلنے کے معجزے کو بیان کیا ہے کہ وہی ہے جو رات کی تاریکی کو پھاڑ کر اس میں سے دن نکالتا ہے۔جوش ملیح آبادی نے کیسے دلپذیر انداز میں اس معجزہ حق کو بیان کیا ہے : ہم ایسے اہل نظر کو ثبوت حق کے لیے اگر رسول نہ آتے تو صبح کافی تھی اب کتنے ایسے ہیں جو صبح کے اس معجزہ حق کا نظارہ کر نے کو اٹھتے ہوں گے۔لائف سٹائل کا بدلاؤ اس طرح سے ہمارے نظام الاوقات پر اثر انداز ہوا ہے کہ لوگ راتوں کو دن بنا کے جاگنے لگے ہیں۔ صبح دن چڑھے تک سونا اب ایک معمول بن گیا ہے۔ کسی شاعر کا مصرع یاد آگیا ہے: صبح اس شہر میں بے کار ہی آجاتی ہے کہ لوگ سوئے مرے رہتے ہیں رات کی خاموشی سے ابھرتی ہوئی صبح کا منظر پرندوں کی چہچہاہٹ سے بھر جاتا ہے۔صبح کی اس نعمت میں قدرت نے انسان کے لئے بے بہا فوائد رکھے ہیں۔ہمارا دین ہمیں صبح اٹھ کر رزق تلاش کرنے کی ترغیب دیتا ہے۔ہماری بد قسمتی کہ پاکستان کے بڑے شہروں میں بازار اور مارکیٹیں بارہ ایک بجے تک کھلتے ہیں پھر آدھی رات تک کاروبار زندگی چلتا ہے۔ 2018 کے دسمبر میں ڈینور کولوراڈو میں تھی۔ قریبی شاپنگ مال کے فوڈ ایریا سے خریدا ہوا سینڈوچ کھولا تو اس میں ایک عجیب سی باس محسوس ہوئی ۔ سخت بھوک لگی تھی پیسوں کے ضائع ہونے کا دکھ الگ ہورہا تھا ۔سوچا واپس کرکے آتیہوں۔ رات کے دس بج رہے تھے ۔شاپنگ مال ہوٹل کے بالکل قریب تھا۔ اپنی دوست کو لے کر وہاں پہنچی ۔داخلی دروازے بند ہو رہے تھے ۔انہیں بتایا کہ کچھ خریدنا نہیں بس یہ سینڈوچ واپس کرنا ہے۔ خیر ہمیں اندر جانے دیا گیا۔میں حیران تھی امریکہ جیسے ملک میں شاپنگ مال دس بجے بند ہورہے ہیں اور ہمارے غریب ملک کے امیر لوگ اس وقت شاپنگ کے لیے نکلتے ہیں۔ جن گھروں میں بچوں کی تربیت کو ترجیحات میں شامل کیا جاتا ہے وہاں سحر خیزی پر بہت زور دیا جاتا ہے ۔گھر کا ماحول ایسے بنایا جاتا ہے کہ سب لوگ صبح اٹھنے کے عادی ہوں۔مجھے یاد ہے کہ بچپن میں صبح جگانے کے لئے ابو جان گرمیوں میں پنکھا بند کر دیتے اور سردیوں میں جو دیر تک سونے کی کوشش کرتا اس کی رضائی کھینچ لی جاتی۔ سائنس نے تحقیق کی تو پتہ چلا کہ صبح پانچ بجے اٹھنے سے انسان کی صحت کو جو فوائد حاصل ہوتے ہیں وہ فائدے دن کے دوسرے کسی حصے میں حاصل نہیں ہو سکتے۔ذہنی مریضوں کا علاج کرنے والے ماہرین نفسیات کہتے ہیں کہ صبح اٹھ کر آپ چہل قدمی کریں تو آپ ذہنی دباؤ کی کیفیت سے باہر نکلتے ہیں۔ دنیا کو کامیابی کے گر سکھانے والے لائف کوچز لوگوں کو سکھاتے ہیں کہ دن کا آغاز جلدی کرنے سے آپ اپنے وقت کا بہترین کنٹرول حاصل کرسکتے ہیں۔ اس حوالے سے ایک کتاب دنیا بھر میں بہت ہی مقبول ہوئی جس کا نام فائیو اے ایم کلب ہے۔کتاب کے بھارتی نژاد مصنف رابن شرما کینیڈین شہری ہیں۔اس کتاب میں روبن شرما لکھتے ہیں کہ صبح کے وقت ایک ایسا خزانہ ہے کہ آپ اسے صبح اٹھ کر ہی حاصل کر سکتے ہیں ۔وہ کہتا ہے کہ اپنی صبح کو اون کریں۔ اس خزانے کو حاصل کریں اور اپنے دن کی پروڈکٹیوٹی میں اضافہ کریں۔رابن شرما کہتا ہے کہ صبحِ پانچ بجے کے وقت میں آپ کو سب سے زیادہ یکسوئی حاصل ہوسکتی ہے ورنہ پورے دن میں توجہ میں دراڑ ڈالنے کے لیے بہت کچھ ہوتا ہے ۔پانچ بجے اٹھنے کا ایک فائدہ یہ ہوتا ہے کہ آپ اپنے دن کا روڈ میپ تیار کر سکتے ہیں۔آپ نے دن میں کیا کام کرنے ہیں کتنا ٹائم آپ نے اپنے مشغلے کو دینا ہے۔ آپ نے اپنے لیے ایکسرسائز کے لیے کتنا ٹائم رکھا۔ ایک ریسرچ یہ بتاتی ہے کہ ڈپریشن اور اینگزائٹی کا شکار ہونے والے بیشتر افراد وہ ہیں جن کی زندگی میں کوئی خاص روٹین نہیں ہوتی۔علی الصبح بیدار ہونے سے آپ اپنے دن کی بہتر پلاننگ کرسکتے ہیں۔ صبح جلد بیدار ہوکر آپ کو یہ احساس ہوتا ہے کہ وقت آپ کے کنٹرول میں ہے۔ یہ چیز آپ کے اسٹریس لیول کو کم کر دیتی ہے۔ اس کے برعکس اگر آپ دیر سے اٹھتے ہیں تو سب سے پہلے وقت کی کمی کا احساس آپ کو گھیر لیتا ہے کیونکہ وقت کا سب سے قیمتی حصہ تو آپ سو کر گزار چکے ہوتے ہیں۔فائیو اے ایم کلب کتاب میں بہت کچھ ہے اگلے کسی کالم میں اس پہ بھی بات کریں گے۔