الیکشن کمیشن آف پاکستان نے سپریم کورٹ کی ہدایت پر انتخابی شیڈول جاری کردیا، جس کے تحت ملک بھر میں عام انتخابات 8 فروری کو ہوں گے ۔اچھی بات ہے کہ الیکشن کا شیڈول آ گیا اگلے قدم کے طور پر الیکشن کمیشن انتخابات کو آزاد اور شفاف بنانے کے لیے انتظامات کرے ،گو کہ چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجا نے کہا ہے کہ انتخابات میں تمام جماعتوں کو لیول پلیئنگ فیلڈ فراہم کریں گے اور جس شہر میں ایک جماعت کو جلسے کی اجازت ملی، اس میں دوسرے کو بھی اجازت دیں گے تاہم موجودہ صورتحال سے عیاں ہے کہ تمام جماعتوں کو لیول پلیئنگ فیلڈ حاصل نہیں ہے، ایک سیاسی جماعت کو آف دی ریکارڈ اقتدار سے پہلے اقتدار مل چکا ہے۔ ایک جماعت عتاب کا شکار ہے اور پیپلز پارٹی سمیت کچھ جماعتیں لیول پلیئنگ فیلڈ حاصل نہ ہونے پر فریاد کناں ہیں۔ الیکشن کمیشن نے انتخابا ت کے حوالے سے جو شیڈول جاری کیا ہے اس کے مطابق امیدوار 20 سے 22 دسمبر تک کاغذات نامزدگی جمع کرواسکیں گے جس کے بعد امیدواروں کی فہرست 23 دسمبر کو جاری کی جائے گی۔ شیڈول کے مطابق 24 سے 30 دسمبر تک امیدواروں کے کاغذات نامزدگی کی جانچ پڑتال ہوگی۔ 12 جنوری 2024 ء کو امیدواروں کی حتمی فہرست شائع کی جائے گی جبکہ 13 جنوری کو امیدواروں کو انتخابی نشانات جاری کیے جائیں گے، کاغذات نامزدگی منظور یا مسترد ہونے کے خلاف اپیلوں کی سماعت تین جنوری تک ہوگی، ایپلٹ ٹربیونل دس جنوری تک اپیلیں نمٹائیں گے۔ الیکشن کا ایک فائدہ یہ ہوتا ہے کہ بہت سے با اثر نادہندہ امیدوار اعتراضات لگنے پر حکومت کو واجبات جمع کراتے ہیں جس سے قومی خزانے کو فائدہ ہوتا ہے ، امیداروں کے ابتدائی اعتراضات کے علاوہ دیگر اپیلوں کی سماعت اور فیصلے بروقت ہونے چاہئیں ۔ الیکشن کمیشن نے ریٹرننگ افسران کی ٹریننگ کا شیڈول بھی جاری کردیاہے ، الیکشن کمیشن سے جاری اعلامیے کے مطابق سپریم کورٹ کے احکامات کی روشنی میں ریٹرننگ افسران کی ٹریننگ کا عمل بحال کیا جا رہا ہے،ریٹرننگ افسران کی ٹریننگ 17 اور 18 دسمبر 2023 ء کو ہو گی جبکہ ڈسٹرکٹ ریٹرننگ افسران کی ٹریننگ 19 دسمبر کو ہو گی۔ چیف الیکشن کمشنر کا کہنا ہے کہ ہائی کورٹس کے انکار کے بعد بیوروکریسی سے آراوز لیے۔ ریٹرننگ افسران کی ٹریننگ آج سے ہو رہی ہے اس لحاظ سے دیکھا جائے تو وقت بہت کم ہے، ٹریننگ کے تقاضے صحیح معنوں میں پورے ہونے چاہئیں تاکہ الیکشن کا نگران عملہ اپنے فرائض صحیح معنوں میں سر انجام دے سکے۔ چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجا کی اس بات سے کہ بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں سکیورٹی کی صورتحال تشویشناک ہے مگر ہم دعاگو ہیں صرف دعائوں سے کام نہیں چلتا، الیکشن کے موقع پر فول پروف سکیورٹی انتظامات ہونے چاہیں۔ اب آگے کا سوچنا چاہئے ، اکثر پولنگ اسٹیشنوں پر امن و امان کی صورتحال پیدا ہوتی ہے، لڑائی جھگڑے ہوتے ہیں ، با اثر لوگ پولنگ کے دوران مسائل پیدا کرتے ، مسائل پر قابو پانے کے لیے الیکشن کمیشن کو بروقت اقدامات کرنا ہوں گے ، اس کے لیے سکیورٹی فورسز کی مدد حاصل کرنا بہت ضروری ہے۔ صحافیوں سے غیر رسمی گفتگو کے دوران چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجا نے چیئرمین پی ٹی آئی کو ’’سلیبرٹی اور قومی ہیرو‘‘ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ کرکٹ میں سے پسندیدہ پلیئر عمران خان ہیں، میرے گھر میں ان کی تصویر لگی ہے۔ کرکٹ اور سیاست الگ الگ میدان ہیں، چیف الیکشن کمشنر نجانے عوام کی ہمدردیاں حاصل کرنے کے لیے عمران خان کو قومی ہیرو قرار دے رہے ہیں، جہاں تک زمینی حقائق ہیں وہ تو یہی ہیں کہ اس وقت الیکشن کمیشن کی طرف سے سب سے زیادہ زیر عتاب تحریک انصاف ہے جو کہ شفاف الیکشن کے اصولوں کے برعکس بات ہے۔ چیف الیکشن کمشنر نے یہ بھی کہا ہے کہ پی ٹی آئی کے تمام مقدمات کے فیصلے میرٹ پر ہوں گے، حلقہ بندیاں بالکل ٹھیک ہوئی ہیں، (ن )لیگ لاہور میں ناخوش ہے۔ صاف نظر آ رہا ہے کہ بہت کچھ (ن) لیگ کو مل چکا ہے اور بہت کچھ ملنے والا ہے، اس کے باوجود ناخوش ہونے والی بات پر کوئی اعتماد نہیں کرے گا۔ اگر دیکھا جائے تو پنجاب میں (ن) لیگ کو لیول پلیئنگ فیلڈ زیادہ مل رہی ہے کہ اس کا مقابلہ کرنے والی جماعت تحریک انصاف کو کھڈے لائن لگایا جا رہا ہے۔ 2018ء کے الیکشن پر میاں نواز شریف بجا طور پر اعتراض کر رہے ہیں کہ (ن) لیگ کو ایک طرف کر کے بقول ان کے ’’لاڈلے ‘‘کو لایا گیا، اگر اس وقت (ن) لیگ کو ایک طرف کر کے لاڈلے کو لانا غلط تھا تو کیا اب تحریک انصاف کو ایک طرف کر کے پرانے لاڈلوں کو لانا درست ہے؟ اگر حالات کا سیاسی تجزیہ کیا جائے تو اس وقت عمران خان اور میاں نواز شریف ایک پیج پر ہیں، نواز شریف بھی کہہ رہے ہیں کہ مجھے کیوں نکالا، احتساب کیا جائے، عمران خان بھی یہی کہتے ہیں کہ میری حکومت کیوں ختم کی گئی۔ قوم دونوں لیڈر صاحبان سے چھوٹا سا سوال کرتی ہے کہ جب لانے والے لاتے ہیں تو آپ اس وقت خوش ہوتے ہیں ، خوشیاں مناتے ہیں ، مگر جب لانے والے واپس بھیجتے ہیں تو پھر چیخ و پکار کیوں ہوتی ہے؟ ضرورت اس بات کی ہے کہ لانے اور واپس بھیجنے والی پریکٹس ختم ہونی چاہئے، شفاف الیکشن ہونے چاہئیں، اگر شفاف الیکشن نہ ہوئے تو پھر نتائج کوئی جماعت تسلیم نہیں کرے گی ، پھر وہی غیر یقینی صورت حال ہو گی اور اس کا خمیازہ پاکستان کے عوام کو بھگتنا پڑتا ہے ، غیر یقینی صورتحال سے ملک کی معیشت تباہ و برباد ہو جاتی ہے اور ملک کی سلامتی اور استحکام پر بھی حرف آتا ہے۔ 16 دسمبر 1971ء کا واقعہ ہمارے لئے سب سے بڑا سبق ہے ۔ 7دسمبر 1971ء کو متحدہ پاکستان کے انتخابات ہوئے،300انتخابی حلقوں میں سے 162 مشرقی پاکستان اور 138 مغربی پاکستان میں تھے، متحدہ پاکستان میں عوامی لیگ کو بھاری اکثریت حاصل ہوئی ، اگر اقتدار عوامی لیگ کے حوالے کر دیاجاتا تو پاکستان دو لخت ہونے سے بچ سکتا تھا۔