سپریم کورٹ کی جانب سے حلقہ بندیوں سے متعلق کیس میں انتخابات تاخیر سے کرنے کی ایک اور درخواست مسترد کرنے سے 8 فروری کو عام انتخابات ہونے کی اُمیدیں بڑھ گئی ہیں، انتخابی عمل کو آگے بڑھاتے ہوئے الیکشن کمیشن نے بھی عام انتخابات میں حصہ لینے والے امیدواروں کے لیے بنیادی اہلیت کی تفصیلات جاری کر دی ہیں، اس کے ساتھ ساتھ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے 8فروری کو ہونے والے انتخابات کے لیے رجسٹرڈ ووٹرز کے اعداد و شمار بھی جاری کر دئیے ہیں جس کے مطابق ملک میں رجسٹرڈ ووٹر کی مجموعی تعداد 12 کروڑ 85 لاکھ 85 ہزار 760ہے۔ ایک طرف پاکستان پیپلز پارٹی نے انتخابی مہم شروع کر رکھی ہے، (ن) لیگ والے پر اعتماد ہیں کہ اقتدار اُن کو حاصل ہونے جا رہا ہے تاہم میاں نواز شریف یہ سطور لکھتے وقت تک نا اہل ہیں اور ابھی تک وہ مجھے کیوں نکالا کی تکرار بھی کرتے نظر آتے ہیں۔ حقیقی بات یہی ہے کہ پی ٹی آئی کے لیے لیول پلیئنگ فیلڈ نظر نہیں آ رہی ، اس کے باوجود ابھی تک پی ٹی آئی نے الیکشن بائیکاٹ کا اعلان نہیں کیا اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ تحریک انصاف کو بلے کا نشان نہ ملے تاہم الیکشن ہونے چاہئیں کہ ملک میں پائی جانے والی مایوسی اور غیر یقینی صورتحال کا خاتمہ ہو سکے۔ عام انتخابات کی گہما گہمی کے سلسلے میں اب ہوٹل اور ریسٹورنٹ آباد ہونے لگے ہیں، تھڑوں اور چوراہوں پر بھی عام انتخابات بارے گفت و شنید کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے، سیاستدانوں کے ڈیرے آباد ہوتے نظر آ رہے ہیں ،روٹھے ہوئے کارکنوں کو منانے کا سلسلہ جاری ہے، سیاستدانوں نے پانچ سال کی فوتگیوں کی تعزیت کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے، تعزیت کا بہانہ ہوتا ہے اصل مقصد انتخابی مہم ہے۔ کس امیدوار کو کس حلقے میں اتارنا ہے، سیاسی جماعتوں نے بھی اپنے اپنے امیدوار وں کے بارے میں غور و فکر شروع کر دیا ہے، کچھ امیدواروں کو بتا دیا گیا ہے کہ آپ فلاں حلقے سے امیدوار ہونگے، جن لوگوں کو ٹکٹ ملنے کی امیدیں ختم ہوتی نظر آتی ہیں ان میں مایوسی ہے اور وہ اندر خانہ اپنی ہی جماعت کے خلاف سینہ سپر ہو سکتے ہیں، سیاسی جماعتوں کی طرف سے امیدواروں کے جوڑ توڑ کا سلسلہ بھی جاری ہے، ملتان سے معروف دینی شخصیت و سابق وفاقی وزیر حامد سعید کاظمی ایک بار پھر پیپلز پارٹی میں شامل ہو گئے ہیں۔ اقتدار کے لیے سرائیکی وسیب کا ووٹ مرکزی کردار ادا کرتا ہے، اسی بناء پر تمام سیاسی جماعتوں کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ سرائیکی وسیب کا ووٹ حاصل کریں اور یہ ووٹ اقتدار کا کھیل کھیلنے والوں کے لیے زیادہ مشکل بھی نہیں کہ ہر الیکشن کے موقع پر وسیب کے لوگوں کو صوبے کا لولی پاپ دے دیا جاتا ہے اور الیٹک ایبلز کو آگے کر کے ووٹ حاصل کئے جاتے ہیں۔ پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف زرداری کی وسیب میں آمد آمد ہے، ابھی وہ بلوچستان کے دورے پر ہیں، سابق نگران وزیر داخلہ سرفراز بگٹی کو بھی پارٹی میں شامل کر لیا ہے، زرداری صاحب تربت بھی گئے جہاں پچھلے ماہ مزدور پنجاب کے نام پر قتل کر دئیے گئے مگر زرداری صاحب نے ان کا ذکر تک نہیں کیا، آصف زرداری نے تربت میں پیپلز پارٹی کے ورکرز کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اسلام آباد نے بلوچستان کو پاکستان سمجھا ہی نہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا کبھی اسلام آباد نے وسیب کو پاکستان سمجھا ہے؟ اگر سمجھا ہوتا تو سینیٹ سے صوبے کے بل کی آئینی منظوری کے بعد صوبہ مل گیا ہوتا۔ ایک سوال یہ بھی ہے کہ زرداری صاحب تو خود اسلام آباد تھے۔ صدارت اور وزارت عظمیٰ ان کے پاس تھی انہوں نے کیا کیا؟ زرداری صاحب نے یہ بھی کہا کہ پختونوں نے نہیں کہا کہ ہمیں نام دو مگر میںنے نام دے دیا۔ زرداری صاحب نے کئی طرح کے وعدے کئے تھے ،کیا وہ بتا سکتے ہیں وہ وعدے کہاں گئے؟ بات صرف پیپلز پارٹی یا آصف زرداری کی نہیں، مذہبی جماعتیں بھی دوغلے پن کا مظاہرہ کرتی ہیں، جمعیت علمائے اسلام اور جماعت اسلامی نے صوبہ سرحد اسمبلی میںپختونخواہ کا بل پیش کیا تھا، جب وسیب کی شناخت کا مسئلہ ہو تو یہ لسانی تعصب کا فتویٰ لگا دیتے ہیں، یہ دوغلا پن نہیںتو کیا ہے؟ اس حقیقت سے کون انکار کر سکتا ہے کہ مولانا مفتی محمود اور ان کے بیٹوںنے تو سب کچھ حاصل ہی وسیب سے کیا ہے ، محض ووٹ لینے کے وقت یہ ڈیرے وال ہوتے ہیں، باقی ان کا دل کابل اور قندھار کے ساتھ دھڑکتا ہے۔ (ن) لیگ نے 2013ء کا الیکشن دو صوبوں کے قیام کے منشور پر دو تہائی اکثریت کے ساتھ جیتا مگر اقتدار میں آنے کے بعد ایک بھی صوبہ نہ بنایا اور ان کے دور میں اس قدر نا انصافیاںہوئیں کہ آج تک وسیب کے لوگ فریاد کناں ہیں۔ تحریک انصاف آج کل زیر عتاب ہے، پی ٹی آئی نے بھی صوبے کے نام پر اپنے اس وقت کے آقائوں کے اشارے پر قوم سے بدترین دھوکہ اور فراڈ کیا، صوبے کے نام پر ووٹ لئے اور بے اختیار سول سیکرٹریٹ کا لولی پاپ تھما دیا ۔ پاکستانی مظلوم قوم ہے جس نے بھی اس سے دھوکہ کیا قدرت کی طرف سے اُسے سزا ضروری ملی۔ اگر عمران خان نے اُس وقت عام آدمی کو با اختیار بنانے پر دھیان دیا ہوتا تو ان کو یہ دن دیکھنے ہی نہ پڑتے۔ کس کس کی بات کریں، سب ہی نے ملک کے وسائل کو بیدردی سے لوٹا ہے، پہلے سے پسماندہ علاقوں سے رقبے، وسائل اور ملازمتیں سب کچھ لے لیا گیا ،لوگ مزدوری کے لیے کراچی جا کر جھگی نشین بنے تو ان کی جھونپڑیوں کو آگ لگا کر خاکستر کر دیا گیا،پنجاب کے لوگ مزدوری کے لیے تربت بلوچستان گئے تووہاں سے ان کی مسلسل لاشیں آ رہی ہیں ، کیوں؟ اس بارے میںپیپلز پارٹی سمیت تمام سیاسی جماعتوںکو سوچنا ہوگا۔ الیکشن صرف اقتدار یا چہروں کی تبدیلی کیلئے نہیں بلکہ ملک و قوم کے وسیع تر مفاد ، پاکستان کے استحکام ، قوم کے حقوق ، غربت کے خاتمے اور جمہوریت و انصاف کے بول بالا کے لیے ہونے چاہئیں۔