وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ عام انتخابات کے سلسلہ میں انتخابی مہم میں تیزی دیکھنے میں آ رہی ہے، بلاول بھٹو کا لاہور ہائیکورٹ بار سے خطاب بھی اسی مہم کی کڑی تھا، دوسری طرف پاکستان بار کونسل ، سپریم کورٹ بار اورپنجاب و سندھ ہائیکورٹ بار زنے الیکشن کمیشن آف پاکستان پرتحفظات کا اظہار کرتے ہوئے حلقہ بندیوں پر اعتراضات اٹھا دئیے، وکلاء کی طرف سے چیف الیکشن کمشنر کے استعفے کا مطالبہ بھی کیا گیا ہے، دوسری طرف ملک میں عام انتخابات کے سلسلے میں کاغذات نامزدگی کی وصولی کے آغاز کے ساتھ ہی الیکشن کمیشن آف پاکستان نے امیدواروں کی اہلیت سے متعلق شرائط اور ہدایات جاری کردی ہیں۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے کاغذات نامزدگی جمع کرانے والے امیدواروں کے لیے جاری شرائط اور ہدایات نامے میں کہا گیا ہے کہ انتخابات میں حصہ لینے والے امیدوار کی اہلیت و نا اہلیت سے متعلق آئین کے آرٹیکلز 62 اور 63 میں درج تفصیلات کے مطابق انتخابات میں حصہ لینے کے لیے امید وار کا پاکستانی شہری ہونا لازمی ہے، جہاں تک آرٹیکلز 62 اور 63 کا تعلق ہے تو صداقت اور امانت کے معیار کا سب کو علم ہے، اگر ان آرٹیکلز کے تحت دیکھا جائے تو موجودہ سیاستدانوں میں سے 80 فیصد شقیں بھی پوری کرتے دکھائی نہیں دیتے ۔ آرٹیکل 62 کا ایک اہم نقطہ یہ ہے کہ امیدوار سمجھدار ہو، پارسا ہو، ایماندار اور امین ہو اور کسی عدالت کا فیصلہ اس کے خلاف نہ ہوا ہو، یہ ہدایت نامہ الیکشن کمیشن کی طرف سے جاری ہوا ہے اور الیکشن کمیشن جس طرح عدالتوں سے سزا یافتگان کو رعایتیں دے رہا ہے اس سے غیر جانبدار انتخابات کا انعقاد ممکن نظر نہیں آتا۔ الیکشن کمیشن کے ہدایت نامے میں یہ بھی کہا گیا کہ امیدوار کا کاغذات نامزدگی کے ساتھ بیان حلفی جمع کرانا بھی لازمی ہوگا اور امیدوار کو اپنے اہل خانہ سمیت زیر کفالت افراد کے اثاثوں کی تفصیلات جمع کرانا ہوں گی ، یہ شرط بھی ایک کاغذی کارروائی بن کر رہ گئی ہے کہ اصل اثاثے کوئی نہیں بتاتا۔ مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں نواز شریف نے لاہور میں پارٹی رہنمائوں سے گفتگو کے دوران کہا کہ جھوٹ کی معافی نہیں ملتی، لیکن زمینی حقائق یہ ہیں کہ آج من پسند لوگوںکو معافیاں مل رہی ہیں۔ الیکشن کے سلسلہ میں امریکی ترجمان محکمہ خارجہ میتھیو ملر کا یہ کہنا کہ پاکستان میں آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کی حمایت جاری رکھیں گے ۔ سوال یہ ہے کہ پاکستان میں ہونے والے الیکشن سے امریکا کا کیا لینا دینا ہے؟ کیا یہ پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں ہے؟ سینئر سیاستدان چوہدری شجاعت نے اوپر سے تو یہ بات کر دی ہے کہ الیکشن میں تمام جماعتوںکو یکساں مواقع ملنے چاہئیں لیکن وہ کھل کر مطالبہ نہیں کر رہے کہ ان کو حالات و واقعات کا علم ہے۔ عام انتخابات کی ایک بات یہ بھی ہے کہ بلاول بھٹو اور نواز شریف ایک بات کر رہے ہیں ، میاں نواز شریف نے لاہور میں مسلم لیگ (ن) کے پارلیمانی بورڈ کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ آئین ٹوٹتا ہے تو ججز ہار پہناتے ہیں ، پچاس برس سے یہی تماشہ دیکھ رہے ہیں جبکہ بلاول بھٹو نے لاہور ہائیکورٹ کے آڈیٹورم میں آئین بننے کی 50 سالہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہ عدالت میں انصاف کے لیے آیا جاتا ہے ۔ گزشتہ عام انتخابات میں وسیب میں جہاں صوبہ محاذ کھڑا کیا گیا تھا وہاں بلوچستان میں باپ پارٹی وجودمیں لائی گئی تھی ، ان دونوں کو تحریک انصاف کی گود میں بٹھا دیا گیا، اب بلوچستان سے سابق وزیر داخلہ سرفراز بگٹی کی پیپلز پارٹی میں شمولیت کے بعد بلوچستان عوامی پارٹی (باپ) کے رہنما اور سابق وفاقی وزیر اسرار ترین بھی پیپلز پارٹی میں شامل ہو چکے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ سیاسی پرندے اشاروں کی زبان سمجھتے ہیں، جوڑ توڑ کی سیاست کا کھیل پچھتر سالوں سے جاری ہے ، ایک طرف بلوچستان کے دو اہم رہنما پیپلز پارٹی میں شامل ہو ئے ہیں دوسری طرف مرد و خواتین پر مشتمل بلوچ یکجہتی مارچ کے نام سے قافلہ بلوچستان سے ڈیرہ غازی خان پہنچا اور وہاں سے ڈیرہ اسماعیل خان روانہ ہو گیا، شرکاء ڈیرہ اسماعیل خان کے راستے اسلام آباد جائیں گے ، مظاہرین کا مطالبہ ہے کہ مبینہ مقابلے میں نوجوان کی ہلاکت کی عدالتی تحقیقات کرائی جائیں۔ ڈیرہ غازی خان پہنچنے پر وسیب کی طرف سے قافلے کو خوش آمدید کہا گیا تاہم سوشل میڈیا پر ہمدردی کے ساتھ یہ بھی مطالبہ کیا گیا کہ تربت میںقتل کئے گئے مزدوروں کے خون کا حساب بھی ہونا چاہئے، وسیب کے کچھ لوگوںنے سخت زبان استعمال کی مگر تاریخی حقائق یہ ہیں کہ وسیب کے لوگ ہر مظلوم کے ساتھ ہیں۔ تونسہ پہنچنے پر بلوچ یکجہتی مارچ کی رہنما ماہرنگ بلوچ نے کہا کہ تونسہ بلوچستان کا حصہ ہے۔ ماما قدیر جب مسنگ پرسنز کے سلسلے میں پیدل مارچ کر رہے تھے تو میں نے کہا تھا کہ ہمیں مسنگ پرسنز سے ہمدردی ہے آپ کو سرائیکی قوم کے مسنگ پرونس سے ہمدردی ہونی چاہئے اور ہمارے جو لوگ بلوچستان میں قتل ہو رہے ہیں اس کی جوابدہی بھی ضروری ہے۔ماما قدیر ہماری تقریب چھوڑ کر چلے گئے، یہی سوال ماہرنگ بلوچ سے بھی ہے کہ تربت میں ہلاک ہونیوالے ایک نوجوان کے لیے تو آپ احتجاج کر رہی ہیں آپ کا حق ہے مگر تربت میں سالہا سال سے پے در پے واقعات میں جومزدوربیدردی سے قتل کئے گئے ان کے لیے آپ نے آواز کیوں نہیں اٹھائی؟ ان مزدوروں کے قتل کا حساب کون دے گا؟ آج نگران وزیر اعظم کا تعلق بھی بلوچستان سے ہے ،بلوچستان ہی سے تعلق رکھنے والے سرفراز بگٹی چند روز پہلے تک وزیر داخلہ تھے ، سپریم کورٹ کے چیف جسٹس اور چیئرمین سینیٹ کا تعلق بھی بلوچستان سے ہے ، وسیب کے لوگ کس سے فریاد کریں؟ یہ بھی دیکھئے کہ بلوچ یکجہتی مارچ کا قافلہ ڈی جی خان پہنچا تو کسی سردار یا تمندار نے ہمدردی یا یکجہتی کا اظہار نہیں کیا، کیوں؟ یہی سوال سوچنے اور سمجھنے سے تعلق رکھتا ہے ۔