ہمارے معاشرے میں تقسیم کی لکیر گہری ہوتی جاتی ہے۔لکیر کے ایک طرف ایک خاص ذہن کا طبقہ ہے تو دوسری طرف مخالف ذہن رکھنے والے طبقات۔ یہ خاص ذہن کیا ہے؟یہ عصبیت ہے آپ چاہے اسے سیاسی عصبیت کہہ لیں۔عصبیت کی مختلف قسمیں ہوتی ہیں مثلاً مذہبی عصبیت‘ ثقافتی اور لسانی عصبیت‘ نسلی عصبیت۔اس لفظ عصبیت کے لغوی معنی شدید جذباتیت تعصب اور جانبداری کے ہیں۔جو لوگ کسی قسم کی عصبیت میں مبتلا ہوتے ہیں وہ اپنی حمایت کے معاملے میں شدید جذباتی ہوتے ہیں۔وہ جانبدار اور تعصب رکھتے ہیں۔ان دنوں ہماری قوم بھی ایسی ہی سیاسی عصبیت کا شکار ہے۔سیاسی جانبداری اور اس جانب داری میں جذباتیت کی آمیزش نے قوم کو منقسم کر دیا ہے۔مثلاً میں ایک لیڈر اور ایک پارٹی کا حامی ہوں اور میری حمایت یہ ہے کہ میں چاہتا ہوں کہ میرا لیڈر اور میری ہی پارٹی اقتدار میں آ جائے۔اس حد تک عصبیت اور حمایت رکھنے میں کوئی مضائقہ نہیں کہ یہ فطری امر ہے۔خرابی وہاں سے شروع ہوتی ہے جب میری عصبیت حق اور ناحق صحیح اور غلط‘سچ اور جھوٹ میں فرق نہ کرنے دے۔ ۔یعنی میں ایسا نابینا ہو جائوں کہ مجھے اپنے لیڈر اور اپنی پارٹی میں سرے سے کوئی خامی‘ خرابی اور عیب نظر ہی نہ آئے اور کوئی مجھے اس طرف متوجہ کرنا چاہے تو میں نہ صرف اسے ماننے سے انکار کردوں بلکہ اس کے لئے مرنے اور مارنے پر تُل جائوں۔یہ تقسیم ہمیں سیاست ہی کے میدان میں ہی نہیں۔میڈیا یا ذرائع ابلاغ میں بھی نظر آ رہی ہے۔ میڈیا کی اولین ذمہ داری غیر جانب دار رہنا ۔یعنی تصویر کے دونوں رخ دکھانا۔ہر عصبیت اپنا معقول جواز رکھتی ہے لیکن یہ عصبی معاشرے کے لئے اس وقت مہلک ہو جاتی ہے جب جذبات عقل پر غالب آ جائے۔جذباتیت اتنی شدید ہو کہ اپنے لیڈر کا مخالف ہمیں ملک دشمن اور غدار وطن نظر آنے لگے۔ہمارا دین بتاتا ہے کہ کسی کی مخالفت اتنی شدید نہ ہونی چاہیے کہ ہم انصاف کا دامن ہاتھ سے چھوڑ دیں۔سیاسی اختلاف اور سیاسی تنازع میں ہم سچائی اور عدل کا گلا گھونٹ دیتے ہیں۔ ہمیں اپنے لیڈر میں کوئی نظر آ جائے تو ہم اس کا جواز تلاش کر لیتے ہیں ۔ عصبیت دراصل ایک پیکیج ڈیل کی طرح ہوتی ہے۔جب کسی لیڈر کے معاملے میں ہمارے اندر تعصب پیدا ہوتا ہے تو ہم اسے سموچا قبول کرتے ہیں۔ہم اسے مکمل سفید سمجھ لیتے ہیں اور یقین رکھتے ہیں کہ اس کے اندر کوئی سیاہی ہرگز نہ ہو گی۔یہی وجہ ہے کہ جب کوئی لیڈر ہر دلعزیز ہوتا ہے تو اس کی ہر دلعزیزی کئی نسلیں کھا جاتی ہے۔باوجود اس کی ناکامی اور ناکارکردگی کے اس سے ہمارا عشق ہمارا رومانس کسی طرح بھی ختم ہونے میں نہیں آتا۔ ایک لکھنے والا’قلمکار اگر وہ متوازن رہنا چاہے اور سفید کو سفید اور سیاہ کو سیاہ کہنا چاہے تو اس میں بڑی دشواری پیش آتی ہے۔پڑھنے والے اس کے ان ہی خیالات کو قبول کرتے ہیں جن سے وہ اتفاق کرتے ہیں۔ان کے خیال میں جو پسند و ناپسند ان کی پہلے سے ان کے اندر ہے اگر لکھنے والا ان ہی کی تائید و تردید کرتا ہے تو پھر وہ سچا اور حق پر ہے لیکن اگر وہ معقول دلائل کے ساتھ حقیقت کی ایسی تعبیر پیش کرتا ہے جو پڑھنے والے کے ذہن میں پہلے سے نہ ہو تو نہ صرف یہ کہ اس پڑھنے والوں کے غیظ و غضب کا سامنا کرنا پڑتا ہے بلکہ ہر طرح کے دشنام اور الزام سے بھی اس کا واسطہ پڑ سکتا ہے۔یہ تماشا آج کل ہم ہر طرف دیکھ رہے ہیں۔نفرت اور عقیدت کا یہ کھیل پوری قوت سے جاری و ساری ہے اور سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ تقسیم در تقسیم آخر کار ہمیں کہاں پہنچا کر چھوڑے گی۔جس طرح رنگوں کے اندھے یا کلر بلائینڈ کو رنگ نظر نہیں آتے ویسے ہی عصبیت ہمیں سچائی کو برہنہ آنکھ سے دیکھنے سے محروم کر دیتی ہے۔یہ قدرت کا عجیب و غریب انتظام ہے کہ خود آدمی میں یہ اندرونی نقص پہلے سے پایا جاتا ہے۔اس بارے میں کچھ بھی نہیں کہا جا سکتا۔انسان بے شک ایک پیچیدہ مخلوق ہے اور ہر معاشرہ بھی چونکہ انسانوں سے آباد ہوتا ہے تو وہ بھی پیچیدہ ہی ہوتا ہے۔ابن خلدون نے معاشرے کی بقا کے لئے عصیبت کو ایک مثبت قدر بتایا ہے۔کیونکہ عصبیت ہی فرد کو فرد سے جوڑ کر رکھتی ہے۔قبائلی معاشروں میں جو اتحاد و یکجہتی ہوتی ہے اس کا بڑا سبب یہی عصبیت ہوتی ہے۔جدید معاشروں میں جو تبدیلیاں آئیں اور جو انقلاب برپا ہوئے ہیں۔ان میں بھی اسی عصبیت نے اپنا کردار ادا کیا ہے۔لیکن عصبیت وہاں خطرہ بن جاتی ہے جب وہ معاشرے کو تقسیم کے عمل سے دوچار کر دے۔اس تقسیم کے صاف معنی یہ ہیں کہ تصادم اور ٹکرائو یقینی ہے۔جن معاشروں میں خانہ جنگی یا سول وار ہوئے وہاں عصبیت کے نتیجے میں پیدا ہونے والی اسی تقسیم نے یہ صورت پیدا کی۔تو اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم معاشرے کو اس تقسیم در تقسیم کے عمل سے کیسے بچا سکتے ہیں۔ہم اتحاد و یگانگت کے احساسات کے ذریعے اس ٹکرائو اور تصادم سے معاشرے کو کیسے محفوظ رکھ سکتے ہیں۔یہ ذمہ داری لیڈر شپ کی ہے۔ان رائے ساز اداروں اور حلقوں کی ہے جو افراد معاشرہ پر اپنا اثر رکھتے ہیں۔ذہن سازی کرنا جن کا کام ہے ان ہی پہ یہ ذمہ داری بھی عائد ہوتی ہے اور ذہن سازی کون کرتا ہے‘ استاد‘ مفتی اور عالم دین‘ سیاسی لیڈر ‘ والدین عمل کے لئے ترغیب دینے والے مقررین جنہیں موٹیویشنل اسپیکرز کہا جاتا ہے‘ یہ اور ایسے دوسرے طبقے ہیں جو معاشرے میں رائے سازی یا ذہن سازی کا فریضہ ادا کرتے ہیں۔وہی یہ سمجھا سکتے ہیں کہ عصبیت مگر کس حد تک؟ہماری محبت اور نفرت مگر کتنی اور کہاں تک؟کہاں تک اپنی عصبیت کے معاملے میں جانا ہے اور کہاں پہنچ کر رک جانا ہے۔ گویا یہ اعتدال و توازن کا معاملہ ہے جسے ہاتھ سے چھوڑنا نہیں بلکہ تھامے رکھنا ہے۔یہ یقین رکھنا کہ جس طرح ہمیں اپنی پسند و ناپسند رکھنے کا حق ہے دوسروں کو بھی ہے۔دنیا اپنے اختلاف حسن وقبح ہی سے رنگا رنگ اور بو قلموں ہے۔یہ اختلاف ختم ہو جائے تو زندگی اختلاف کو برداشت کرنے کا نام ہے۔ جمہوریت اس حقیقت کا نام ہے کہ مجھے آپ سے اختلاف ہے مگر میں آپ کے اس حق کو تسلیم کرتا ہوں کہ آپ چاہیں تو مجھ سے اختلاف کریں۔’’الف’’ اگر میرا لیڈر ہے تو میں اس کا حامی ہوں اور ’’ب‘‘ آپ کا لیڈر ہے تو آپ بھی اس کے حامی ہو سکتے ہیں۔دیکھتے ہیں کہ اکثریت الف کو چنتی ہے یا ب کو یہ ایک سادہ سی حقیقت ہے‘ آسانی سے سمجھ میں آنے والی اور یہ اسی وقت صحت اور بابرکت ہو گی جب ہم اپنے جذبات کو قابو میں رکھ سکیں اور ہر ایک کو آزادی عمل کا حق دینے پر تیار ہوں کہ نجات اسی میں ہے۔