عام انتخابات کیسے ہونگے؟ کون سی جماعت کس پوزیشن میں ہوگی؟ اس طرح کے اور اس سے ملتے جلتے سوالات سب کے ذہنوں میں ہیں جبکہ سوشل میڈیا کی صورت میں بہت سارے حقائق بھی قوم کے سامنے ہیں، اسلام آباد ہائی کورٹ نے اڈیالہ جیل میں قید بانی پاکستان تحریک انصاف کی توشہ خانہ کیس سے متعلق سیشن کورٹ کا فیصلہ معطل کرنے کی درخواست مسترد کر دی ہے، چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ عامر فاروق اور جسٹس طارق جہانگیری نے درخواست پر تحریری فیصلہ جاری کیا جو 9 صفحات پر مشتمل ہے، تحریری فیصلے میں کہا گیا کہ قانون میں سزا معطلی کے آرڈر میں نظر ثانی یا ترمیم کی گنجائش نہیں، سپریم کورٹ کہہ چکی ہے سزا معطل ہو سکتی ہے فیصلہ نہیں، فیصلے میں کہا گیا کہ سپریم کورٹ واضح کر چکی ہے کہ سزا معطلی سے فیصلہ معطل نہیں ہوتا، بانی پی ٹی آئی نے سزا معطلی کی درخواست میں فیصلہ معطل کرنے کی استدعا نہیں کی تھی، اس کے باوجود پاکستان تحریک انصاف کے رہنما لطیف کھوسہ نے کہا ہے کہ یہ بات غلط ہے کہ سربراہ پی ٹی آئی الیکشن نہیں لڑ سکتے، لطیف کھوسہ نے کہا کہ فیصلے میں یہ نہیں لکھا کہ سربراہ پی ٹی آئی الیکشن نہیں لڑسکتے۔ اسلام آباد ہائیکورٹ فیصلے کیخلاف سپریم کورٹ جائیں گے، لطیف کھوسہ نے کہا کہ سربراہ پی ٹی آئی کے بغیر الیکشن ہو ہی نہیں سکتے، سربراہ پی ٹی آئی دلوں کی دھڑکن ہیں انھیں مائنس نہیں کیا جاسکتا۔ ٹرمپ کیخلاف فیصلے کو بھی وہاں کی سپریم کورٹ معطل کردے گی، لطیف کھوسہ نے کہا کہ سربراہ پی ٹی آئی انتخابات میں حصہ لیں گے وہ آؤٹ نہیں ہوئے، پی ٹی آئی نے الیکشن کے لیے متبادل پلان بھی تیار کر رکھے ہیں، انھوں نے کہا کہ ماضی میں پیپلزپارٹی کے رہنما آزاد حیثیت میں بھی الیکشن جیتے، پی ڈی ایم رہنما عوام میں جائیں گے تو انھیں حقیقت پتا چل جائیگی، ذوالفقار بھٹو کی ٹکٹ پر 1970 میں کھمبا بھی الیکشن جیت جاتا تھا، آج بھی ذوالفقار بھٹو کے الیکشن والی ہی کیفیت ہے، ذوالفقار بھٹو کو بھی ہینری کسنجر نے کہا تھا عبرت کا نشان بنا دیں گے، ذوالفقار بھٹو نے راجہ بازار میں امریکی سائفر لہرایا جس کے بعد پھانسی ہوئی، انھوں نے کہا کہ سربراہ پی ٹی آئی کے خلاف سائفر مقدمہ قوم کی عزت کے ساتھ مذاق ہے، سربراہ پی ٹی آئی کیخلاف سائفر کیس کوئی پاگل ہی قبول کرے گا، لطیف کھوسہ کا بیان اس وقت پی ٹی آئی کی پالیسی کے طور پر لیا جا رہا ہے جبکہ لیول پلیئنگ فیلڈ کا واویلا تاحال جاری ہے، بہت سارے سیاس مبصرین کے مطابق ن لیگ حالیہ انتخابات کی بنیفشری ہوگی، پیپلز پارٹی کے اعتراضات برقرار ہیں لیکن اس کے کسی امیدوار کے حوالے سے کاغذات نامزدگی چھینے جانے یا گرفتار کیے جانے کی ایسی کوئی خبر سامنے نہیں آئی جس قسم کی خبریں پی ٹی آئی کے بارے میں آ رہی ہیں، پی ٹی آئی نے سپریم کورٹ آف پاکستان سے رجوع کر لیا ہے اور انتخابات میں لیول پلیئنگ فیلڈ کیلئے الیکشن کمیشن آف پاکستان سے بھی رجوع کر رکھا ہے، انتخابی گہما گہمی جمہوریت کا حسن ہوتی ہے، پاکستانی میں برطانوی طرز پر جمہوری پارلیمانی نظام ہے، یہ دنیا کا مہنگا ترین جمہوری نظام تصور کیا جاتا ہے، جس کے تحت اختیارات کو نچلی سطح پر منتقل کیا جانا مقصود ہوتا ہے لیکن ہمارے ہاں اختیارات کو نچلی سطح پر منتقل کر کے عوام کو بااختیار بنانے کا شائد کبھی سوچا ہی نہیں گیا اور آج جبکہ دنیا ترقی کی وسعتوں کو چھو رہی ہے، ہمارے ہاں یہ موضوع زیر بحث ہے کہ کوئی کسی سیاسی جماعت کو ووٹ ڈال پائے گا یا نہیں، کوئی سیاسی جماعت میدان سیاست میں موجود ہوگی یا نہیں؟ انتخابات کا اعلان ہونے اور انتخابی شیڈول جاری ہونے کے باوجود گومگو کی کیفیت کوئی اچھا شگن نہیں، آئین پاکستان کے تحت ملک میں لیول پلیئنگ فیلڈ ہر سیاسی جماعت اور ہر شہری کا بنیادی حق ہے، مساوی مواقعوں کے ذریعے ہی آئین کو حقیقی معنوں میں بروئے کار لایا جاسکتا ہے، اس وقت وطن عزیز جن نامساعد حالات سے دوچار ہے، معاشی وا اقتصادی بحران جس خطرناک حد کو پہنچا ہوا ہے، اس کے لیے ضروری ہے کہ انتخابات میں تمام فریقین کو ہموار میدان مہیا کیا جائے۔بانی پاکستان حضرت قائد اعظم محمد علی جناح پاکستان کی ترقی جمہوری عمل کے ذریعے چاہتے تھے، قائد اعظم اس ضمن میں سب کی تربیت کرنا چاہتے تھے مگر افسوس قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا، بانی پاکستان قیام پاکستان کے صرف گیارہ ماہ بعد 11 ستمبر 1948 کو اس جہاں فانی سے عالم جاودانی کو کوچ کر گئے اور پاکستان میں پہلے عام انتخابات کا انعقاد 1970 میں یقنی بنایا جاسکا لیکن اقتدار کی رسہ کشی میں مشرقی پاکستان ہم سے جدا ہوگیا، اس کے باوجود سوال موجود ہے کہ کیا ہم نے سبق حاصلِ کیا ہے؟ آئندہ سال ماہ فروری میں انتخابات ہیں اور دہشتگردی کے دلخراش واقعات بھی افسوس کے ساتھ سامنے آ رہے ہیں، لہذا آمدہ عام انتخابات کے تناظر میں آئین کی حاکمیت جمہوری تسلسل اور مضبوطی کے لیے ازبس ضروری ہے، اس امر کا ادراک ہر سیاسی جماعت کو کرنا ہوگا اور تمام متعلقہ محکمہ جات اور ذمہ داران کو بھی آئین و قانون کی حاکمیت کا جھنڈا بلند رکھنا ہوگا تاکہ دشمن ہمیں میلی آنکھ سے دیکھنے کی جسارت کا گمان بھی نہ لا سکے، انتخابات اس صاف و شفاف انداز میں انعقاد پذیر ہونے چائیے کہ تمام بحرانوں کا خاتمہ ہوسکے نا کہ کوئی نیا بحران جنم لے اور عام آدمی کی محرومی بڑھتی رہے۔