پنجاب کے مختلف اضلاع میں آج17 جولائی کو 20 صوبائی نشستوں پر الیکشن کی دھوم ہو ر ہے ہیں ۔ ایلکشن مہم کے دوران عمران خان بمقابلہ مریم نواز جلسے ہوئے جن اضلاع میں یہ الیکشن ہو رہے ہیں وہاں پر نہ صبح کا پتہ ہے اور نہ شام کا ۔ اُمیدواروں کی دوڑیں لگی ہوئی ہیں۔ بیچارے شدید گرمی اور حبس کے موسم میںمیدان میں اترے ہوئے ہیں، جبکہ عوام کو شدید قسم کی مہنگائی کا سامنا ہے ۔وزیر اعظم میاں شہباز شریف نے قوم سے خطاب کے دوران تیل کی قیمتوں میں کمی کا اعلان کیا ہے جو کہ ناکافی ہے۔ پٹرول جو زیادہ تر غریب طبقہ اپنی موٹر سائیکل میں ڈلواتا ہے اُس کی قیمتوں میں نمایاں کمی نہیں کی گئی حالانکہ عالمی منڈی میں تیل کی قیمتیں 125 بیرل سے 91.63 ہو چکی ہیں لیکن ہمارے وزیر اعظم نے پٹرول کی قیمتوں میں صرف 18.50 روپے کمی کر کے قوم پر شاید ’’احسان عظیم‘‘کیا ۔قوم نے بھی پٹرول کی قیمتوں میں اتنی کم ، کمی کو قبول نہیں کیا ۔مہنگائی کی روز بروز بڑھتی ہوئی صورتحال نے سفید پوش طبقے کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے جبکہ ہمارا اعلیٰ طبقہ اپنی طرف سے اپنی عیاشیوں میں کسی قسم کی کمی نہیں کر رہا۔ بیوروکریسی کے ناز اور نخرے پہلے سے بھی بڑھ چکے ہیں ۔17 سکیل کے ایک اسسٹنٹ کمشنر کے نیچے 80 لاکھ روپے کی گاڑی ہے جبکہ ہمارے ساتھ بھارت کے وزراء بھی ایک ہزار سی سی گاڑی استعمال کرتے ہیں ۔ہمارے وزراء حضرات آج بھی پروٹوکول کی شکل میں دس سے پندرہ گاڑیاں استعمال کرتے ہیں یہ اربوں روپے کا پٹرول سالانہ ان کی عیاشیوں پر خرچ ہو جاتا ہے۔ قوم تو عرصہ دراز سے قربانیاں دے رہی ہے لیکن ’’اعلیٰ طبقہ ‘‘کب قربانیاں دے گا ؟ اب عمران خان اپوزیشن لیڈر بن چکے ہیں جو کام اپنے سیاسی مخالفین کے خلاف سابق حکومت کر رہی تھی اب وہی کام اپنے مخالفین کے خلاف موجودہ حکومت نے شروع کر دیئے ہیں۔ انٹی کرپشن کے ذریعے اپنے سیاسی مخالفین کے خلاف پورے زورو شور کے ساتھ انتقامی کاروائیاں جاری ہیں۔ ان حالات میں ملک کس طرح سے ترقی کر سکتا ہے عمران خان گذشتہ ایک ہفتہ سے جنوبی پنجاب سمیت پنجاب بھر کے مختلف اضلا ع میں طوفانی دوروں پرتھے گذشتہ دنوں انہوں نے علی پور میں ایک بہت بڑے جلسہ عام سے خطاب کیا عمران خان اگر تحریک استقلال کے سربراہ اصغر خان (مرحوم ) کی طرح ضدی نہ ہوتے تو آج یقیناً حکومت میں ہوتے ۔سیاست میں رہنے والے انسان کو اپنی زبان اور غصے پر ہر وقت کنٹرول میں رکھنا چاہیے لیکن عمران خان ایک پٹھان اور دوسرا اپنے والدین کا اکلوتا بیٹا ۔اس لیے جب وہ اسٹیج پر ہوتے ہیں تو سکندر اعظم بن جاتے ہیں حالانکہ اوپر اور نیچے اُن کو قلندر بن کر رہنا چاہیے لیکن پٹھانوں اور بلوچوں میں قلندر بہت کم ہی نظر آتے ہیں ان کی ا نا بعض دفعہ اِن کے لیے مشکلات کا سبب بن جاتی ہے ۔ عمران خان نے گذشتہ رو جھنگ میں بھی زبردست جلسہ کیا جس میں پہلے کی طرح اپنے مخالفین پر تنقید کی پھر 14 جولائی کو سر زمین ڈیرہ غازی خان میں بھی سیمنٹ فیکٹری موڑ پر ایک بڑے جلسہ عام سے خطاب کیا کیونکہ اُس روز سپریم کورٹ کا فیصلہ آیا تھا تو عمران خان نے ڈیرہ غازی خان کے جلسہ میں کہا کہ سپریم کورٹ کو اپنے فیصلہ پر نظر ثانی کرنی چاہیے اُنہوں نے کہا کہ مجھے سپریم کورٹ کے اِس فیصلہ سے دکھ ہوا ہے اُنہوں نے کہا کہ صدر عارف علوی نے مراسلہ چیف جسٹس کو تحقیقات کے لیے بھجوایا تھا اُنہوں نے کہا کہ میر ا قصور یہی ہے کہ میں امریکہ کے سامنے کھڑا ہو گیا میں نے دوسرے لوگوں کی طرح امریکہ کے بوٹ پالش نہیں کئے اُنہوں نے کہا کہ محترم چیف جسٹس صاحب یہ بھی پتہ کراتے کہ ڈونلڈ لو نے کسی کو پیغام دیا کہ عمران کو ہٹاؤ اِس بات کی تحقیقات کرانی ہونگی اگر ایسا نہ کیا تو آئندہ ہمارا کوئی وزیر اعظم امریکہ کے سامنے نہیں ٹھہر سکے گا عمران خان کے خطاب میں اعتماد تھا اُنہوں نے ڈیرہ غازی خان میں یہ عزم کیا کہ وہ 17 جولائی کے الیکشن میں واضح فتح حاصل کریں گے صوبائی حلقہ 288ڈیرہ غازی خان میں دونوں طرف سے کھوسہ سردار آپس میں مد مقابل ہیں ایک طرف تحریک انصاف کے سردار سیف الدین کھوسہ اور دوسری طرف اُن کے چچا سردار امجد فاروق کھوسہ ایم این کے صاحبزادے سردار عبدالقادر کھوسہ ہیں جن کو بہادر گڑھ کھوسہ گروپ کے نام سے بھی پکارا جاتا ہے ۔ 2018ء کے جنرل الیکشن میں اِس حلقہ سے کامیابی حاصل کرنیو الے سردار محسن عطاء کھوسہ تھے جو تحریک انصاف میں شامل رہے لیکن پنجاب میں حالیہ حکومتی تبدیلی میں محسن عطاء کھوسہ نے حمزہ شہباز کا ساتھ دیا جس پر وہ اپنی سیٹ سے ہاتھ دھو بیٹھے اور اب وہ مسلم لیگ (ن) کی چھتری تلے اپنے بھتیجے عبدالقادر کھوسہ کی حمایت کر رہے ہیں سردار سیف الدین کھوسہ دن رات محنت کر رہے ہیں اُن کی پوزیشن کافی مضبوط نظرا ٓتی ہے اِس حلقہ میں دونوں اُمیدواروں کے درمیان کانٹے دار مقابلہ ہو گا اور دو تین ہزار ووٹوں سے ہار جیت ہو گی عبدالقادر خان کھوسہ کی حمایت کرنے کے لیے سردا ر اویس خان لغاری نے اپنی صوبائی وزارت سے استعفیٰ دے دیا ہے اِن کو حکومتی پارٹی ہونے کا فائدہ بھی مل رہا ہے لیکن عمران خان کے حالیہ جنوبی پنجاب کے دوروں نے اپنے اُمیدواروں کا مورال کافی بلند کر دیا ہے اگر صحیح معنوں میں شفاف الیکشن ہوئے تو تحریک انصاف ایک مرتبہ پھر کافی نشستیں لے سکتی ہے ۔