بانیِ پاکستان جنابِ قائد اعظم محمد علی جناح نے فرمایا کہ ’دنیا کی کوئی قوم عظمت کی بلندیوں کو نہیں چھو سکتی تاوقتیکہ اس قوم کی خواتین مردوں کے شانہ بشانہ کام نہ کریں۔یہ جملے پچھے دنوں بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی ملتان کے جناح آڈیٹوریم میں اْس وقت سننے کو ملے جب پاکستان کی جامعات کے کچھ جید حضرات شعبہ سماجیات اور پبلک ہیلتھ کی جانب سے منعقدہ بین الاقوامی کانفرنس سے خطاب کررہے تھے۔ کانفرنس کی صدارت امریکی یونیورسٹی کی پروفیسر ڈاکٹر انیتہ لی اور بانی چیئرمین پنجاب ہائر ایجوکیشن کمیشن پروفیسر ڈاکٹر محمد نظام الدین کررہے تھے۔ اس موقع پر پروفیسر نظام الدین نے کانفرنس کے منتظمین کی کارکردگی کو سراہتے ہوئے کہا کہ یہ واقعی قابل ِتحسین اقدام ہے کہ محققین نے دو سو سے زائد تحقیقی مقالہ جات جمع کرائے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں اپنے مسائل کو اپنے معاشرتی سیاق و سباق میں ہی دیکھنا چاہئے۔ بلاشبہ ہیں ان مسائل کا حل بھی مقامی حالات و واقعات کے مطابق ہی تلاش کرنا چاہئے مگر اس میں بھی کوئی حرج نہیں کہ ہم ترقی یافتہ ممالک کے ماڈل کو سامنے رکھتے ہوئے ان مسائل کا حل تلاش کریں۔ سابق وائس چانسلر قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد محمد علی شاہ نے کہا کہ وہ ایک ایسے گاؤں سے واقف ہیں جہاں خواتین کے اپنے ذاتی بینک اکاؤنٹس تک نہیں ہیں۔ کام کرنے والی خواتین کو دورانِ ملازمت ترقی میں درپیش مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس موقع پر انہوں نے شاکر شجاع آبادی کی شاعری پڑھتے ہوئے کہا’خدایا خود حفاظت کر تیڈا فرمان وکدا پئے، کتھائیں ہے دین دا سودا، کتھائیں ایمان وکدا پئے؛ کتھائیں ملاں دی ہٹی تے، کتھائیں پیراں دے شوکیس اچ،میڈا ایمان، بدلیا نی، مگر قران وکدا پئے؛اِتھاں لیڈر وپاری ہن، سیاست کارخانہ ہے، اتھاں ممبر وکاؤ مال ئن اتھاں ایوان وکدا پئے؛میڈے ملک ئچ خدا ڈالر، میڈے ملک اچ نبی پیسہ،اتھا ایمل نہ کئی آوے، اتھاں مہمان وکدا پئے؛نی ساہ دا کئی وساہ شاکر، ولا وی کیوں خدا جانڑے،ترقی دی حوس وچ، ہر ہک انسان وکدا پئے اگرچہ ایک سانس کا بھی بھروسہ نہیں ہے مگر خدا جانے کہ لوگوں نے ترقی کی ہوس میں خود کو اتنا کیوں گرا لیا ہے کہ وہ انسانوں کو بیچنا شروع ہوگئے ہیں۔ محمد علی شاہ نے مزید کہا کہ ہمارا تو مذہب کہتا ہے کہ عزت کا معیار علم اور تقوی ہے جبکہ ہم نے عزت کا معیار دولت کو بنا لیا ہے۔ ہمیں عہدے کا نہیں بلکہ انسان کا احترم کرنا چاہیے۔ ہماری معاشرتی پستی کا اندازہ یہاں سے لگا لیجئے کہ ہمار بچہ جب تک سکول بس میں سوار نہ ہو والدین کھڑے رہتے ہیں، جبکہ جاپان میں ایسا بالکل نہیں ہے۔ ہمیں معاشرے میں موجود مسائل خود حل کرنا ہونگے۔ وائس چانسلر اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور انجینئر پروفیسر ڈاکٹر اطہر محبوب نے کہا کہ سوشیالوجی اور پبلک ہیلتھ جیسے مضامین اْن کے دل کے بہت قریب ہیں۔ ہمیں اپنے مسائل کو اپنے معاشرتی انداز سے دیکھنا ہوگا۔ کہنے لگے کہ انہوں نے پینتیس سال پہلے ابن خلدون کا مقدمہ پڑھا۔ جب وہ اپنی درسگاہ چھوڑنے لگے تو انہوں نے کلیات اقبال اور مقدمہ رکھ لیا اور باقی تین ہزار کتابیں لوگوں میں بانٹ دیں۔ پروفیسر اطہر محبوب نے کہا کہ اب ہمیں اپنے مسائل کو نئے سرے سے حل کرنا ہوگا۔ ان مسائل کا حل واقعی ہم اچھے انداز میں تلاش کرسکتے ہیں۔ ہم اپنی خواتین کو مثبت انداز میں معاشرتی تعمیر و ترقی میں شامل کرسکتے ہیں۔ ٹیم ورک کے ذریعے چیزوں کومل جل کرکرنا ہوگا۔ 2019 ئمیں انہوں نے جب جامعہ اسلامیہ کا چارج سنبھالا تو اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور میں سوشیالوجی کا شعبہ سرے سے موجود ہی نہیں تھا۔ انہوں نے سوشل ورک اور سوشیالوجی کے نئے شعبہ جات متعارف کرائے۔خواتین کی صحت کا الگ مرکز بنایا، ایک الگ سے اِن ایبلنگ سنٹر بنایااور پروفیسر ڈاکٹر ثمر فہد کو اس کا ڈائریکٹر تعینات کیا۔انہوں نے سماجی و معاشی تبدیلی پہ عملی کام کیا۔ فیکلٹی آف سوشل سائنسز، فیکلٹی آف آرٹس، فیکلٹی آف منیجمنٹ سائنسز اور دیگر فیکلٹیز قائم کیں۔ انہوں نے کہا کہ وقت کی یہ اہم ضرورت ہے کہ ہم طلبہ کو سٹریس منیجمنٹ، سوشل منیجمنٹ اور دیگر مسائل کو حل کرنا سکھائیں۔ پروفیسر ڈاکٹر رعنا ملک پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ جینڈر سٹڈیز کی چیئرپرسن کی حیثیت سے کام کررہی ہیں۔ انہوں نے حسب ِ معمول ایسے ایسے معاشرتی پہلوؤں پر روشنی ڈالی کہ قائداعظم آڈیٹوریم میں موجود لڑکیوں کی بڑی تعداد دیر تک تالیاں بجاتی رہی۔ ڈاکٹر رعنا ملک نے کہا کہ پنجاب یونیورسٹی کے تقریبا ہر کانووکیشن میں ستانوے فیصد میڈلز طالبات حاصل کرتی ہیں مگر وہ ہمیں معاشرے میں کام کرتی نظر نہیں آتیں۔ ملازمتوں میں وہ گولڈ میڈلسٹ لڑکیاں کیوں نظر نہیں آتیں دراصل یہ معاشرہ انہیں واپس بھیج دیتا ہے۔ ہمیں اس سوچ کو بدلنا ہوگا۔ رعنا ملک کے بقول ہمارے ہاں لوگ اس لیے بھی نہیں لکھ رہے کیونکہ انہیں انگریزی زبان میں لکھنے کا کہا جاتا ہے، انہیں اردو میں لکھنے کی اجازت دی جائے تو وہ اچھا لکھ سکتے ہیں۔ اس موقع پرقائداعظم یونیورسٹی اسلام آباد کے شعبہ سوشیالوجی ڈاکٹر حاضر اللہ نے کہا کہ دنیا میں سالانہ 780 ملین خواتین کو کئی طرح کے تشدد کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ سماجیات سے ڈاکٹر احمد عثمان نے کہا ہمارے نصاب میں صنف کے متعلق مواد مغربی سوچ کے مطابق موجود ہے جبکہ ہم آج بھی مشرقی معاشرے کے مطابق یعنی پاکستان کی روایات اور اقدار کے حوالے سے کوئی مواد بنا ہی نہیں پائے۔ اختتامی کلمات میں پرووائس چانسلر بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی ملتان پروفیسر ڈاکٹر علیم خان نے کہا کہ تاریخی حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ سیلجوک اور سلطنت عثمانیہ کے نو سو سال تک خواتین کے حقوق کے حوالے سے کوئی مسئلہ ہی پیدا نہیں ہوا تھا۔ دراصل یہ سارا معاملہ انیسویں صدی میں مغربی تہذیب کے چار پرچاروں بشمول روتھ شاییلڈ نے کھڑا کیا۔ اْن کا ایک ایجنڈہ تھا کہ مشرقی معاشروں کو کمزور کیا جائے۔ انہوں نے خواتین کو آزادی دلانے کی بات کی۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ خواتین کی کونسی آزادی؟ لارڈ میکالے کا ہندوستان میں تعلیم کے متعلق بیان آج بھی ریکارڈ پر موجود ہے۔ انہوں نے ہماری مشرقی تعلیمی نظام اور معاشرت کو زبردست قرار دیا اور بعد ازاں اْسے خراب کرکے مغربی تہذیب و اطوار کو پروان چڑھایاگیا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنا تعلیمی نظام درست کریں۔ کیونکہ ہم نے اس دنیا کو بلاتفریق معاشرت، معیشت اور تعلیم کا نظام دیا ہے۔ ٹھیک ہے ہم تھوڑا کمزور ضرور ہوئے ہیں مگر ہم دوبارہ عظمت کی بلندیوں تک پہنچ سکتے ہیں۔