آج آٹھ مارچ ہے، خواتین کا عالمی دن، پچھلے چند برسوں سے ہمارے ہاں اس روز مختلف بڑے شہروں میں عورت مارچ نکالا جاتا ہے۔اس مارچ میں خواتین کے حقوق کے لئے کام کرنے والی تنظیمیں، سوشل ایکٹوسٹ،سول سوسائٹی گروپس، این جی اوز وغیرہ مل کر شامل ہوتی ہیں۔ مختلف سلوگن، پوسٹر، بینر وغیرہ بنائے اور لہرائے جاتے ہیں۔ میڈیا پر اس کی بھرپور تشہیر ہوتی ہے۔ اس کی دو وجوہات ہیں، پہلی عورت مارچ کا متنازع بن جانا۔ میڈیا کی فطرت ہے کہ وہ ہر تنازع کی طرف لپک کر جاتا ہے کیونکہ تنازع، لڑائی ، سنسنی زیادہ سے زیادہ ناظرین کو سکرین سے چپکنے پرمجبور کرتی ہے ، یوں زیادہ ریڈنگ زیادہ کمائی۔ دوسری وجہ اس میں شامل ہونے والی خواتین کی اکثریت کا ایک خاص کلاس سے تعلق ہے۔مغربی لباس میں ملبوس چمکتے دمکتے چہرے جنہیں میڈیا کا کیمرہ پسند کرتا ہے۔ یہ بات کسی طنز کے طور پر عرض نہیں کی گئی، بلکہ ایک امرواقعہ کی حیثیت سے بیان ہوئی۔ جہاں کہیں گلیمر ہو، لش پش ہو، جدید مغربی ملبوسات پہنے خواتین ہوں، وہاںٹی وی کیمرے ضرور پہنچیں گے، اس لئے کہ ایسی کوریج ناظرین زیادہ پسند کرتے ہیں۔ اگلے روزلاہور میں فیض امن میلہ ہوا۔ اس کا بھی یہی معاملہ ہے، وہاں کی رونق، گلیمر دیدنی ہوتا ہے۔ لاہور لٹریچر فیسٹول ہو یاکوئی ایسا اسی نوعیت کا برگر اجتماع (لاہوری اصطلاح میں ممی ڈیڈی کرائوڈ)تو کیمرے کھنچے چلے جاتے ہیں۔ صحافی کے طور پر ہم نے بہت بار دیکھا کسی مذہبی اجتماع میں دس ہزار لوگ جمع ہوجائیں تو کوریج نہ ہونے کے برابر جبکہ ایسے ممی ڈیڈی اجتماع میں پانچ سو لوگ ہوں تو سو گنا زیادہ کوریج ۔ جماعت اسلامی کو ہمیشہ یہی شکوہ رہتا ہے۔ آٹھ مارچ کو اسلامی جمعیت طالبات کے تحت باحجاب بانقاب سینکڑوں بچیاں آ کر مظاہرہ کرتی ہیں، اپنے سلوگن، پوسٹر بینر لہراتی ہیں، مگر انہیں عورت مارچ کی نسبت پانچ فیصد وقت بھی نہیں مل پاتا۔ ان دونوں فیکٹرز کی بنا پر عورت مارچ کو ہر سال خاصی بھرپور کوریج اور اہمیت مل جاتی ہے۔ یہ ایک لحاظ سے اچھی بات بھی ہے ۔ہماری خواتین کے مسائل ، پریشانیاں اور محرومیاں اتنی زیادہ ہیں کہ ان کی طرف قوم کی توجہ مبذول ہونی چاہیے۔ مسئلہ یہ ہے کہ عورت مارچ اتنا متنازع ہوگیاکہ اس کے جائز اور درست مطالبات بھی تنقید کا نشانہ بن جاتے ہیں۔ عورت مارچ کے حوالے سے ایک واضح تقسیم عوامی حلقوں میں موجود ہے۔ عورت مارچ کے حامی حلقوں کا ایک حصہ لبرل، سیکولر، مذہب بیزار ، اینٹی مولوی ، اینٹی اسٹیبلشمنٹ، اینٹی اسلامی مشرقی اخلاقیات سوچ رکھنے والوں کی ہے۔ایسے معتدل لوگ بھی ہیںجو خود کو لبرل ، سیکولر کہلانا پسند نہ کریں، مگر اپنی نرم دلی یا حقیقت پسندی کی بنا پر انہیں مظلوم خواتین سے ہمدردی ہے اور وہ ان کے لئے آواز اٹھانا چاہتے ہیں۔ دوسری طرف عورت مارچ کے مخالفین یا ناقدین کی بڑی تعداد روایتی مذہبی، اعتدال پسند یا اینٹی لبرل سیکولر حلقوں کی ہے۔ عام آدمی بھی جو سوشل میڈیا پر عو رت مارچ کے چند ایک متنازع نعروں کے پوسٹر دیکھ چکا ہے، اس کی منفی رائے میں بھی شدت ہے۔ ایسے لوگ پورے یقین سے یہ سمجھتے ہیں کہ یہ مارچ صرف لبرل ایجنڈے کے لئے کیا جاتا ہے اور مقصد فحاشی پھیلانا اور مذہبی احکامات کا تمسخر اڑانا ہے وغیرہ وغیرہ۔ عورت مارچ کے بارے میں چونکہ پہلے سے انتہائی رائے بنا لی جاتی ہے، اس لئے اس میں موجود تمام تر مثبت باتیں، اچھی تجاویز وغیرہ بے کار چلی جاتی ہیں۔ وہ میڈیا یا سوشل میڈیا میں سنجیدہ معیاری گفتگو کا موضوع ہی نہیں بن پاتیں۔ مجھے یہ لگتا ہے کہ اگر عورت مارچ کے منتظمین اور منصوبہ ساز اپنی حکمت عملی میں تبدیلی پیدا کریں اور تنازع کی شدت بڑھانے کے بجائے سپورٹ بیس وسیع کرنے پر توجہ دیں تو زیادہ بہتر نتائج نکلیں گے۔ خواتین کو درپیش کئی اہم مسائل کے حوالے سے اتفاق رائے پایا جاتا ہے۔ تمام رائٹ ونگ جماعتیں، مذہبی گروپ، لبرل سیکولر حلقے ان پر متفق ہیں۔جہاں اتفاق رائے ہے، وہاں پر تو مشترکہ جدوجہد کرنی چاہیے۔ مثال کے طور پر خواتین کے موروثی جائیدا د میں حق پر کون مخالفت کرے؟ لبرل ، سیکولر گروپ ہوں یا مذہبی لوگ ان سب کی ایک ہی رائے ہے کہ جائیداد میں بہنوں، بیٹیوں کا حصہ یقینی بنایا جائے اور یہ کام ریاست ایسے موثر انداز میں کرے کہ خواتین کو عدالت جا کر اپنی جنگ نہ لڑنی پڑے۔ ورکنگ ویمنز کے لئے ہراسمنٹ قوانین پر ہر حلقہ فکر میں اتفاق رائے ہے۔ جماعت اسلامی ہو یا لبرل این جی اوز ان میں سے ہر کوئی یہی کہے گا کہ خواتین کو گلی محلے، سڑک، ٹرانسپورٹ اور دفاتر میں تنگ کرنے کی کسی کو اجازت نہ ہو۔ایسے ملزموں کو سخت سزائیں ملیں وغیرہ۔خواتین کے لئے الگ ٹرانسپورٹ کی کون مخالفت کرے گا؟ کوئی نہیں۔ ہر کوئی یہ چاہے گا کہ ہماری بچیاں محفوظ اور آرام دہ طریقے سے تعلیمی اداروں، دفاتر وغیرہ سے گھر پہنچیں۔ زچگی کے حوالے سے چھوٹے شہروں، قصبات اور دیہات میںخواتین کو جو مسائل ہیں، نوزائیدہ بچوں کے طبی مسائل وغیرہ… ان کے حل کے لئے بھی مشترکہ جدوجہد ہوسکتی ہے۔ ایسے بہت سے ایشوز ہیں۔ ڈومیسٹک وائلنس یا گھریلو تشدد کے حوالے سے ایک نکتہ پر تو اتفاق رائے ہوگا کہ عورت کے ساتھ ظلم نہیں ہونا چاہیے، مذہبی لوگ البتہ اس معاملے پر تماشا کھڑا کرنے کے بجائے اسے سلیقے سے حل کرنے کے خواہش مند رہتے ہیں۔ ان کا فوکس چونکہ خاندان اور گھر رہتا ہے، اس لئے وہ چاہیں گے کہ قوانین سخت ہوں اور ان کے خوف سے مردوں کو عورت پر ہاتھ اٹھانے سے روکا جائے ، مگر اس معاملے میں اتنا طوفانی ردعمل نہ ہو کہ گھر ہی اجڑ جائیں۔ یہاں پرلبرل حلقوں اور مذہبی لوگوں میں طریقہ کار کا فرق ہوسکتا ہے، مگر بہرحال عورت کے تقدس اور تحفظ پر سب متفق ہیں۔ ہر مذہبی عالم ، مذہبی جماعت یہی کہے گی کہ شریعت میں عورت کو پسند کی شادی کا حق حاصل ہے۔ کوئی ایسا نہیں کہے گا کہ عورت کو ونی کر دو، کسی بچی کا نکاح کر دیا جائے وغیرہ وغیرہ۔ مذہبی بیانیہ یہ ہے ہی نہیں۔ مذہبی یا روایتی لوگ یہ ضرور چاہتے ہیں کہ ان معاملات کواچھے طریقے سے ہینڈل کیا جائے۔ ایسا نہ ہو کہ گھروں کی بچیاں کو گھر سے بھاگنے پر اکسایا جائے اور ان کے والدین منہ چھپاتے پھریں۔ وہ اس معاملے پر شعور بڑھانے اور مرضی کے خلاف شادی پر پابندی کی تجویز دیتے ہیں۔ خواتین کے اہم ایشوز میں سے اسی نوے فیصد پر اتفاق رائے قائم کیا جا سکتا ہے ۔ کتنا ہی اچھا ہو کہ عورت مارچ میں جماعت اسلامی کی خواتین بھی شامل ہوں، پیپلزپارٹی، ن لیگ، تحریک انصاف وغیرہ کی ویمن تنظیمیں اور ہر قسم کے سول سوسائٹی گروپ، این جی اوز بھی اس کا حصہ ہوں۔ عورت خواہ رائٹ ونگ کی ہو یا لبرل ، سیکولر یا کسی بھی کلاس کی، اس کے مسائل موجود ہیں، ان کی نوعیت مختلف ہوسکتی ہے۔ بہرحال کچھ مسائل ان سب میں مشترک ہیں۔ ان پر مشترک جدوجہد کی جائے تو زیادہ بہتر نتائج برآمد ہوں گے۔ ایک بڑی وجہ تنازع متنازع نعرے بھی ہیں۔ میرا جسم میری مرضی ایسا ہی ایک نعرہ ہے۔ اس کی ایک تعبیر وتشریح عورت مارچ والے کرتے ہیں، جبکہ مخالفین کی تعبیر وتشریح مختلف ہے۔ دراصل عورت مارچ کے مظاہروں میں ایک الٹرالبرل حلقہ بھی شامل ہوجاتا ہے، جن کے نعروں میں ہم جنس پرستوں کے حقوق کی جدوجہد بھی شامل ہے۔ LGBTکے رنگ والے جھنڈے یا قانو ن توہین رسالت کے خلاف لکھے بینروں کا عورت مارچ سے کیا تعلق؟ایسے لوگوں کی وجہ سے ہی دوسرے سلوگن متنازع ہوجاتے ہیں۔ میرا جسم میری مرضی کے نعرے پر ویسے عورت مارچ منتظمین کو غور کرنا چاہیے۔ اگر وہ سمجھتے ہیں کہ اس سے مراد یہ ہے کہ عورت پر تیزاب پھینکا جائے، اسے گھریلو تشدد کا نشانہ بن بنایا جائے،طلاق دے کر خالی ہاتھ گھر سے نہ نکالا جائے،چولہا پھٹنے کا بہانہ کر کے جلایا نہ جائے … تو اس کے لئے نیا نعرہ وضع کریں۔ جن مظالم کی بات کی ہے ، ان میں میرا جسم میری مرضی کے الفاظ فٹ نہیں ہوتے۔ یہ الفاظ چیخ چیخ کر بتا رہے ہیں کہ یہ جسمانی ضرورت یعنی سیکس کے حوالے سے پرسنل چوائس کی بات ہو رہی ہے۔ میرا جسم ہے، میری مرضی ہے، جس طرح چاہوں اسے برتوں۔ عورت پر مظالم صرف جسم پر نہیں ہوتے بلکہ پوری ذات پر ہوتے ہیں۔ بیشتر جرائم میںجسم سے زیادہ روح چھلنی ہوجاتی ہے۔ ٹارچر صرف جسمانی نہیں بلکہ بہت بارذہنی ہوتا ہے۔ اس لئے جسم کے بجائے ذات یا شخصیت کی بات کرنی چاہیے۔ اگر’’ میری ذات میری مرضی‘‘کی بات کی جائے تو اس سے وہ منفی تاثر نہیں ملتا۔ ویسے بھی ہم جسم کا لفظ خاص معنوں میں استعمال کرتے ہیں، اس سے جسمانی خوبصورتی کی طر ف اشارہ ہے۔ مثلاًاگر کہا جائے کہ وہ خوبصورت خاتون ہے تو ذہن میں ایک خوبصورت شخصیت کا تصور ابھرتا ہے۔ اس کے بجائے کہا جائے کہ اس کا جسم خوبصورت ہے تو ذہن میں ایک کافرادا حسین جسم، اس کے نشیب وفراز کا تصور بنے گا۔ لفظوں کا اپنا تاثر، ہالہ اور رنگ روپ ہوتا ہے۔ یہ بات عورت مارچ والوں کو سمجھنی چاہیے۔ وہ اگر اپنے کاز یعنی اس ملک کی عورت سے مخلص ہیں تو ایک بار اپنے نعرے بدل کر دیکھیں۔ ممکن ہے انہیں پہلے سے کئی گنا زیادہ موثر اور بھرپور پزیرائی ملے۔