جانباز صحافت وخطابت شورش کاشمیری 14اگست 1917ئ؁ کو پیدا ہوئے اور 25 اکتوبر 1975ئ؁ کو اِس دار فانی سے کوچ کر گئے یعنی وہ 58 برس تک اِس دنیا میں رہے اور پھراپنے نام کی شمع روشن کرتے ہوئے رخصت ہو گئے ۔شورش کاشمیری اُن لوگوں میں شمار ہوتے ہیں جنہوں نے اپنی ساری زندگی طاغوتی قوتوں کے خلاف وقف کی ہوئی تھی 1935 ئ؁ سے آغا صاحب کی سیاسی زندگی مسجد شہید گنج کے مسئلہ سے شروع ہوتی ہے ۔ مسجد شہید گنج جو لاہور میں واقع ہے سکھوں نے 1935ئ؁ میں حکومت برطانیہ کے سامنے یہ دعویٰ کر دیا کہ شہید گنج مسجد سے پہلے اِس جگہ پر ہمارا گوو د ارہ تھا انگریزوں نے سکھوں کو اِس معاملے میں آزاد چھوڑ دیا جنہوں نے مسجد کو شہید کرنے کے لیے حملہ کر دیااِدھر مسلمانوں نے مولانا ظفر علی خان ، سید جماعت علی شاہ ، سید عطاء اللہ شاہ بخاری کی قیادت میں شہید گنج مسجد کا دفاع شروع کر دیا مسلمانوں اور سکھوں کے درمیان زبردست تنازعہ شروع ہو گیا انگریز گورنر نے مسلمانوں کو مارنے کا حکم دے دیا ۔مسلمانوں کے بڑے رہنما مولانا ظفر علی خان اور سید عطاء اللہ شاہ بخاری کو گرفتار کر لیا گیا ۔ مسلمانوں کے بپھرے ہوئے مجمع نے بادشاہی مسجد کا رُخ کیا اور یہی سے آغا عبدالکریم الفت ہمیشہ کے لیے آغا شورش کاشمیری بن کر نکلے ۔مسلمانوں کے جذبات کی بھرپور نمائندگی کرنے والا شورش کاشمیری پہلی مرتبہ شہید گنج مسجد کے مسئلہ پر گرفتار ہوا اور پھر اپنی جوانی کے 12 سال قید و بند میں بسر کر دیئے ۔ انگریز دور حکومت سے لے کر 1968ئ؁ تک پاکستان کی سب سے زیادہ سخت جیل ساہیوال اور میانوالی شمار ہوا کرتی تھیں جبکہ آغا شورش کاشمیری قیام پاکستان سے پہلے اور پھر 1968ئ؁ میں جب ایوب خان کے دور میں اُنہیں ڈیفنس رولز آف پاکستان کے تحت ایک اداریہ لکھنے کی پاداش میں گرفتار کیا گیا تو بھی ساہیوال جیل میں رکھا گیا اُس دور میں سید احمد سعید کرمانی وزیر قانون اور پھر صوبائی وزیر اطلاعات ہوا کرتے تھے جن کے ساتھ آغا شورش کی کسی مسئلہ پر اَن بَن ہو گئی تھی آغاصاحب نے احمد سعید کرمانی کے خلاف اپنی تقریروں میںبولنا اور اخبار میں لکھنا شروع کیا تو حکومتی وزیر احمد سعید کرمانی گھبرا گئے اور یوں صدر ایوب تک اِس معاملے کو لے جایا گیا اِس دوران آغا صاحب نے ایوب خان کے خلاف بھی چٹان میں ایک اداریہ لکھ دیا جس پر ایوب خان کافی سیخ پا ہوئے اور وفاقی وزیر اطلاعات الطاف گوہر کو چٹان کے خلاف کاروائی کرنے کا حکم دیا جس پر آغاصاحب کو ڈیفنس رولز آٖف پاکستان کے تحت قید کر کے چٹان کو بند کرنے کے احکامات جا ری کر دئے گئے لیکن شورش کاشمیری ڈٹ گئے۔ اپنے روحانی مرشد امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاری کی قیادت میں وہ بڑے بڑوں سے ٹکراتے رہے قیام پاکستان کے بعد بھی شاہ جی کی قیادت میں قادیانیوں کے خلاف سر گرم ہو گئے ۔ عشق رسول ؐ اُن کی زندگی کا اصل مرکز تھا ۔کراچی جیل میں جب قید تھے تو انہی دنوں 38 دنوں کی بھوک ہڑتال کی تھی۔ گورنر پنجاب ون یونٹ جنرل موسی خان اُن کے بارے میں ڈاکٹروں سے پل پل کی رپورٹ لیتے رہے جب ڈاکٹروں نے بتایا کہ شورش کاشمیری کسی صورت بھی بھوک ہڑتال ختم کرنے پر تیار نہیں تو جنرل موسی نے زچ ہو کر کہا تھا Let him die۔ یعنی اب اُسے مر جانے دو۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب کے عاشق کی یوں حفاظت فرمائی کہ حکومت نے ہتھیار ڈال دیئے اور شورش کاشمیری کو رہا کر نے کے احکامات جاری کر دئیے گئے۔ کراچی جیل سے رہائی کے بعد جب آغا صاحب بذریعہ ٹرین لاہور کے لیے روانہ ہوئے تو راستہ میں خان پور ریلوئے اسٹیشن پر اپنے وقت ایک بڑے ولی کامل پیر طریقت حضرت مولانا عبدالھادی دین پوری نے آپ کااستقبال کیا اور حضرت شورش کاشمیری کو گلے لگا کر اُن کا ماتھا چوما اور فرمایا کہ شورش دین کا سچا محافظ ہے ۔میں ختم نبوت ؐ کے اِس مجاہد کو سلام کرتا ہوں اس طرح حضرت یوسف بنوری نے جامعہ نبوری ٹاون کراچی میں آغا شورش کو اپنی نشت پر بیٹھایا اور زبردست خراج تحسین پیش کیا تھا۔ خطابت اور صحافت میں جو مقام اللہ تعالیٰ نے آغا شورش صاحب کو عطا کیا وہ بہت کم لوگوں کے حصے میں آیا اپنے قلم کے ذریعے بڑے بڑے و قت کے فرعونوں کو للکارتے رہے ۔پاکستان کی صحافت اور خطابت میں پھر شورش کو ئی نہ بن سکا اور نہ ہی بنے گا اپنی ایک نظم میں سیاست اور صحافت کا ذکر اِن الفاظ میں کرتے ہیں ۔ تذکرہ فرمایئے سرکار کا حلقہ زنجیر کی جھنکار کا کوڑیوں میں بک گئے اہل قلم بھائو کتنا گر گیا بازار کا صورت حالات نازک ہو گئی زخم دل پر رہ گیا تلوار کا واعظوں کی دعوت و تذکیر میں عام ہے میلان کاروبار کا تذکرہ کرتے رہیں گے اہل دل شورش مرحوم کے افکار کا شورش کاشمیری نے علماء کرام کو بھی ختم نبوت کے عظیم مشن کی خاطر ایک پلٹ فارم پر اکٹھا کیے رکھا اور جب 7 ستمبر 1974ئ؁ میں قومی اسمبلی سے قادنیوں کو اقلیت قرار دیا گیا تو آغا شورش کاشمیری نے تمام علماء کرام کے ساتھ اُس وقت کے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو بھی زبردست خراج تحسین پیش کیا اللہ تعالیٰ نے اُنہیں اُن کی زندگی میں اِس مشن میں کامیابی عطا کی اور پھر 25اکتوبر 1975ئ؁ کو مجاہد ختم نبوت حضرت شورش کاشمیری اپنے رب کے حضور پیش ہوگئے یہ 2009ئ؁ کی بات ہے کہ میں حرم شریف میں باب فتح کے ساتھ مغرب کی نماز ادا کرنے کے لیے بیٹھا ہوا تھا کہ نماز ادا کرنے کے بعد ایک بزرگ کے ساتھ میں وہی پر ملاقات کی تو دوران تعارف اُنہوں نے بتایا کہ میرا نام عبد الادیان ہے اور میں جامعہ اشرافیہ میں ہوتا ہوں اِس دوران جب انہیں پتہ چلا کہ میں آغا شورش کاشمیری کے ساتھ بڑی عقیدت رکھتا ہوں تو اُنہوں نے مجھے حرم شریف بیت اللہ شریف کے بالکل سامنے بیٹھ کر بتایا کہ بر خودار مرنے کے بعد جو سکون اور مسکراہٹ میں نے شورش کاشمیری کے چہرے پر دیکھی وہ آج تک کسی میت کے چہرے پر نہیں دیکھی۔