زندگی موت کی امانت ہے اور ہماری اصل زندگی آنکھ بند ہونے کے بعد شروع ہو گی جسے ہم موت سمجھتے ہیں وہ دراصل ہماری اگلی زندگی کا نقطہ آغاز ہوتا ہے زندگی اگر بندگی کے ساتھ وابستہ ہو جائے تو پھر وہ لافانی ہو جاتی ہے۔ روح دراصل امر ربی ہے اور جب ہم اپنی روح کواللہ اور اُس کے محبوب ؐ کے ساتھ جوڑ لیتے ہیں تو پھر وہ لافانی ہو جاتی ہے زندگی دراصل جینے اور سانس لینے کا نام نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی اصل بندگی اُس کے بندوں کے ساتھ محبت کرنا اور اُن کے لیے کچھ نہ کچھ کرتے رہنا اور یہی اصل بندگی ہے ۔آفتاب صحافت اور جانباز خطابت حضرت آغاشورش کاشمیری کے لخت جگر آغا محمود شورش کاشمیری بھی اللہ کو پیارے ہو گئے۔ اللہ تعالیٰ نے موت کو مومن کے لیے تحفہ قرار دیا ہے کہ جب ایک مومن انسان اِس دنیا سے کوچ کرتا ہے اور اِس عارضی اور فانی دنیا سے منہ موڑتا ہے تو اُس کی روح سیدھی ساتویں آسمان پر عرش کہ اے میرے اللہ تو نے مجھے معلی پر جا کر اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں سجدہ شکر ادا کرتی ہے ۔ نماز سب سے بڑی عبادت ہے اور اِس عبادت میں سب سے بڑی عبادت اللہ تعالیٰ کوسجدہ ہے ۔ یہ ایک سجدہ آدمی کو ہزار سجدوں سے نجات دیتا ہے ۔ آغا محمود شورش کاشمیری کی روح بھی جب اللہ تعالیٰ کے سامنے پیش کی گئی ہو گی تو اس عاشق رسول ؐ نے سب سے پہلے اللہ تعالیٰ کی بارہ گاہ میں سجدہ ریز ہو کر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا ہوا گا کہ اے اللہ تیرا لاکھ لاکھ شکر کہ تو نے مجھے اپنے محبوب ؐ کی اُمت میں پیدا فرمایا ۔مجھے چند روزپہلے آغا محمود شورش کاشمیری کا انتقال کا پتہ چلا کہ وہ رمضان المبارک میں جہان آخرت کو سدھار گئے۔ حضور اقدس ؐ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ رمضان المبارک میں وفات پانے والے میری اُمت کے بندوں سے حساب کتاب نہیں لیتا۔ اللہ تعالیٰ اپنے محبوب ؐ کی اُمت پر اتنی زیادہ رحمت فرماتا ہے تو اِس سے بڑی رحمت اور کیا ہو سکتی ہے۔ایک مرتبہ جب حضرت جبرائیل ؑ نے عرض کیا یا رسول ؐ میں ابھی دوزخ کو دیکھ کرآرہا ہوں اور اُس میں آپ کی اُمت کے لوگ بھی شامل ہیں بس یہ الفاظ سننے تھے کہ رحمت العالمین نبی ؐ نے اپنے آپ کو پورے تین دن سب سے جدا کر دیا اور دن رات اللہ تعالیٰ کے سامنے اپنی اُمت کے لیے بخشش طلب کرتے رہے۔ اِن تین دنوں میں حضور اقدس ؐ نے کسی بھی صحابی سے بات تک نہ کی اور نہ ہی اپنے حجرے مبارک کا دروازہ کھولا یہاں تک کہ حضرت علی ابن ابی طالب ؓ نے پاک بی بی بتول حضرت فاطمہ الزہرہ کو حضور اقدس ؐ کی خدمت اقدس میںبھیجاجنہوں نے رسول اللہ ؐ کو آواز دی یاابی یاابی ۔رحمت العالمین نے دروازہ کھولا اور سر مبارک اُٹھایا اور جواب دیامیری پیاری فاطمہ ؓ میں تین دنوں سے اپنی اُمت کے لیے بڑے غم میں تھا لیکن آج میرے پیارے رب نے مجھے میری اُمت کے بارے میں وہ عطا کر دیا کہ میں خوش ہو گیا وہ یقیناً اپنی بے پایاں رحمت سے میری اُمت کو بخش دے گا۔ اللہ اکبر اتناخوف اور اپنی اُمت سے محبت کرنے والے نبی ﷺ۔آغا محمود شورش کاشمیری آپ خوش قسمت ترین انسان تھے کہ آپ کے دل میں حضور اقدس ؐ کی بے پایاں محبت اور عقیدت تھی اور یہ محبت آپ کو اپنے عظیم باپ آغا شورش کاشمیری کی وجہ سے ملی جس کا سب سے بڑا لقب ’’مجاہد ختم نبوت ‘‘ہے۔ خطابت اور صحافت آغاشورش کاشمیری کے لیے صرف اِس دنیا کے لیے تھیں لیکن مجاہد ختم نبوت کا لقب ہمیشہ کے لیے ہے اور یہی سے ہی اِن پر اللہ تعالیٰ کی بے پایاں رحمت کی گئی مجھے جب آغا مبشر صاحب نے محمود بھائی کی وفات کی خبر سنائی تو میں نے فوراً آغا مشہود شورش سے رابطہ کیا جو اِن دنوں لندن میں اپنے بچوں کے پاس ہیں۔ تو بس پھر ہم دونوں دیر تک فون پرپتہ نہیں کس طرح سے محمود شورش کاشمیری کی تعزیت کرتے رہے۔ آغامشہود نے بس اتنا بتایا کہ آپ کی ’’ابی جی ‘‘ سے اتنی زیادہ محبت کو دیکھ کر محمود صاحب کہا کرتے کہ یار مشہود کبھی تو مظہر لاشاری سے ملاقات کرا دوں کہ جس کی باتوں میں میرے ’’ابی جی ‘‘ کا عکس نظر آتا ہے۔ یہ وہ خاندان ہے کہ جو ذرے کو آفتاب بنانا جانتا ہے میں آل شورش کا شکر گزار ہوں کہ وہ مجھ نا چیز اور ادنا سے انسان کو اپنا بھائی سمجھتے ہیں۔ کالم کے آخر میں آغا مشہود صاحب کے چند انتہائی خوب صورت الفاظ اپنے بھائی محمود شورش کاشمیری کے بارے میں جن کا کوئی ثانی نہیں آغا مشہود لکھتے ہیں ۔ ’’ میرا بھائی بائو‘‘ نے بے فکری ، لاپرواہی ، ہنسی مذاق ، نے جرأت ، بے باکی کاباب لپیٹ دیا۔ محمود شورش نے زندگی سے خود کو سمیٹ لیا تھا اِس ایک شخص میں اَن گنتے لوگ سمائے ہوئے تھے ۔ بچپن ، لڑکپن اور جوانی کی اکثر منزلیں میرے ایک سانس کے ساتھ اُس نے بسر کیں ۔خوبصورتی کمال کی تھی توضد بے مثال کسی بات پر اَ ڑ جانا اس کی شخصیت کا طرہ امتیاز تھا وہ گر یگری پیک بھی تھا اور دوسرے لمحے وحید مراد وہ ایک ہی جست میں سلطان راہی سے عمران خان کا انداز سفر طے کرنے میں کامیاب مہارت رکھتا تھا ۔عین لڑکپن میں آندھی فلم کی سنجیو کمار بننے کا خبط طاری کر لیتا سچ یہ ہے کہ اسے مجھ سے پیار نہیں عشق تھا اور مجھے اِس سے محبت سے زیادہ عقیدت ہے کیونکہ وہ تمام عقیدتوں ، عزتوں ، محبتوں کے محور رسول ؐ کا سچا عاشق اور خادم تھا ۔میرا ایمان ہے کہ اللہ تعالیٰ اُس کی اِس خوبی کی بدولت اُس کی مغفرت فرمائے گا ۔آغا صاحب نے اپنے بھائی کے بارے میں جن خوب صورت الفاظ کا خراج تحسین پیش کیا ہے اُس سے یقیناً آغا محمود شورش کی روح خوشی سے سر شار ہو رہی ہو گی ۔