قومی غیرت کے نعرے کی گونج میں ہونے والی ملکی سیاست کے تناطر میں ہم امریکہ میں جاری خارجہ پالیسی پر ہونے والے بحث و مباحثہ تک جا پہنچے اور سیاست کے ایک پروفیسر میئر شائمر کے حقیقت پسندانہ استدلا ل میں کھو کر رہ گئے۔ انہوں نے بین الاقوامی سیاست اور امریکی خارجہ پالیسی کی بھول بھلیوں میں کھوئے طلبا اور پالیسی سازوں کا راستہ روشن کردیا ہے۔ پروفیسر شائمر نے اپنی ایک کتاب کے مندرجات لیکچرز کی صورت میں دیے ہیں جن میں انہوں نے امریکہ کا دنیا کی واحد سپر پاور بننے کا خواب، اس کی تکمیل کے لیے وضع کیے گئے بش ڈاکٹرائن کی وضاحت اور اسکے فیل ہو نے کی وجوہات تفصیل سے بیان کی ہیں۔ڈاکٹر شائمر کا استدلال یہ ہے کہ آمرانہ حکومتوں کے زور بازو سے جمہوریت اور جمہوری اقدار کو فروغ دے کر دنیا کو جنگ سے محفوظ بنانا ایک مدلل نظریہ نہیں بلکہ محض ایک مفروضہ تھاجسے ثابت کرنے کے لیے امریکہ نے اپنے وسائل اور وقار دونوں کو داو پر لگادیا تھا۔ انہوں نے امریکہ کی دو معاملات میں غلط فہمی کا ذکر بڑی وضاحت سے کیا ہے۔ ایک، فلاحِ انسانیت کا تصور ہر معاشرے میں مختلف ہوتا ہے۔ دو، غیرت کسی قوم کا قیمتی ترین اثاثہ ہوتی ہے۔ امریکہ نے دنیا پر تا ابد تسلط اور غلبے کی لالچ میں ان دونوں عوامل کو نظر انداز کردیا تھا۔ نتیجے میں، مشرق وسطیٰطوائف الملوکی کے دہانے پر پہنچا اور مشرقی یورپ میدان جنگ بن گیا ہے۔ چین اور روس، جسے عالمی معاشی نظام کا حصہ بنا کر رام کرنے کی کوشش کی گئی وہ اب امریکہ کے سامنے سینہ تان کر کھڑے ہوگئے ہیں۔ حل انہوں نے یہ بتایا ہے کہ امریکی خارجہ پالیسی کو چین پر مرتکز ہونا چاہیے۔ اس ادراک کے ساتھ چین کی غیرت کا یہ تقاضہ بن چکا ہے کہ وہ مغربی اقوام کی ریشہ دوانیوں کے نتیجے میں ہونے والی اپنی صد سالہ ذلت کا بدلہ لے۔ یہ معاملہ اس وقت بہت اہمیت اختیار کرجاتا ہے جب چین پچھلی کئی دہاہیوں سے عالمی مالیاتی نظام میں شمولیت کے نتیجے میں طاقتور ہوچکا ہے اور اگلی کئی دہائیوں میں مزید طاقتور ہونے جارہا ہے۔ عقلمندی کا تقاضہ یہ ہے کہ مخاصمت کی بجائے صلح جوئی کا راستہ اختیار کیا جائے۔ اس معاملے سے احسن طریقے سے نمٹنے کے لیے روس کو حیلف بنانے میں کوئی حرج نہیں۔ اسے مزید دبانے اور تنگ کرنے کا مطلب ایک تو یہ ہوگا کہ آپ ماضی سے کچھ نہیں سیکھنا چاہتے دوسرے چین کو ایک طاقتور حلیف دے کر اسے شہ دے رہے ہیں کہ وہ مفاہمت کی بجائے مخاصمت کا راستہ اور آپکی دنیا ہی تہہ و بالا کرڈالے۔ پاکستان کی طرف آتے ہیں۔ آزاد خارجہ پالیسی کا نعرہ لگایا ہے تو اچھا کیا ہے کہ یہ قومی غیرت کا تقاضہ ہے کہ اس کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہ کی جائے۔ سمجھنے کی بات یہ کہ ہم اگر معاشی طور پر لنگڑے لولے ہیں، ادارے کمزور ہیں اور قدرتی وسائل تباہ تو اس کی وجہ یہی ہے کہ ہم بھی اس عالمی سیاست کا حصہ بن گئے تھے جو قوموں کو مادی ترقی کے نام پرزیر دست بنا کر انکی غیرت کا جنازہ نکال دیتی ہے۔ ہمارے پاس ایک ہی قدرتی وسیلہ تھا: پانی اور زرخیز زمینیں۔ پانچ دریا جن کے کنارے جنگل اگتے تھے۔ تازہ مچھلی ، دودھ، دہی، پنیر، چاول،دالیں، گندم، باجرہ، مکئی غرضیکہ وہ تمام عوامل جو تحفظ خوراک کے ذمہ دار تھے ہم نے اپنے ہاتھوں سے تباہ کر دیے۔ عالمی مالیاتی نظام کا فائدہ ہم نے یہ لیا کہ ڈیم بنالیے، دریاوں کا رقبہ سمٹا، دریا کنارے بسی آبادیاں نقل مکانی کرگئیں اور واگزار ہونے والی زمینیں چہیتوں کو الاٹ ہوگئیں۔ وہی کام جو انگریز سامراج نے یراجوں کی تعمیر اور ویران رقبوں کی آباد کاری سے کیا تھا۔ ڈیموں سے نکالی گئی نہروں سے گندم اور گنا پیدا ہورہا ہے۔ بیرونی قرضے اور امداد سے انڈسٹریاں لگائی گئیں، شہر بسائے گئے اور گندگی کو دریاوں اور نہروں میں بہا دیا گیا۔ صورتحال یہ ہے کہ یہ قوم تین سو تیس خاندانوں کے ہاتھوں میں یرغمال ہوگئی ہے جو معیشت پر قابض ہیں اور سیاست پر بھی۔ کم از کم چالیس فیصد آبادی اب بے دست وپا، بھوک اور بیماری کے چنگل میں پھنس چکی ہے۔ اس بوسیدہ نظام کو چلانے کے لیے، ان تین سو تیس خاندانوں کے مفاد کی محافظ وراثتی پارٹیاں، جمہوریت کے لیے مری جارہی ہیں کہ جمہوریت ہوگی تو امریکہ اور اسکے حواریوں سے امداد و تعاون کا راستہ کھلا رہیگا۔ معاملہ یہ ہے کہ جمہوریت میں خرابی نہیں۔یہ نظام کوئی مغرب کی ایجاد بھی نہیں کہ اسے مسترد کردیا جائے۔ جب سے ریاست وجود میں آئی ہے، اس طرز حکومت کو اپنایا بھی گیا ہے اور اسکی خوبیوں اور خامیوں پر بحث بھی ہورہی ہے۔ اگر یہی نظام پسند ہے تو ضرور ہونا چاہیے لیکن اسکا فائدہ تب ہوگا جب اسکے تقاضے بھی پورے ہوں۔ ان میں سب سے اہم شرائط ہیں: قانون کی عملداری، عالمی تصور شہریت (مساوات)، اقتدار و وسائل کی نچلی سطح تک منتقلی کا نظام (مقامی حکومتیں) اور آزاد علاقائی تجارت۔ ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم مارشل لا اور اشرافیائی جمہوریت کے دائرے میں گھوم رہے ہیں۔ وہ طبقات جنہیں جمہوریت چھو کر نہیں گزری ، وہی جمہوریت کے ٹھیکیدار بنے ہوئے ہیں۔ انہوں نے پہلے فریب سے سرد جنگ کے دوران امریکہ کو اپنے جال میں پھنسایا، پیسے لیکر اپنے اثر و رسوخ کو ملک کے اندر وسعت دی، ڈیم بنائے، رقبے ہتھیائے، قدرتی وسائل کا استحصال کیا لیکن جمہوریت نہ دی۔ جمہوری دور آیا تو ملٹی نیشنل کمپنیوں سے ساجھے داری کرلی، جمہوریت کو طبقاتی نظام کی خدمت پر لگا دیا۔ امریکہ نے جنرل مشرف کے ذریعے معاملات کچھ حد تک سیدھے کیے، اقتدار انکے حوالے کرایا لیکن ان شاہی مزاج لوگوں نے پارلیمانی اور صوبائی خودمختاری تو لی لیکن مقامی حکومتوں کو غیر فعال کردیا۔ تعلیم اور صحت کے شعبوں کو کسی تادیبی نظام کی غیر موجودگی میں نجی شعبے کے حوالے کرنا، وسائل کو چار صوبائی دارالحکومتوں تک محدود کرنا اور بیرونی قرضوں کا بوجھ عوام پر ڈالنا، سراسر ظلم ہی تو ہے۔ کوئی بات کرے تو مذہب اور لسانیت کے پیچھے چھپ جاتے ہیں۔ اصلاحات کاذکر ہو تو جمہوریت خطرے میں پڑجاتی ہے۔ اگر پاکستان نے بطور قوم زندہ رہنا ہے اور ترقی بھی کرنا ہے تو اس سوال کا جواب ڈھونڈنا ہوگا کہ مغرب کی اندھی تقلید میں ہم سے محض غلطی سرزد ہوئی ہے یا گناہ؟