مشرق وسطیٰ کے حالات دن بدن خراب ہوتے جا رہے ہیں۔ سات اکتوبر کو ہونے والی جنگ کے آغاز سے اب تک تقریباً دس ہزار فلسطینی مارے جاں بحق ہوچکے ہیں، جن میں زیادہ تر خواتین اور بچے شامل ہیں جبکہ چودہ سو اسرائیلی مارے جا چکے ہیں۔ جمعے کے روز اسرائیل نے ایک ایمبولینس پر بمباری کی جو غزہ شہر سے غزہ کے جنوب میں جا رہی تھی، جس کے نتیجے میں کم از کم پندرہ افراد جاں بحق ہو گئے ہیں۔ گزشتہ ہفتے سے، اسرائیل نے غزہ پر زمینی افواج کے ساتھ حملہ کیا ہے لیکن اس کے باوجود، اس نے حماس کی اسرائیلی فوجی تنصیبات کو نشانہ بنانے والے راکٹ داغنے کی صلاحیت کو ختم نہیں کیا ہے حالانکہ اسرائیل نے حماس کو ختم کرنے کو اپنا کلیدی مقصد قرار دیا ہے تاہم شہریوں کے رہائشی علاقوں، ہسپتالوں، سکولوں، ایمبولینسوں کے قافلوں اور عام شہریوں کی پناہ گاہوں پر اسرائیلی حملوں اور بمباری سے انسانی جانوں خاص طور پر معصوم فلسطینیوں کا انتہائی نقصان ہوا ہے۔ میدان جنگ میں ہونے والی پیش رفت کے بارے میں میڈیا رپورٹس کے مطابق ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اسرائیلی فوج غزہ کی پٹی کو دو حصوں میں کاٹنے کے چکر میں ہے۔ پچھلے ہفتے کے دوران اسرائیلی حکمت عملی کا ایک اہم ٹارگٹ یہ رہا ہے کہ غزہ کی پٹی کے شمال میں حماس اور اس سے وابستہ تنظیموں کو الگ تھلگ کیا جائے جس کے لیے شدید لڑائی جاری ہے۔ جنگ کی شدت بڑھنے کے ساتھ ہی جنگ کو روکنے کے لیے سفارتی کوششوں میں بھی اضافہ دیکھنے میں آیا ہے، اگرچہ امریکہ کی جانب سے فلسطین میں جاری انسانی مصائب کو کم کرنے کے لیے سفارت کاری بڑھا دی گئی ہے تاہم امریکہ کی یہ کوششیں مخلصانہ جدوجہد کم اور دکھاوا زیادہ معلوم ہوتی ہیں۔ امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے جنگ کے آغاز کے بعد مشرق وسطیٰ کے خطے کا تیسرا دورہ کیا ہے۔ اس دورے کے دوران انہوں نے اسرائیلی حکومت کے حکام سے ملاقاتیں کی ہیں۔ اور، وہ اردن کے دارالحکومت عمان میں مصر، لبنان، قطر اور اردن کے رہنماؤں سے بھی ملاقات کر چکے ہیں۔ عمان میں بلنکن کے مذاکرات اس وقت ہوئے جب امریکہ کو غزہ میں شہریوں کی تکالیف کو کم کرنے کے لیے اسرائیل کو انسانی ہمدردی کی بنیاد پر سیزفائر کرانے میں ناکام ہونے پر علاقائی رہنماؤں کی تنقید کا سامنا ہے۔ جہاں تک خطے میں امن کے قیام میں امریکہ کے کردار کا تعلق ہے تو ایسا دکھائی دیتا ہے کہ بائیڈن انتظامیہ بھی اپنے پیشروؤں کی طرح فلسطینیوں کو دبانے کے لیے صریحاً اسرائیل کی طرف مائل ہے۔ عام طور پر، یہ خیال کیا جاتا ہے کہ امریکی سیاسی دائرے کے اندر، ڈیموکریٹس جمہوری اقدار، انسانی حقوق اور نسل پرستی کے مخالف ہیں۔ تاہم، بائیڈن انتظامیہ نے غزہ کی پٹی پر اسرائیل کے حملے پر جس قسم کا ردعمل دیا ہے، اس سے پتہ چلتا ہے کہ بائیڈن انتظامیہ فلسطینیوں کے ساتھ غیر انسانی سلوک میں ٹرمپ انتظامیہ کو پیچھے چھوڑ چکی ہے کیونکہ غزہ پر اسرائیل کی جارحیت کو قبول کر لیا گیا ہے، اسرائیل کی نسل کش پالیسیوں کی حمایت کی گئی ہے، غزہ کی مکمل ناکہ بندی کی منظوری دی گئی ہے جس سے بجلی، پانی، خوراک، ادویات کی فراہمی منقطع ہے جبکہ فلسطینی شہریوں کے روزانہ قتل عام کو درست قرار دیا گیا ہے، جن میں زیادہ تر بچے اور خواتین ہیں حتیٰ کہ بائیڈن انتظامیہ نے اسرائیل کے جنگی جرائم کی پردہ پوشی کی ہے اور اسرائیلی مظالم کے بارے میں فلسطینیوں کے دعووں کو چیلنج کیا ہے جیسا کہ اہلِ عرب ہسپتال پر اسرائیل کا حملہ شامل ہے جس میں تقریباً 470 فلسطینی مارے گئے تھے۔ اسرائیل فلسطین تنازعہ کے حوالے سے یہ حقیقت ہے کہ امریکہ کبھی بھی ایمانداری کے ساتھ فلسطینیوں کا حامی نہیں رہا اور نہ ہی کبھی امن کے قیام میں مخلص رہا ہے۔ 1948 میں تنازع کے آغاز سے لے کر 1993 میں ہونے والے اوسلو معاہدے، حتیٰ کہ حالیہ اسرائیلی جارحیت سمیت امریکہ نے ہمیشہ اسرائیل کی حمایت کی ہے۔ تاہم، یہ پہلی بار ہے کہ امریکی انتظامیہ نے اسرائیل کے نام نہاد "اپنے دفاع کے حق" کا دفاع کرتے ہوئے کھلے عام اسرائیل کی حمایت کی ہے۔ اس بات کا آسانی سے مشاہدہ کیا جاسکتا ہے کہ ممکنہ صدارتی امیدواروں کے درمیان اپنی "اسرائیل نواز" اسناد ثابت کرنے کے لیے مقابلہ ہے۔ دوسری جانب امریکی قیادت غزہ میں اسرائیل کی جانب سے مسلسل بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزیوں پر آنکھیں بند کیے ہوئے ہے۔ اسی طرح، بائیڈن انتظامیہ نے کانگریس سے اسرائیل کے لیے 14 بلین ڈالر منظور کرنے کی درخواست کی ہے،جس میں سے زیادہ حصہ "آئرن ڈوم" کے نام سے مشہور اسرائیل کے فضائی دفاعی نظام کے لیے مختص کیا گیا ہے جبکہ دیگر ہتھیاروں کی خریداری کے لیے بھی خاطر خواہ رقم مختص کی گئی ہے۔ جیسا کہ میں پہلے کہہ چکا ہوں کہ ایک عالمی طاقت کے طور پر امریکہ کبھی بھی فلسطینیوں کے لیے مخلص نہیں رہا۔ اس لیے اب بھی امریکی حکومت کا ردعمل اسرائیل نواز ہے اور وہ فلسطینیوں کے مصائب کو کم کرنے کے لیے کوئی اہم قدم فائدہ نہیں اٹھا رہی ہے۔ بلکہ اسرائیل کے مفادات کے تحفظ کے لیے گاجر اور چھڑی کی پالیسی اپنائے ہوئے ہے یعنی حماس کا صفایا کرنا بالخصوص غزہ پر حماس کا کنٹرول ختم کرنا۔ قطر اور ترکی کے ساتھ مل کر امریکہ حماس سے یرغمالیوں کی رہائی کے لیے مصروف عمل ہے جبکہ بائیڈن انتظامیہ غزہ کی 2.3 ملین آبادی کو انسانی امداد فراہم کرنے کے لیے مصر کے ساتھ رابطے کا عمل جاری رکھے ہوئے ہے۔ عمان میں مصر اور اردن کے وزرائے خارجہ کے ساتھ، امریکی وزیر خارجہ بلنکن نے واشنگٹن کے موقف کو دہرایا اور غزہ میں شہریوں کے تحفظ اور غیر ملکی شہریوں کو غزہ چھوڑنے کی اجازت دینے کے لیے ’’انسانی ہمدردی کی بنیاد پر توقف‘‘ کا مطالبہ کیا۔ عرب رہنماؤں کی جانب سے فوری جنگ بندی کی تجویز پیش کی گئی ہے، جسے امریکہ نے مسترد کر دیا ہے کیونکہ امریکی سیکرٹری اسٹیٹ بلنکن کے مطابق جنگ بندی حماس کو دوبارہ منظم ہونے کا موقع فراہم کرے گی، جب کہ انسانی ہمدردی کی بنیاد پر جنگ میں توقف سے حماس کو شکست دینے کی اسرائیل کی صلاحیت پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ بلنکن نے خطے میں تنازعات کو پھیلنے سے روکنے کے لیے علاقائی ممالک کی کوششوں کو سراہا ہے۔ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ امریکا نے عرب ممالک پر اسرائیل اور غزہ کے مابین جاری جنگ سے خود کو دور رکھنے کے لیے دباؤ ڈالا ہے، جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ مشرق وسطیٰ میں پائیدار امن کے لیے دو ریاستی فارمولے پر عمل درآمد کے لیے امریکہ کتنا پرعزم ہے۔