کیا یہ آخری معرکہ ہوگا؟ لگتا نہیں! ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں، ملت کی قوت کی البتہامتحان ضرور ہوگا، ذہین نشین رکھنا ہوگا: تھا جو مسلماں اللہ کا وہ سودائی تھا، آخری نہ سہی فیصلہ کن معرکہ کا وقت ضرور آن پہنچا ہے۔ خود سے ہم کلامی کو سچ کے دائروں کا خوگر بنانے کا موسم منڈلا رہا ہے۔ ایسی تبدیلی کی مہر ثبت ہوچکی۔ جسے ناخدا عوامی بغاوت کا نام دے سکتے ہیں۔ عید الفطر بھی بیت جائیگی اور پھر حق، سچ اور جھوٹ، فریب کا ٹکراؤ ہو کر رہے گا۔ دنیائے عالم کی تاریخ اس حقیقت کی چغلی کھاتی ہے: ظلم آخر ظلم ہے بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے، اتنی سادہ بات حکمران سمجھنے سے قاصر ہیں۔ گو مذاکرات مذاکرات کا کھیل شروع ہے لیکن خانہ دماغ میں اس بات کو ملحوظ خاطر رکھنا ہوگا کہ تاحال عدالت عظمیٰ 14 مئی کو انتخابات کے فیصلے پر قائم ہے۔ ہمارا المیہ ہے کہ طاقت کے بل پر ہر محکمے اور ادارے کو تباہ و برباد کر ڈالا جبکہ عدلیہ کے تقدس کے در پے ہیں، بلاشبہ عدلیہ سے منسوب نظریہ ضرورت کی تاریخ جسٹس منیر سے 2007 کی ڈوگر کورٹس تک گاہے بگاہے سامنے آتی رہی مگر ایسی ڈھٹائی کہ عدالت عظمیٰ حکومت وقت کی آئین سے روگردانی پر اس کے تمام تر حربوں کے باوجود اپنے فرائض منصبی ادا کرنے شروع کرے تو پارلیمنٹ کے ذریعے حکومت محاذ آرائی پر تل جائے۔ کیا کسی جمہوریت میں ایسی نظیر ملتی ہے؟ جس کا عملی مظاہرہ مادر وطن کی 13 جماعتوں نے کیا ہے؟ اب کس منہ سے عدالت کے اسی بینچ کے روبرو مذاکرات کا جھانسہ لے کر پہنچے؟ قرائن بتاتے ہیں: 27 اپریل تک مذاکرات کے عمل کے تناظر میں کسی قسم کی کوئی مخلصانہ پیش رفت نہ ہوگی اور نہ ہی مذاکرات کے ذریعے انتخابات کی کسی متفقہ تاریخ کا تعین کرنے میں تمام فریق سیاسی جماعتیں اپنا مثالی کردار ادا کرسکیں گی۔ یہ کوئی راکٹ سائنس نہیں! ن لیگ کے سربراہ نواز شریف مذاکرات کے حامی نہیں، وجہ: پنجاب میں شکست کا خوف، ن لیگ اپنی سیاست کا پاور کیمپ جس صوبے کو کم و بیش تین عشروں تک ٹھراتی رہے، وہ بری طرح اکھڑ چکا۔ نواز شریف کو صاف نظر آتا ہے کہ شکست و ریخت پنجاب میں ان کا مقدر ہے، 70 فیصد والی ن لیگ پنجاب میں 30 سے 35 فیصد کے درمیان کھڑی ہے، پی ٹی آئی کی مقبولیت اب اسی صوبے میں 70 سے 75 فیصد کی بلندیوں کو چھو رہی ہے، حیرت بہرحال اس امر پر ہے، وہ شخص جو تین مرتبہ وطن عزیز کا وزیراعظم رہ چکا اور چوتھی مرتبہ بننے کا متمنی ہے، وہ اتنا تنگ نظر کیوں؟ کیا اپوزیشن آئندہ حکومت نہیں ہوتی؟ بہرکیف جے یو آئی ف کے سربراہ فضل الرحمان بھی خوب غصے سے نیلے پیلے ہو رہے ہیں، معاملہ موصوف کا بھی زیادہ مختلف نہیں، 2013ء کے انتخابات سے صوبہ کے پی کے جسے وہ اپنی میراث جانتے ہیں، ان کے ہاتھوں میں نہیں آ پا رہا، سو مذاکرات سے ٹکا سا انکار کردیا، ایسے ایسے الزامات عائد کیے کہ حقائق نظریں پھیر گئے۔ کیسی منقطق ہے: پہلے بندوق سے ڈرایا جاتا تھا اور اب کی بار ہتھوڑے سے ڈرایا جارہا ہے۔ نشانے پر سیدھا عدلیہ کو رکھا گیا۔ شکوہ خاکم بدہن ہے: آپ نے کے پی کے کے عوام کیلئے کیا ہی کیا ہے؟ محض یہودی ایجنٹ کا نعرہ خدمت کے زمرے میں نہیں اتا، وہ دور گیا، وہ اندھی تقلید گئی، جس علی امین گنڈا پور کے بال کاٹے جانے پر قہقہ زن ہیں، انتخابات میں وہ علی امین گنڈا پور وہ کریگا کہ غصے سے لال پیلے ہونے کے متعدد جواز گڑھے جاسکیں گے، نواز شریف اور فضل الرحمان کے علاؤہ ن لیگ اور پیپلز پارٹی کے وہ حکومتی حلقے جو مذاکرات کی بین کی سروں پر اثبات میں سر ہلا رہے ہیں، ان کا مقصد فقط وقت گزارنا ہے، یقین نہ آئے تو مخترمہ مریم نواز کا خانہ خدا سے کیا گیا ٹویٹ ملاحظہ کرلیجیے، فرماتی ہیں: اس فتنے سے قطعی مذاکرات نہ ہونگے، درحقیقت شکست کا خوف انا کے پہاڑوں سے ٹکرا رہا ہے اور تکبر میں وہ سب کچھ مسلسل کیا جا رہا ہے، جس سے ملک و ملت کا نقصان ہوتا چلا جا رہا ہے اور ان تمام سیاسی جماعتوں کے مستقبل کے آگے سنگین نوعیت کے سوالات لگ چکے ہیں، عمران خان کی مقبولیت اور سیاست دونوں ان کی سمجھ سے کوسوں دور ہے، وہ ملک میں ان کی کرپشن، لوٹ مار اور دھونس دھاندلی کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے مستقبل کے خواب عوام کو دکھاتے ہیں، دنیا بھر کے ترقی یافتہ ممالک کے ترقی کے راز گنواتے ہیں، اسلام میں انسانیت، انصاف، فلاح اور ابن آدم کی خصوصیات کے ساتھ اللہ کی بادشاہت کا احساس اہل وطن کے دلوں میں ڈالتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ صرف اللہ رب ہے، خوف کے بت توڑ دو، جوابا یہ پی ڈی ایم میں شامل ن لیگ، پیپلز پارٹی، جے یو آئی اور دیگر عمران خان کو ہر حد تک تنقید کا نشانہ بناتے ہیں، موازنے میں عوام کی ترجیح عمران خان ہیں، ویسے بھی پی ڈی ایم پراجیکٹ نے ملک اور اس کے باسیوں کیساتھ جو ظلم ایک سال سے روا رکھا ہوا ہے، عوام بیزار آ چکے ہیں، انکی ہمت و صبر جواب دے چکی جبکہ پی ڈی ایم سرکار تاحال اس مفروضے پر تکیہ کیے بیٹھیہے: عمران خان سیاست سے جائے تو وہ حاکم وقت ہوں، عوام کے محبوب قائدین ہوں، یہ ممکن نہیں! اقتدار ان کا مقدر ہوسکتا ہے، عزت نہیں، سب بے نقاب ہوچکے اور خوب ہوچکے، عید الفطر کے بعد عمران خان کو نااہل کروانے کی کوشیش مزید تیز ہونے کی ذرائع خبریں دے رہے ہیں، عدالت عظمیٰ کو حتی الامکان وقت گزارنے کی جستجو میں چکما دینے میں مگن رہیں گے، اگر اسے طوالت نہ دے سکے تو عدالت عظمیٰ سے محاذ آرائی کو مزید ہوا دینگے یعنی مزید بے نقاب ہونگے، کیا یہ آخری معرکہ ہوگا؟ لگتا نہیں! ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں، ملت کی قوت کا البتہ امتحانضرور ہوگا، ذہین نشین رکھنا ہوگا: تھا جو مسلماں اللہ کا وہ سودائی تھا، آخری نہ سہی فیصلہ کن معرکہ کا وقت ضرور آن پہنچا ہے۔