سلطنت عثمانیہ کو جب شکست ہوئی تو فلسطین کا علاقہ برطانوی انتداب میں چلا گیا۔ یہ انتداب برطانیہ کا قبضہ نہیں تھا۔ انٹر نیشنل لاء کے مطابق یہ لیگ آف نیشنز کی ایک امانت تھی۔ ایسا نہیں تھا کہ فلسطین اب برطانیہ کا حصہ بن گیا ہے اور وہ جو چاہے یہاں کرتا پھرے۔ بلکہ قانونی پوزیشن یہ تھی کہ فلسطین فلسطینیوں کا ہے اور انہی کا رہے گا اور ایک مخصوص مدت کے بعد ان ہی کے حوالے کر دیا جائے گا۔ چنانچہ فلسطین کا نیا انتظام بین الاقوامی قانون کے مطابق محض ایک امانت تھی جو برطانیہ نے واپس فلسطینیوں کے حوالے کرنا تھی۔ یہ امانت کا بندوبست بھی بین الاقوامی قانون کے مطابق صرف اس لیے قائم کیا گیا تھا کہ سلطنت عثمانیہ کے اقتدار کے خاتمے کے بعد جو انتظامی خلاء ہے وہ بھر دیا جائے اور جب مقامی لوگ اس نظام کو خود سنبھالنے کے قابل ہو جائیں تو یہ ان کے حوالے کر دیا جائے۔ یہ وہی '' وائٹ مینز برڈن'' والی سوچ تھی کہ دنیا میں مہذب تو صرف سفید فام اقوام ہیں اور اب یہ ان کی ذمہ داری ہے کہ وہ باقی دنیا کو بھی تہذیب اور اقدار کے ساتھ رہنا سکھائیں۔ لیگ آف نیشنز کے چارٹر کے آرٹیکل 22 میں اس انتداب کی وضاحت کرتے ہوئے لکھا گیا کہ جو علاقے اب تک سلطنت عثمانیہ کے تحت تھے، اس انتداب کے تحت انہیں انتظامی مشاورت دی جائے گی یہاں تک کہ وہ اپنے قدموں پر کھڑے ہو جائیں اور اپنے معاملات خود سنبھال لیں۔ لیگ آف نیشنز کے چارٹر کے آرٹیکل 22 کے مطابق اس انتداب کا مقصد فلسطین کے علاقے کی ترقی اور عوام کی فلاح و بہبود تھا۔ چارٹر نے اسے sacred trust of civilization کا نام دیا۔ یعنی یہ کسی ایک ملک کا کسی دوسرے ملک پر قبضہ نہ تھا، بلکہ یہ لیگ آف نیشنز کے زیر انتظام ایک مقدس امانت تھی۔ فاتح کی حیثیت سے برطانیہ اب فلسطین کا مالک نہیں تھا، اس کے پاس لیگ آف نیشنز کی مقدس امانت تھی۔ ایسا کیوں تھا؟ یہ '' مہذب اقوام'' کا تہذیبی بیانیہ تھا۔ چنانچہ جہاں لیگ آف نیشنز کے چارٹر میں sacred trust of civilization کی بات ملتی ہے وہیں '' فادر آف انٹر نیشنل لاء '' اوپن ہائم کے مطابق انٹر نیشنل لاء کو '' مہذب '' ریاستوں کے روایتی ضابطوں کا نام دیا گیا ہے۔ یعنی یہ وہ بندوبست ہے جو ان کے مطابق مہذب اقوام کا بندو بست ہے اور اس بندوبست میں صرف ان ہی کو شامل کیا جائے گا جو ایک خاص حد تک مہذب ہو چکے ہوں گے۔ جو ریاستیں تہذیب کے ایک خاص درجے سے کم ہوں گی وہ ا س کا حصہ نہیں بن سکیں گی۔ اب یہ '' مہذب اقوام'' اپنی لیگ آف نیشنز کے چارٹر میں یہ طے کر رہی تھیں کہ ہم نے سلطنت عثمانیہ کو شکست دے کر کسی کے علاقے پر کوئی قبضہ نہیں کیا بلکہ ہم تو فلسطین کو ایک امانت کے طور پر سنبھال رہے ہیں اوریہ صرف اس وقت تک ہے جب تک فلسطین کے باشندے بھی اتنے '' مہذب'' نہیں ہو جاتے کہ وہ اپنے قدموں پر کھڑے ہو کر اپنے معاملات خود سنبھال سکیں۔ چنانچہ جس وقت یہ '' مہذب اقوام'' پر مشتمل لیگ آف نیشنز فلسطین کے لیے انتداب قائم کر رہی تھی اس وقت کوئی ایک مسلمان ملک بھی اس کا رکن نہیں تھا۔ یہ صرف اوپن ہائم کی '' مہذب '' ریاستوں کا بندوبست تھا۔ جس San Remo کانفرنس میں مہذب اقوام نے انتداب کا یہ فیصلہ وہاں بھی شرکاء میں کوئی مسلمان نہیں تھا۔ اکثریت سفید فام معززین کی تھی جن کی کمر '' واٹ مینز برڈن'' سے دہری ہو رہی تھی۔ جس وقت فلسطین میں یہ انتداب متعارف کرایا جا رہا تھا، فطری طور پر ہندوستان کے مسلمانوں میں اضطراب پیدا ہوا۔ اس پر برطانوی حکومت نے اعلان کیا کہ یہاں جو انتداب قائم کیا جا رہا ہے وہ ایک خاص مقصد کے لیے اور عارضی مدت کے لیے ہے۔ کیونکہ اگر وہاں قومیت کا اصول فورا نافذ کر دیا جائے وہاں سخت انتشار اور طوائف الملوکی پھیلے گی۔ ساتھ یہ وضاحت بھی کی گئی کہ اس قسم کا انتداب قائم کرنے سے اسلام اور مسلمانوں کو کوئی نقصان نہیں پہنچے گا، انتداب والے علاقوں میں مسلمانوں کے مفاد بالکل محفوظ رہیں گے۔ '' مہذب'' ریاستوں کی لیگ آف نیشنز کے اس ''مہذب'' بندوبست نے فلسطین کے ساتھ کیا سلوک کیا، یہ انتہائی اہم سوال ہے۔ یہ ہمیں بتاتا ہے کہ مغرب کی خوب صورت اصطلاحات اور ان کی عملی شکل کے بیچ کتنا خوف ناک تضاد پایا جاتا ہے۔ '' مہذب'' ریاستوں کی لیگ آف نیشنز کے اس ''مہذب'' بندوبست نے فلسطین کے ساتھ کیا سلوک کیا، یہ انتہائی اہم سوال ہے۔ یہ ہمیں بتاتا ہے کہ مغرب کی خوب صورت اصطلاحات اور ان کی عملی شکل کے بیچ کتنا خوف ناک تضاد پایا جاتا ہے۔ لیکن انتداب سے پہلے ایک اور کام ہو چکا تھا اور یہ اعلان بالفور تھا۔ یہ اعلامیہ برطانیہ کے سیکرٹری خارجہ لارڈ بالفور نے کابینہ کی جانب سے جاری کیا۔ اس اعلامیے میں کہا گیا: His Majesty's Government view with favour the establishment in Palestine of a national home for the Jewish people, and will use their best endeavors to facilitate the achievement of this object مہذب اقوام کا طرز عمل دیکھیے، ایک جانب لیگ آف نیشنز کا چارٹر فلسطین کے برطانوی انتداب کو sacred trust of civilization قرار دے رہا تھا اور دوسری جانب اس مقدس امانت میں خیانت کا یہ عالم تھا کہ برطانوی حکومت اس چارٹر سے چند سال پہلے ہی یہ طے کر چکی تھی کہ فلسطین میں یہودیوں کا national home قائم کرنا ہے اور اس مقصد کے حصول میں معاونت کے لیے بہترین کاوشیں بروئے کار لانی ہیں۔ اعلان بالفور میں چند چیزیں غور طلب ہیں۔ یہ national home کی اصطلاح استعمال کی گئی، سوال یہ ہے کہ اس کا مطلب کیا ہے؟ کیا انٹر نیشنل لاء میں national home نامی کسی تصور کو تسلیم کیا گیا ہے؟ view with favour کا کیا مطلب ہے؟ کیا یہ قرین انصاف تھا؟ کیا مقدس امانت اسی طرح نبھائی جاتی ہے؟ will use their best endeavors سے کیا مراد تھی؟ یہ ابہام کیوںرکھا گیا؟ بعض لوگ اسے ابہام قرار دیتے ہیں لیکن امریکی جیمز گیلون کا کہنا ہے کہ یہ الفاظ سوچ سمجھ کر استعمال کیے۔ چنانچہ جب کونسل آف دی لیگ آف نیشنز نے '' مینڈیٹ برائے فلسطین'' نام کی دستاویز جاری کی تو اس میں لیگ آف نیشنز کے چارٹر کے آرٹیکل 22 سے انحراف کرتے ہوئے برطانوی اعلان بالفور کو ترجیح دیتے ہوئے اس '' مقدس امانت'' میں خیانت کرتے ہوئے فلسطی کو یہودیوں کا national home بنانے کا فریضہ برطانیہ کو سونپ دیا اور یہ بات اس کی ذمہ داریوں میں شامل کر دی کہ وہ اس انتداب کے دوران یہ کام کر گزرے۔(جاری ہے)