اسرائیل اور غزہ کے مابین سات اکتوبر کو شروع ہونے والی جنگ کے آغاز سے اب تک تقریباً اٹھارہ ہزار فلسطینی مارے جاں بحق ہوچکے ہیں، جن میں زیادہ تر خواتین اور بچے شامل ہیں جبکہ نظرثانی شدہ اعداد وشمار کے مطابق اسرائیل میں سرکاری ہلاکتوں کی تعداد تقریباً 1147 ہے۔فلسطینی وزارت صحت کے مطابق "غزہ کی پٹی میں جانے کے لیے کوئی محفوظ جگہ نہیں ہے"۔ کیونکہ گزشتہ روز خان یونس میں اسرائیلی حملے میں 10 افراد جاں بحق ہوئے ہیں۔ ورلڈ فوڈ پروگرام (ڈبلیو ایف پی) کے ڈپٹی ڈائریکٹر کے مطابق اسرائیل کے بڑھتے ہوئے حملوں کی وجہ سے غزہ میں لوگوں کو بنیادی ضروریات کی فراہمی کی اس کے ادارے کی صلاحیت تباہی کے دہانے پر ہے کیونکہ "کافی خوراک نہیں ہے اور لوگ بھوکے مر رہے ہیں"۔ میڈیا کی اطلاعات کے مطابق غزہ کی پٹی میں ضروری خوراک کا صرف ایک حصہ پہنچ رہا ہے، ایندھن کی کمی ہے، اور کوئی بھی محفوظ نہیں ہے۔ دوسری جانب اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں جنگ بندی کا مطالبہ کرنے والی قرارداد کو جمعہ کے روز امریکہ کی جانب سے ویٹو کیا گیا، جس کے بعد اسرائیل نے غزہ پر اپنی وحشیانہ بمباری جاری رکھی ہے جس کے نتیجے میں انسانی جانوں خاص طور پر معصوم فلسطینیوں کا انتہائی نقصان ہو رہا ہے۔ جنگ کی شدت بڑھنے کے ساتھ ہی جنگ کو روکنے کے لیے سفارتی کوششوں میں بھی اضافہ دیکھنے میں آیا ہے، جس میں خاص طور پر اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوٹیرس کا گزشتہ بدھ کے روز ایک غیر معمولی اقدام کرتے ہوئے 15 رکنی سلامتی کونسل کو دو ماہ سے جاری جنگ کی وجہ سے پیش آنے والے عالمی خطرے سے باضابطہ طور پر خبردار کیا۔یہ بات قابل ذکر ہے کہ سلامتی کونسل میں یہ ووٹنگ اس وقت ہوئی جب سیکرٹری جنرل انتونیو گوٹیرس نے اقوام متحدہ کے چارٹر کے شاذ و نادر ہی استعمال ہونے والے آرٹیکل 99 کو کونسل کی توجہ دلانے کے لیے استعمال کیا تھا جس کے مطابق "کوئی بھی ایسا معاملہ جس سے ان کی رائے میں، بین الاقوامی امن اور سلامتی کو خطرہ لاحق ہو" سلامتی کونسل میں زیر بحث لایا جاسکتا ہے۔ اب تک جنگ کو روکنے کے لیے امریکہ کی طرف سے کی گئی سفارتی کوششوں پر نظر ڈالی جائے تو امریکہ کی کوششیں مخلصانہ جدوجہد کم اور دکھاوا زیادہ معلوم ہوتی ہیں۔ کیونکہ جنگ کے آغاز سے امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن کے مشرق وسطیٰ کے خطے کے دورے اسرائیل کی طرف سے فلسطینیوں پر ڈھائے جانے والے مظالم اور معصوم فلسطینیوں کا قتل عام نہیں روک سکے جبکہ اس کے برعکس اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں پیش پونے والی قراردادوں کو ویٹو کرنے میں پیش پیش رہا ہے۔ اس لیے امریکہ کو غزہ میں شہریوں کی تکالیف کو کم کرنے کے لیے اسرائیل کو انسانی ہمدردی کی بنیاد پر سیزفائر کرانے میں ناکام ہونے پر عالمی رہنماؤں کی تنقید کا بھی سامنا ہے جس کا امریکہ کی قیادت پر کوئی اثر نہیں ہورہا ہے۔ امریکہ اور اسرائیل جنگ بندی کی مخالفت کرتے ہیں کیونکہ ان کا خیال ہے کہ اس سے صرف حماس کو فائدہ ہوگا۔ جنگ بندی کی بجائے واشنگٹن شہریوں کے تحفظ کے لیے لڑائی میں وقفے کی حمایت کرتا ہے جس کے بدولت حماس کے ہاتھوں یرغمال بنائے گئے افراد کی رہائی اور غزہ کے لیے انسانی امداد کی فراہمی کی اجازت ملتی ہے۔ اسی طرح کا سات دن کا وقفہ – جس میں حماس نے کچھ یرغمالیوں کو رہا کیا اور غزہ کے لیے انسانی امداد میں اضافہ دیکھا – یکم دسمبر کو ختم ہوا۔ سلامتی کونسل کی کارروائی کے بجائے امریکہ اپنی سفارت کاری کی حمایت کرتا ہے تاکہ مزید اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی ممکن ہوسکے اور غزہ پر حملے میں شہریوں کی بہتر حفاظت کے لیے اسرائیل پر دباؤ ڈالا جاسکے۔ مشرق وسطیٰ میں امن کے قیام میں امریکہ کے کردار پر نظر ڈالی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ بائیڈن انتظامیہ بھی فلسطینیوں کو دبانے کے لیے امریکہ کی سابقہ حکومتوں کی طرح کھلے عام اسرائیل کی طرف جھکاؤ رکھتی ہے۔ امریکہ کے باہر یہ عمومی خیال پایا جاتا ہے کہ امریکی سیاسی پارٹیوں میں، ڈیموکریٹس جمہوری اقدار اور انسانی حقوق کے سخت حامی جبکہ نسل پرستی کے مخالف ہیں۔ تاہم، بائیڈن انتظامیہ نے غزہ کی پٹی پر اسرائیل کے حملے پر جس قسم کا ردعمل دیا ہے، اس سے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ بائیڈن انتظامیہ فلسطینیوں کے ساتھ غیر انسانی سلوک میں ٹرمپ انتظامیہ کو بھی پیچھے چھوڑ چکی ہے کیونکہ غزہ پر اسرائیل کی جارحیت کونہ صرف قبول کر لیا گیا ہے بلکہ اسرائیل کی نسل کش پالیسیوں کی حمایت کی گئی ہے اور فلسطینی شہریوں کے روزانہ قتل عام کو درست قرار دیا گیا ہے، جن میں زیادہ تر بچے اور خواتین ہیں حتیٰ کہ بائیڈن انتظامیہ اسرائیل کے جنگی جرائم کی پردہ پوشی کرتے ہوئے اسرائیلی مظالم کے بارے میں فلسطینیوں کے دعووں کو بھی چیلنج کرتی رہی ہے۔ اسرائیل فلسطین تنازعہ کے حوالے سے یہ حقیقت ہے کہ امریکہ کبھی بھی ایمانداری کے ساتھ فلسطینیوں کا حامی نہیں رہا اور نہ ہی کبھی امن کے قیام میں مخلص رہا ہے۔ 1948 میں تنازع کے آغاز سے لے کر 1993 میں ہونے والے اوسلو معاہدے، حتیٰ کہ حالیہ اسرائیلی جارحیت سمیت امریکہ نے ہمیشہ اسرائیل کی حمایت کی ہے۔ تاہم، یہ پہلی بار ہے کہ امریکی انتظامیہ نے اسرائیل کے نام نہاد "اپنے دفاع کے حق" کا دفاع کرتے ہوئے کھلے عام اسرائیل کی حمایت کی ہے۔ دوسری جانب ممکنہ صدارتی امیدواروں کے درمیان اپنی "اسرائیل نواز" اسناد ثابت کرنے کے لیے بھی مقابلہ ہے جس کا آسانی سے مشاہدہ کیا جاسکتا ہے جبکہ بائیڈن انتظامیہ سمیت امریکہ کی سیاسی قیادت غزہ میں اسرائیل کی جانب سے مسلسل بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزیوں پر آنکھیں بند کیے ہوئے ہے۔ جیسا کہ انھی کالموں میں پہلے کہہ چکا ہوں کہ ایک عالمی طاقت کے طور پر امریکہ کبھی بھی فلسطینیوں کے لیے مخلص نہیں رہا۔ موجودہ امریکی حکومت کا ردعمل اسرائیل نواز ہے اور وہ فلسطینیوں کے مصائب کو کم کرنے کے لیے کوئی اہم قدم فائدہ نہیں اٹھا رہی ہے۔ بلکہ اسرائیل کے مفادات کے تحفظ کے لیے حماس کا صفایا کرنے بالخصوص غزہ پر حماس کا کنٹرول ختم کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے حتیٰ کہ امریکہ نے عرب ممالک پر اسرائیل اور غزہ کے مابین جاری جنگ سے خود کو دور رکھنے کے لیے دباؤ ڈالا ہوا ہے جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ مشرق وسطیٰ میں پائیدار امن کے لیے دو ریاستی فارمولے کا خاکہ پیش کرنے والے اوسلو معاہدے پر عمل درآمد کے لیے امریکہ کتنا پرعزم ہے۔ میدان جنگ میں ہونے والی پیش رفت کے بارے میں میڈیا رپورٹس کے مطابق اسرائیلی فوج غزہ کی پٹی کو دو حصوں میں کاٹ دیا ہے تاکہ غزہ کی پٹی کے شمال میں حماس اور اس سے وابستہ تنظیموں کو الگ تھلگ کیا جاسکے۔ اس تناظر میں مقبوضہ علاقوں کے حالات دن بدن خراب ہوتے جا رہے ہیں جس کے تدارک کے لیے مسلم دنیا کو مل کر کوئی ٹھوس لائحہ عمل اپنانے کی ضرورت ہے کیونکہ عالمی سیاست کا مروجہ اصول اس مصرعہ سے بخوبی بیان کیا جاسکتا ہے۔ ہے جرمِ ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات