کونسل آف دی لیگ آف نیشنز کے '' مینڈیٹ برائے فلسطین'' کے ابتدائیے کے پیراگراف 2 میں لکھا گیا کہ یہ برطانیہ کی ذمہ داری ہے کہ 1917ء کے اعلامیے کے مطابق فلسطین کو یہودیوں کا national home بنائے۔ یہی نہیں بلکہ آگے چل کر یہ بھی بتا دیا گیا کہ اس مقصد کے حصول کے لیے برطانیہ کو کیا کچھ کرنا ہو گا، چنانچہ '' مینڈیٹ برائے فلسطین'' یعنی فلسطین کے انتداب (تولیت، نگرانی) کی اس دستاویز کا آرٹیکل 2 بہت اہم ہے۔ اس کے الفاظ غور طلب ہیں۔ لکھا ہے: The Mandatory shall be responsible for placing the country under such political, administrative and economic conditions as will secure the establishment of the Jewish national home. یعنی اس دستاویز کے مطابق برطانیہ کی ذمہ داری تھی کہ وہ فلسطین میں سیاسی، انتظامی اور معاشی طور پر ایسا بندوبست قائم کر کے رکھے اور ایسے حالات پیدا کر دے جن حالات میں فلسطین میں یہودیوں کے national home کا قیام یقینی بنایا جا سکے۔ ایک عذر یہ پیش کیا جاتا ہے کہ بالفور نے یہودیوں کی قومی ریاست کا لفظ استعمال نہیں کیا بلکہ national home کا لفظ استعمال کیا ہیا ور انہوں نے of Palestine کی بجائے in Palestine لکھا ہے یعنی وہ فلسطین کو ایک یہودی ریاست نہیں بنانا چاہتے تھے بلکہ وہ فلسطین کے اندر یہود کی محض آباد کاری کی بات کر رہے تھے۔ یہ بات بھی درست نہیں ہے۔ ریاست کی بجائے national home کی اصطلاح میں جہان معنی پوشیدہ ہے۔ صہیونیوں کی پہلی کانگریس میں صہیونی ریاست کے لیے State کی بجائے home کے الفاظ استعمال کیے گئے تھے۔ یہ کانگریس سوئٹزرلینڈ میں منعقد ہوئی تھی اور دلچسپ بات یہ ہے کہ اس میں صرف home کا لفظ ہی استعمال نہیں ہوا بلکہ of Palestine کی بجائے یہاں بھی in Palestine لکھا ہوا تھا۔ یعنی بالفور اعلامیہ میں بعینہ وہی اصطلاحات استعمال کی گئیں جو صہیونیوں کے ہاں زیر استعمال تھیں۔ یہ بات بھی اہم ہے کہ اعلان بالفور منظر عام پر کیسے آیا۔ یہ بالفور کا ایک خط تھا جو اس نے ایک صہیونی بنکار کو لکھا تھا اور اسے بتایا تھا کہ His Majesty's Government view with favour the establishment in Palestine of a national home for the Jewish people, and will use their best endeavors to facilitate the achievement of this object. اس خط ہی کو اعلان بالفور کی دستاویز تصور کیا جاتا ہے۔ برطانوی سیکرٹری خارجہ خط کے آخر میں لکھتا ہے کہ میں بہت مشکور ہوں گا اگر آپ صہیونی فیڈریشن کو اس اعلامیے کے متعلق آگاہ کر دیں۔ صہیونی فیڈریشن کو اطلاع دینے کے لیے جو خط اس اہتمام سے بھیجا گیا، کوئی تعجب کی بات نہیں کہ اس میں صہیونی اصطلاحات کو ہی استعمال کیا گیا۔ صہیونی تنظیم کے سیکرٹری جنرل Nahum Sokolov نے اپنی کتاب History of Zionism میں بھی فلسطین کو صیہونیوں کی ریاست کی بجائے ان کا national home قرار دیا جس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ national home سے صہیونیوں کی مراد ایک ریاست ہی تھی اور اعلان بالفور میں بھی صہیونیت کے اسی پروگرام کی توثیق کی گئی۔ فلسطین میں جب سلطنت عثمانیہ کو شکست ہوئی تو اس وقت یہان یہودیوں کی تعداد صرف 2 فیصد تھی۔ البتہ چند سال بعد دنیا بھر سے یہودیوں کو لا لا کر فلسطین میں آباد کرنے کے بعد برطانیہ نے 1922 میں جو اعدادو شمار جاری کیے ان کے مطابق یہاں مسلمانوں کی آبادی کا تناسب 78 فی صد تھا اور یہودی 11 فی صد تھے جب کہ عیسائیوں کی تعداد 10 فی صد تھی۔ یعنی ابتدائی چند سالوں میں ہی اتنی بڑی تعداد میں یہودی آباد کاری ہوئی کہ ان کا تناسب 2 فی صد سے بڑھ کر 11 فی صد ہو گیا۔ حیران کن بات یہ ہے کہ 1945 ء کے برطانوی اعدادو شمار کے مطابق یہودیوں کا تناسب بڑھ کر 31 فی صد ہو چکا تھا اور مسلمانون کا تناسب کم ہو کر 60 فیصد ہو چکا تھا۔ یعنی برطانیہ کو جو مینڈیٹ دیا گیا کہ اس نے سیاسی، معاشی اور انتظامی طور پر ایسے حالات پیدا کرنے ہیں کہ فلسطین میں یہودیوں کا national home بن سکے تو برطانیہ نے اس فریضے کو دل و جان سے نبھایا۔ اہم نکتہ یہ ہے کہ لیگ آف نیشنز نے جب یہاں انتداب متعارف کرایا تو جو یہودی یہاں صرف 2 فیصد تھے ان کی نمائندہ صہیونی تنظیم سے تو بار بار مذاکرات کیے اور ان کی مشاورت سے انتداب کی دستاویز تیار ہوئی لیکن فلسطینی مسلمانوں کو کسی بھی مرحلے پر مشاورت میں شامل نہیں کیا ۔ مینڈیٹ کی دستاویز کی تیاری میں لیگ آف نیشنز نے 6 مرتبہ مشاورت کی، ان کی تجاویز لیں، ان کی شکایات سنیں، اور ان کی روشنی مین دستاویز میں ترامیم کیں۔لیکن مسلمانوں سے کسی مرحلے پر کوئی رابطہ نہیں کیا گیا۔ ایک اسرائیلی مورخ نے لکھا کہ عربوں کو تو بالکل بھلا ہی دیا گیا۔ یہاں تک کہ لیگ آف نیشنز کے زیر انتظام اس برطانوی مینڈیٹ کے تحت جب فلسطین کی سرحدوں کا تعین کیا گیا تو اس میں بھی صہیونی قوتوں کے نمائندے شامل تھے، جن کی آبادی صرف 2 فیصد تھی، لیکن کوئی مسلمان شامل نہ تھا۔ اتحادیوں کی جاری کردہ انتداب کی دستاویز کے آرٹیکل 4 میں لکھا تھا کہ ایک '' جیوش ایجنسی '' قائم کی جائے گی۔ یعنی برطانیہ پر لازم ہو گا کہ وہ اسے قائم کروائے۔ یہی نہیں بلکہ اسی آرٹیکل میں لکھا گیا کہ اسی جیوش ایجنسی کو '' پبلک باڈی: یعنی عوامی نمائندہ سمجھا جائے گا اور یہی جیوش ایجنسی برطانیہ کی معاونت کرے گی کہ وہ سیاسی معاشی اور انتظامی حالات کیسے پیدا کیے جائیں جو فلسطین میں یہودیوں کا national home بنانے میں معاون ہو سکیں۔ ساتھ ہی اسی آرٹیکل میں یہ بھی طے کر دیا گیا کہ صیہونی تنظیم ہی کو یہودی ایجنسی تصور کیا جائے گا اور یہی فلسطین کی پبلک باڈی کے طور پر کام کرے گی۔ آرٹیکل 6 میں کہا گیا کہ فلسطین کی انتظامیہ اس بات کی پابند ہوگی کہ وہ صیہونی تنظیم کی مشاورت کے ساتھ کام کرتے ہوئے یہودیوں کی فلسطین میں آباد کاری کو یقینی بنائے، اس کی حوصلہ افزائی کرے اور اس عمل میں مکمل تعاون کرے اور یہودیوں کو سرکاری زمینوں پر آباد کرائے۔ آرٹیکل 7 میں کہا گیا کہ جو یہودی باہر سے آ کر فلسطین میں آباد ہوتے ہیں، برطانیہ ایسا قانون بنائے گا اور اسے نافذ کرے گا کہ ان یہودیوں کو فلسطین کی شہریت دی جائے۔ ''مہذب اقوام'' کے اس sacred trust of civilization کے تحت جاری ہونے والی اس دستاویز میں یہودیوں اور صہیونیوں کا تذکرہ تو بار بار ملتا ہے، ان کے مفادات کے تحفظ کی بات بھی ملتی ہے، ان کی ناجائز آبادکاری کے اصول بھی موجود ہیں، ان کو فلسطین کی شہریت دینے کا اصول بھی طے کیا گیا ہے، ان کے لیے فلسطین میں national home بنانے کی بات بھی موجود ہے۔ لیکن فلسطینیوں اور ان کے جائز مفادات کا اس اہتمام سے کہیں تذکرہ نہیں ملتا۔ ہو سکتا ہے '' مہذب'' اقوام کا خیال ہو کہ اوپن ہائم کے انٹر نیشنل لاء کے تصور کے مطابق فلسطینی ابھی اتنے '' مہذب'' نہیں کہ ان کے حقوق کے بارے میں سوچا جائے۔