صحافتی ذمہ داریاں ادا کرتے ہوئے، جب بھی کسی دوسرے شہر یا ملک میں پہلی بار جانا ہو، تو اس علاقہ کا پریس کلب ایک طرح سے پہلی منزل ہوتی ہے۔ خبر وہاں سے ملے یا نہ ملے، مگر رابطہ، رہبری یا کم از کم خبر نگاری کیلئے رسی کا سرا ہاتھ میں آ ہی جاتا ہے۔ اس جگہ کوئی نہ کوئی مقامی صحافی رضاکارانہ طور پر یا خدائی فوجدار کے روپ میں آپ کی مدد کیلئے یا مقامی ایشوز پر آپ کو بریف کرنے کیلئے تیار ہوجاتا ہے۔ باقی آپ کی اپنی ٹریننگ اور صوابدید پر منحصر ہوتا ہے کہ کس طرح اس خبر یا ایشو کا اعتبار خود ہی پرکھنا ہوتا ہے ۔ بھارت کے وسطی شہر بھوپال میں تو پریس کلب کے ساتھ باہر سے دورہ پر آئے صحافیوں کیلئے معقول اور سستی رہائش کا بھی انتظام ہے۔ بھارت کی انتہائی جنوبی صوبہ کیرالا میں تو ہر ضلع میں پریس کلب موجود ہے، کیونکہ تقریباً ہر بڑے اخبار کے یہاں ہرضلع میں ایڈیشن ہیں ، جن کی اشاعت لاکھوں میں ہے۔ ترکی کے کسی شہر میں پریس کلب تو نہیں ہے، مگر میڈیا یونین نے تقریباً ہر شہر میں صحافتی ذمہ داریاں نبھانے کیلئے دورہ پر آئے، جرنلسٹوں کے لئے میڈیا ہوسٹلز قائم کئے ہیں ،جہاں ہوٹلوں کی نسبت بورڈنگ و طعام کم قیمت پر دستیاب ہوتا ہے اور اسٹوری فائل کرنے کیلئے وائی فائی کا مفت انتظا م ہوتا ہے۔2018سے قبل جب کشمیر کے مرکزی شہر سرینگر میں پریس کلب موجود نہیں تھا، تو دورہ پرآئے صحافیوں کیلئے لالچوک سے متصل بی بی سی اور دی ٹیلیگراف جیسے معروف میڈیا اداروں سے وابستہ سینئر صحافی یوسف جمیل کا دفتر پہلا پڑائوہوتا تھا۔ 90ء کی دہائی میں چونکہ حالات مخدوش تھے، وہ اس دومنزلہ کوارٹر کی دوسری منزل میں خود بھی قیام پذیر تھے، جبکہ پہلی منزل میں انکا دفتر اور ڈرائنگ روم و کچن تھا۔ مغربی ممالک اور دہلی سے آئے صحافیوں کا ایک جم غفیر وہاں موجود ہوتا تھا۔ شہرت کی بلندیوں کو چھونے کے باوجود ، حلم، بردباری اور آداب میزبانی نبھانا جمیل صاحب کا ہی خاصہ تھا۔ ایک ہجوم کو چائے اور ناشتہ سروے کرتے ہوئے، ان کے ماتھے پر کبھی شکن تک نہیں آتی تھی۔ میں نے چونکہ صحافت کی ت تعلیم اور کیرئر دہلی سے شروع کیا، کبھی کبھار رپورٹنگ یا چھٹیاں منانے کیلئے سال میں ایک دو بار سرینگر وارد ہوکر جمیل صاحب کے کوارٹر میں آدھمکتا تھا۔ میرے جیسے نو آموز صحافی کے ساتھ بھی وہ خندہ پیشانی کے ساتھ پیش آتے تھے۔ کسی وقت تو اپنے ساتھ، یا کبھی فوٹو جرنلسٹ معراج الدین کے ساتھ مجھے گراونڈ رپورٹنگ کرنے کیلئے بھیج دیتے تھے۔ اسی طرح دوسرا ٹھکانہ جہاں باہر سے آئے صحافی دروازہ کھٹکٹھا تے تھے، وہ انگریزی روزنامہ کشمیر ٹائمز کا سرینگر کا بیورو ہوتا تھا۔ اس کا دفتر بھی اسی لین میں تھا، جہاں جمیل صاحب قیام پذیر ہوتے تھے۔ اخبار ان دنوں صرف جموں سے شائع ہوتا تھا، مگر سرینگر کا اسکا بیورو ظفر معراج کی سربراہی میں خبروں کی ایک مشین تھی۔ سوپور میں میرے کالج کے ایام میں دہلی سے شائع ہونے والا انڈین ایکسپریس اور جموں کے کشمیر ٹائمز کی دھوم تھی۔ ارون شوری کی ادارت میں انڈین ایکسپریس نے تفتیشی صحافت میں خاصا نام کمایا ہوا تھا اور آئے دن اس وقت کی کانگریسی حکومت اور وزیر اعظم راجیو گاندھی کے خلاف ان کے پاس کوئی نہ کوئی اسٹوری ہوتی تھی۔ ظفر معراج بھی ایک طرح سے جموں و کشمیر کے ارون شوری تھے۔ ان کی رگ تفتیش نے تو ڈاکٹر فاروق عبداللہ کی حکومت کی ناک میں دم کرکے رکھ دیا تھا۔ جب میرے ہم عصروںمسعود حسین اور مرحوم شجاعت بخاری نے بعد میں کشمیر ٹائمز جوائن کیا ،تو میرے سرینگر دورہ کے دوران اسکا دفتر ایک مستقل ٹھکانہ بن گیا تھا۔ مسعود ، ہم سے چند سال ہی سینئر تھے، مگر ان کا مشاہدہ، خبروں کی تہہ تک جانے کی لگن اور تفصیلات حاصل کرنا اور پھر ان کو دلچسپ پیرائے میں بیان کرنا ، ان ہی کا خاصا ہے۔ خبروں کی تصور سازی یا ایڈیشن میں تو ان کو کمال حاصل ہے۔ اس کی واضح مثال ان کی ادارات میں شائع ہونے والا ہفتہ وار کشمیر لائف ہے۔ مزاج میں گو کہ وہ جمیل صاحب کی ضد ہیں ، مگر اگر ادارتی ایڈیشن کے حوالے سے کسی اور ایسے ایڈیٹر کے ساتھ ان کا موازنہ کیا جائے، جن کے ساتھ میں نے کام کیا ہے، تو وہ آئوٹ لک میگزین کے آنجہانی ایڈیٹر ونود مہتہ یا ڈی این اے میں میرے ایک باس ناول نگار سی پی سریندرن ہی ہیں۔ کالج زمانہ میں جو افراد میرے جرنلز م میں آنے کا محرک بنے، وہ یوسف جمیل، ظفر معراج، ارون شوری اور مسعود حسین ہی ہیں۔ خیر بات ہو رہی تھی پریس کلب کی۔ کشمیر میں حالیہ واقعات اور اس سے قبل بھی یہ بات تو ثابت ہوگئی ہے کہ وہاں کام کرنے والے صحافیوں کو تلوار کی دھار پر چلنا پڑتا ہے۔ مگر 2018کے بعد کشمیر پریس کلب کی صورت میں خطے کے صحافیوں کو ایک آواز ملی تھی۔ یہ شاید واحد صدا تھی، جو صحافیوں کے زندہ ہونے کا ثبوت پیش کر رہی تھی۔ گو کہ پوری دنیا میں ہی اسوقت صحافت بحران کا شکار ہے، مگر کشمیر میں یہ کن حالا ت کا شکار ہے، اس کا ہلکا سا اندازہ سرینگر سے شائع ہونے والے مختلف اخباروں کے اداریوں اور ادارتی صفحات کو دیکھ کر لگایا جا سکتا ہے۔ ایک آزمودہ فارمولا جس میں پہلے اداروں کی شبیہ داغدار کی جاتی ہے اور پھر ان کو متنازعہ بنایا جاتا ہے، کا استعمال کرکے نہایت ہی بے دردی کے ساتھ پریس کلب کو دھوکہ اور فریب کے ذریعے بند کر ادیا گیا۔ یہ ادارہ نہ صرف صحافیوں کیلئے مرکزی حیثیت رکھتا تھا، بلکہ باہر سے دورہ پر آئے صحافیوں کیلئے بھی پہلا ٹھکانہ ہوتا تھا۔ فری لانس یا جو صحافی، جن کے ادراوں کے سرینگر میں دفاتر نہیں ہیں ، ان کیلئے کلب اور اس کے ذریعے پیش کی جانے والی سہولیات کسی نعمت سے کم نہیں تھیں۔ گو کہ بھارت کے تقریباً تمام بڑے شہروں میں پریس کلب موجود ہیں ، سرینگر میں اس کا قیام 2018 میں ایک طویل جدوجہد کے بعد عمل میں آیا تھا۔ حکومت نے پریس انکلیو اور لالچوک سے ذرا دوری پر ایک سرکاری ادارے کے ذریعے خالی کی ہوئی بلڈنگ میں پریس کلب بنانے کی آفر دی۔ جس کے بعد باضابط انتخابات کے بعد انتظامیہ تشکیل دی گئی، جو ایک عرصہ قبل اپنی ٹرم مکمل کر چکی تھی۔ مگر چونکہ 2019 میں خطے کے قوانین تبدیل کر دیے گئے، اسلئے کلب کو نئے قوانین کے تحت دوبارہ رجسٹریشن کرنے کیلئے کہا گیا۔ جولائی 2021کو کلب نے رجسٹریشن کی درخواست دی، اور چھ ماہ بعد دسمبر میں اس کی منظوری آگئی، جس کے بعد فروری میں نئی انتظامیہ کی تشکیل کیلئے انتخابات کی تاریخوں کا اعلان کیا گیا۔ اس کے فوراً بعد بتایا گیا کہ کلب کی انتظامیہ کے خلاف منفی اینٹلی جنس رپورٹوں کی وجہ سے رجسٹریشن منسوخ کی جارہی ہے۔ مگر صحافیوں کے ایک گروپ نے پولیس کی معیت میں ، جب کرونا وائرس کی وجہ سے پابندیاں نافذ تھیں ، بلڈنگ پر قبضہ کرکے ایک عبوری انتظامیہ کے قیام کا اعلان کردیا۔ چونکہ انتخابا ت کا پہلے ہی اعلان ہو چکا تھا، وہ ان میں شرکت کرکے انتظامیہ کی باگ ڈور قواعد و ضابطو ں کی پیروی کرکے بھی حاصل کرسکتے تھے۔ (جاری ہے)