2018 میں جب اس کلب کی انتظامیہ منتخب ہو رہی تھی، تو اس گروپ کے ایک ممبر نے دہلی میں پریس کلب آف انڈیا کے ذمہ داروں کو باور کرانے کی کوشش کی، کہ کشمیر کے پریس کلب کو انتخابات کے بغیر ہی تسلیم کرایا جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ انتخابات کی صورت میں ’’علیحدگی پسند گروپ‘‘ کلب پر قبضہ کرسکتا ہے۔ کشمیر میں تو ویسے صحافیوں کی کئی ت تنظیمیں ہیں ، مگر یہ واحد جگہ تھی، جو سبھی کی مشترکہ وراثت تھی اور سبھی اکھٹے بیٹھتے تھے۔ اس قضیہ کے اگلے ہی دن، جب پریس کلب آف انڈیا سے لیکر دیگر صحافتی انجمنوں نے انتخابات سے قبل اس طرح کے قبضہ پراعتراض کیا، تو حکومت نے کلب کو ہی تحلیل کرکے بلڈنگ کو اپنی تحویل میں لے لیا۔ بہانہ یہ تھا کہ جرنلسٹوں میں اختلاف رائے پیدا ہو گیا ہے اور اس سے قانون و نظم کو خطرہ لاحق ہو گیا ہے۔ کشمیر میں صحافیوں کیلئے راستہ کبھی آسان نہیں تھا۔ اس خطے میں 1990سے لیکر اب تک 19صحافی جانوں کا نذرانہ دے چکے ہیں۔ اس کی کڑی کے طور پر 2018 میں رائزنگ کشمیر گروپ کے چیف ایڈیٹر اور مقتدر صحافی شجاعت بخاری کو موت کی نیند سلایا دیاگیا۔ آصف سلطان تو 2018سے ہی جیل میں ہے۔ اب حال ہی نوجوان صحافی سجاد گل کو بھی پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت جیل بھیج دیا گیا ہے۔ اس سے قبل فوٹو جرنلسٹ کامران یوسف کو ایک بنام زمانہ قانون کے تحت گرفتار کرکے چھ ماہ تک دہلی کی تہاڑ جیل میں پابند سلاسل رکھا گیاتھا۔ کامران یوسف اب ضمانت پر باہر ہیں۔ پچھلے تین برسوں کے دوران میں کم از کم 12صحافیوں کو پولیس نے پوچھ تاچھ کیلئے طلب کیا ہے۔ جبراً لاپتہ کردیے جانے کا سب سے پہلا واقعہ جو1989ء میں پیش آیا وہ ایک صحافی کا ہی تھا۔ محمد صادق شولوری اردو کے پندرہ روزہ’’تکبیر‘‘ میں سینئر کاتب تھے۔ ایک دن وہ اپنے دفتر گئے اور پھرکبھی لوٹ کر گھر نہیںآئے۔ 1990 میں اس وقت کے جموں و کشمیر کے گورنر جگ موہن نے ایک نوجوان صحافی سریندر سنگھ اوبرائے کو گرفتارکرنے اور تین اخبارات بند کرنے کا حکم دیا تھا۔ ان کے پرنٹنگ پریس سیل کردیے گئے اور ان کے خلاف بدنام زمانہ ٹاڈا قانون کے تحت مقدمہ درج کیا گیا۔ 2010ء کے ایجی ٹیشن کے دوران بھارت کی وزارت داخلہ نے نوٹیفیکیشن جاری کرکے رائزنگ کشمیر اور دو دیگر کثیرالاشاعت روزناموں گریٹرکشمیر اورکشمیر ٹائمزکے سرکاری اشتہارات بند کرنے کا حکم صادرکیا۔ اگر دنیا میں کسی بھی جرنلز م کے طالب علم کو یہ اسٹڈی کرنی ہو کہ کس طرح اور کس حد تک اسٹیٹ کسی میڈیا ادارے کو ہراساں اور اسکی مالی حیثیت پر ضرب لگاسکتی ہے تو اسکو سمجھنے کے لئے اسے سری نگر اور جموں سے شائع ہونے والے انگریزی روزنامہ کشمیر ٹائمز کے کیس کو مطالعہ میں ضرور لانا چاہئے۔ کشمیر ٹائمز کے سلسلے میں تمام سرکاری اور پبلک سیکٹر اداروں کو بھی ایک سرکولرجاری کیا گیا کہ چونکہ اخبار ملک دشمن سرگرمیوں میں ملوث ہے، اس لئے اسے اشتہارات دینا بند کر دیا جائے۔ حتیٰ کہ پرائیوٹ سیکٹر اور کارباریوں کو بھی ہدایت دی گئی کہ وہ بھی کشمیر ٹائمز سے دور رہیں۔ سابق وزیر داخلہ اور کانگریسی رہنما پی چدمبرم ، جو آج کل اپنے کالموں کے ذریعے مودی حکومت کو آزادی اظہار پر قد غن لگانے پر خوب آڑے ہاتھوں لیتے ہیں ، نے اپنے دور اقتدار میں کشمیر میڈیا کو ہراسان کرنے میں کلیدی رول ادا کیا۔ کشمیر ٹائمز کے معاملے میں بھارتی اسٹیبلشمنٹ اس لئے بھی کچھ زیادہ بدکتی تھی کہ اس کے مالک جموں سے تعلق رکھنے والے ایک وسیع القلب ہندو وید بھسین تھے لہذاان کے بے باکانہ قلم کو ملک دشمنی ، بنیاد پرستی و انتہا پسندی کے خاطے میں ڈالنا ممکن نہیں تھا۔ کشمیر ٹائمز کی رپور ٹنگ اورایڈیٹوریل کسی بھی صورت میں نئی دہلی کے گلے میںنہیں اترتے تھے۔ حالت یہاں تک پہنچی کہ 2015 میںکشمیر ٹائمز کو سری نگر میں واقع اپنا انتہائی جدید پریس زمین سمیت فروخت کرنا پڑا اور سرکولیشن بھی خاصی کم کرنی پڑی‘۔ ایک اور کشمیری فوٹو جرنلسٹ محمد مقبول کھوکھر (جو مقبول ساحل کے نام سے مشہور تھے) ساڑھے تین سال تک مقدمہ چلائے بغیر جموں کی بدنام زمانہ کوٹ بلاول جیل میں قید رہے۔ کھوکھرکو 2004ء میں ان دنوں گرفتارکیا گیا جب جنوبی ایشیائی صحافیوں کی تنظیم سیفما کی قیادت میں پاکستانی صحافیوں کا وفد بھی ریاست کا دورہ کر رہا تھا۔ ہائیکورٹ نے حکومت سے دو مرتبہ کہا کہ کھوکھر کے خلاف الزامات واپس لے لئے جائیں ، لیکن اس کا کوئی اثر نہ ہوا۔ 1991ء میں الصفا کے ایڈیٹر محمد شعبان وکیل کے قتل کی طرح دوسرے صحافیوں کے قتل اور ان پر حملوں کے درجنوں واقعات پر اب تک دبیز پردے پڑے ہوئے ہیں۔ 1992ء میں ایک اخبار کے کاتب غلام محمد مہاجن کو پرانے سرینگر میں ان کی رہائشگاہ سے نکال کر ان کے چھوٹے بھائی کے ساتھ سر عام گولی مارکر ہلاک کردیا گیا۔ کشمیر میں صحافت پریس کلب کے بغیر 2018سے قبل بھی کام کرتی تھی۔ اس کے ہونے یا نہ ہونے سے شاید ہی کوئی فرق پڑے گا۔ مگر جس طرح اس کو نشانہ بنایا گیا، وہ دیگر جگہوں پر پریس پر قد غن لگانے کا ایک ماڈل ہو سکتا ہے۔ دہلی میں پریس کلب آف انڈیا کی طرح بھارت کے دیگر شہروں میں بھی کلبوں کی بلڈنگیں ، حکومت نے ہی عاریتاََ دی ہوئی ہیں۔ سرینگر کی طرح اب وہ کسی بھی وقت انکو واپس لیکر پریس کلب کے ادارہ کو ہمیشہ کیلئے دفن کرنے کا سامان مہیا کرا سکتی ہے۔ (ختم شد)