جس انسانی تاریخ کا آغاز ہی المیے سے ہوا ہو ، وہاں طرب و جشن کی امید رکھنا بھی فضول ہے۔ بعض لوگ آدمؑ کے زمین پر اترنے کو المیے سے تعبیر کرتے ہیں، حالانکہ وہ انسانیت کا پہلا اور سب سے بڑا اعزاز تھا۔ اسے تو خدا کا نائب بنا کے بھیجا جا رہا تھا، جس کی سہولت کاری کے لیے جمادات، نباتات، دریا، چرند، پرند کی صورت رُوئے زمین پر اتنا بڑامنظرنامہ اُگایا اور لگایا گیا تھا کہ انسانی سوچ جس کا تصور بھی نہیں کر سکتی، شاعرِ مشرق نے اپنی باکمال نظم ’’روحِ ارضی آدم کا استقبال کرتی ہے‘‘ میں اسی جانب اشارہ کیا تھا کہ: کھول آنکھ ، زمیں دیکھ ، فلک دیکھ ، فضا دیکھ مشرق سے اُبھرتے ہوئے سورج کو ذرا دیکھ حقیقت یہ ہے کہ انسانی المیے کی اصل ابتدا تو ہابیل، قابیل کی کشاکش سے ہوتی ہے جہاں مفادات کا ٹکراؤ ہوتا ہے، چھینا جھپٹی کی رسم چلتی ہے۔ خباثت اور حراست، شرافت و امانت کا راستہ روکتی ہے۔ شور، خاموشی کا بازو مروڑتا ہے۔ یہیں سے فارم سینتالیس، پینتالیس پہ غالب آنا شروع ہو جاتا ہے۔ معروف مزاح گو شاعر انور مسعود نے ایک زمانے میں یو این او میں بڑی طاقتوں کے کشمیر، فلسطین جیسے مسائل کو پاؤں تلے روندنے پر کہا تھا:تمھارے ووٹ کیا ہوتے ہیں؟ جب ویٹو ہمارا ہے ہابیل بے چارہ تو اپنی حق گوئی و فلسفۂ عدم تشدد کی بنا پر مارا گیا، موجودہ انسانی نسل اور تاریخ نے تو قابیل سے پھلنا پھولنا شروع کیا۔ وہ قابیل، جس کا پہلا استاد بھی ایک کوا ہے۔ پھر مزید المیہ ملاحظہ ہو کہ انسانی تہذیب و تدریس کا آغاز بھی شرافت کی قبر کھودنے سے ہو رہا ہے۔ اس کے بعد تو انسانی تاریخ قابیلوں کی ’قابیلیتوں‘ سے بھری پڑی ہے۔ حضرت نوحؑ ساڑھے نو سو سال ان قابیل سرشتوں سے سر کھپاتے رہے، حضرت لوطؑ اپنے زمانے کے قابیلوں کو فرشتوں کی بے حرمتی سے باز نہ رکھ سکے۔ حضرت شعیب ؑکی قوم ہزار سمجھانے پر بھی ناپ تول کی ’قابیلیت‘ سے باز نہ آئی، صالح بدمست قابیلوں سے ایک اونٹنی نہ بچا سکے۔ کنعان میں طاقت ورں کا یہی بھیڑیا خُو طبقہ پیغمبر کے چاند صفت بیٹے کو کنویں میں پھینک کر اور بھیڑ کا خون بہا کے بھیڑیے کو بدنام کرتا رہا۔ معجزات پہ معجزات لانے والا کلیم اللہ ؑ نظروں سے اوجھل ہوا تو انھی خوگرِ پیکرِ محسوس قابیلوں نے بچھڑے کو پوجنا شروع کر دیا۔ اندھی، بہری طاقتوں نے کتنی ہی برگزیدہ ہستیوں کو جنگوں اور ہجرتوں پر مجبور کیا۔ عبداللہ بن اُبئی تو سرداری کی دل میں چھپی حسرت ہی پر راندۂ درگاہ ہو گیا۔ یہاں توفرعون، نمرود، ہامان، شداد کی مثالیں دینے کی بھی ضرورت نہیں۔ بیسویں صدی کے آغاز میں اُردو ادب میں برپا ہونے والی رومانوی تحریک کے قابلِ قدر نمایندے سجاد انصاری نے اپنی کتاب ’محشرِ خیال‘ میں اس حضرتِ انسان کی بابت کیا ظالم فقرہ لکھا بلکہ کسا تھا کہ: ’’فرشتے اور شیطان کے درمیان منافقانہ سمجھوتے کا نام انسان ہے۔‘‘اور غالب جیسے نفسیات بیں نے تو ’سَو ہَتھ رَسّا، سِرے تے گنڈھ‘ کے مصداق یہ کہہ کے بات ہی ختم کر دی تھی کہ: ہر کام کا آساں ہونا‘آدمی کو بھی میسر نہیں انساں ہونا موجودہ دور میں بھی یقیناً کوئی مقتدر مزاج ہی ہوگا، جس نیمخصوص اغراض کی خاطر بات بات پہ ٹر ٹر ٹَیں ٹَیں کرتے میڈیائی قابیل کو برائلر مرغی بنا کے رکھ دیا کہ کم بخت! کھاؤ، پیو، چُگو جتنا مرضی لیکن خبردار! جو سمجھائے، رٹائے گئے سبق کے علاوہ کہیں کُڑ کُڑ یا کٹاک کٹاک کرنے کی کوشش کی۔ لالہ بسمل نے ان کی یہی بے چون و چرانی اور جانب دارانہ خبریں، رپوٹیں، تبصرے دیکھ کے کہا تھا: ہر اِک عام کو خاص نہ کر‘ فیل شدوں کو پاس نہ کر ملک کی ابتر حالت پر‘ نادم ہو ، بکواس نہ کر مرزا مُفتہ کہتے ہیں کہ اب تو ملک کا سب سے بڑا میرٹ بناتے ہوئے صرف ایک بات کا خیال رکھا جاتا ہے کہ کون سی پُتلیاں ہیں جو کم سے کم دھاگا ہلانے سے زیادہ سے زیادہ ناچ دکھا سکیں اور آنگن کے ٹیڑھا ہونے کی شکایت بھی لب پر نہ لائیں۔ ہم نے کہیں پڑھا تھا کہ اگر پاک اقدار کو پلید مقاصد کے لیے استعمال کیا جائے تو بد قسمتی بغیر دستک دیے گھر میں داخل ہو جاتی ہے۔ آج سب دیکھ رہے ہیں کہ اسلام اور جمہوریت کے نام پہ بنا ہمارا یہ بدقسمت ملک 76 سال سے ایسی ہی منافقانہ مفاد پرستیوں کی سزا بھگت رہا ہے، جس کے کسی ایک بھی شعبے میں نہ اسلام نافذ ہے، نہ جمہوریت کی روح دکھائی دیتی ہے بلکہ ہر محکمے، شعبے، ادارے میںایک سے ایک بڑھ کے قابیل براجمان ہے۔ تازہ ترین ستم ظریفی ملاحظہ ہو کہ چوالیس سال بعد ہمیں یاد آیا کہ بھٹو کو چونکہ فیئر ٹرائل کا موقع نہیں دیا گیا تھا، اِس لیے اُس کو دی جانے والی سزا غلط تھی۔ پتہ نہیں اب سقوطِ ڈھاکا، لیاقت علی خاں کے قتل، جنرل ضیا کے طیارے، بے نظیر سے برتی جانے والی سفاکی اور لمحۂ موجود میں دندناتی ناانصافی، دھاندلی، دھکا شاہی پر کسی کی آنکھیں کب کھلیں گی؟ موجودہ دور کے قومی درد رکھنے والوں کو فیئر ٹرائل کب میسر آئے گا؟ لوگ حیران ہیں کہ اگر ان کے پاس اتنا ہی وافر وقت تھا تو یہ گڑے مردے اکھاڑنے کی بجائے سال ہا سال سے التوا در التوا کا شکار فیصلوں ہی پہ کچھ تأمل کر لیتے۔ حکیم جی نے تو یہ انوکھا فیصلہ سنتے ہی ارشاد کیا کہ انھیں اتنا بھی نہیں پتا کہ جو چپیڑ لڑائی کے بعد یاد آئے، وہ اپنے منھ پہ مار لینی چاہیے۔ ایسی بوالعجبی پر تو خالد علیم جیسا شریف النفس شاعر بھی کہہ اُٹھا کہ: میرے خدا! یہ میری دعا ہے قبول کر ان غاصبوں پہ قہرِ خدا کا نزول کر عالمی منظرنامے پہ نظر کریں توایک طرف بھارتی قابیل مقامی مسلمانوں اور کشمیری جوانوں کی زندگی اجیرن بنائے ہوئے ہے… دوسری جانب اسرائیلی قابیل نے ایک مدت سے غزہ کا مزہ خراب کر رکھا تھا، اب تو وہ باقاعدہ ان کی نسل کُشی پہ اُتر آیا ہے اور پورا عالمِ اسلام منھ میں گھنگنیاں ڈالے بیٹھا ہے، جو تاریخ میں اسی ابلیس ہی کی تابع داری شمار ہوگی۔ پھر دو سال سے یوکرین میں بھی قابیلائی طرز کی بدمعاشی جاری ہے۔ وطنِ عزیز میں اب رمضان کا مہینا ہے اور آپ دیکھ رہے ہوں گے کہ تاجر طبقے کے کئی مقامی قابیل ہوس کی زبانیںدراز کیے اپنی جیبیں اور پیٹ بھرنے میں پوری لگن سے مگن ہیں کہ انھیں کسی دوسرے قبیلے کے سرخیل نے بتا رکھا ہے کہ محض ایک عمرہ کرنے سے آپ کے سارے پاپ بلکہ ان کے باپ بھی بھاپ بن کر اُڑ جائیں گے۔ کئی دہائیوں سے اس پاک سرزمین پرچند قابیل قابض ہیں جو صرف اس کی حرمت کو بے توقیر اور عوام کو حقیر سے حقیر کرنے کا ہنر جانتے ہیں، وسائل کے غلط استعمال میں وہ ماہر ہی نہیں فاخر بھی ہیں۔ ان کی ساری کارکردگی ڈرامے سے شروع ہو کے میلو ڈرامے ہی پہ ختم ہو جاتی ہے۔ اب انھیں صرف کامل فرماں برداری اور بغضِ حق کے میرٹ پر دوبارہ اس بدقسمت ملک پر مسلط کر دیا گیا ہے کہ جن کے بارے میں ملک کا بچہ بچہ بخوبی جانتا ہے کہ: یہی چراغ بجھیں گے تو روشنی ہوگی۔