پچھلے دِنوں سابق صدر پاکستان آصف زرداری نے ایک نجی ٹیلی ویثرن کو اِنٹر ویو دیتے ہوئے کہا کہ انہوں نے یہ سوچ کر کہ ملک میں آئندہ انصاف پر مبنی آزادانہ فیصلے ہوں، اِس غرض سے اْنہوں نے منصفین کی تنخواہوں میں اضافہ کیا اور مراعات بڑھائیں اور پنشن تنخواہ کے برابر کردی تاکہ کسی بھی حوالے سے ایک منصف کو اپنی معاشی زندگی میں پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑے اور وہ بے خوف انصاف کرسکیں۔۔ پاکستان میں ہر ادارہ دوسرے ادارے کا کام کرنا چاہتا ہے۔’بنیادی ِانسانی حقوق‘ کے بوجھ تلے دبے سبھی آئینی اداروں نے اپنی ذاتی، خاندانی، رشتہ داروں سمیت احباب تک کی زندگیوں کو خوشحال بنانے کی قسم اْٹھا رکھی ہے۔ لاکھوں روپے تنخواہ سمیت سینکڑوں لٹر پیٹرول مفت، بجلی مفت، گیس مفت، گھر کی مرمت مفت، پلاٹ مفت، الغرض ہر وہ چیز ایک ایسے انسان کو مفت فراہم کی جاتی ہے جسے وہ خریدنے کی پوری سکت رکھتا ہے۔ دوسری جانب وہ عام پاکستانی جس کے ووٹ سے حکمرانوں کی حاکمیت، عدلیہ کی عدالت، پولیس کی پولیس گیری، محافظ کی بیرکس اور دیگر اداروں کی شان و شوکت قائم و دائم ہے، اْس غریب کے پاس خودکشی کرنے کے پیسے میسر نہیں۔ عید الفطر کے ’تحفے‘ کے طور پر ڈار نے پیٹرول میں دس روپے فی لٹر اضافہ کردیا گیا۔ اس کی تقاریر سنیں تو لمحہ بھر کے لئے یہ یقین نہیں ہوتا کہ موصوف چھ ماہ میں معیشت ٹھیک کرنے کا کہہ کر حکومت میں آئے مگر معیشت ٹھیک ہورہی ہے نہ غریب اور عام پاکستانی کی حالت سدھر رہی ہے۔ دس سال حکومت تو پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ نواز نے کی تھی۔جبکہ اِس سے قبل بھی یہی جماعتیں حکومت کرتی آرہی ہیں۔ اْس تناظر میں دیکھا جائے تو جس قدر حکومت کا تجربہ اِن دونوں جماعتوں کو ہے اْس حساب سے معیشت کو ٹھیک ہونے میں چھ ماہ کا عرصہ بھی زیادہ تھا۔ خیر! یہ سبھی جماعتیں اور ادارے وطن ِ عزیز میں ’جمہوریت‘ نامی درندہ نما نظام کو بقائے دوام بخشنا چاہ رہے ہیں جس کے ثمرات صرف اور صرف اِنہی اداروں اور اِن کے جانشین ِ کرام کو میسر ہیں۔ ’ہم پاکستان کو بچائیں گے، ’ہم نے پاکستان کو بچایا تھا‘،’ہم نے جمہوریت کے لئے قربانیاں دی ہیں‘، ’جمہوریت بہترین انتقام ہے‘، ’ہم ملک و طاقتور بنائیں گے‘ وغیرہ جیسے نعرے سن سن کر مفلوک الحال عوام کے کان پک چکے ہیں۔ اِس ساری تگ و دو میں کسی حکمران کا بیٹا آج تک بھوک سے نہیں مرا، مرا ہے تو صرف عام پاکستانی مرا ہے۔صرف پیٹرول کی قیمتوں میں ہوش ربا اضافے سے جنم لینے والی مہنگائی کا حساب لگائیں تو غریب کا چولہا بجھتا ہوااور کمر ٹوٹتی دکھائی دیتی ہے۔ یہ وہی متحدہ حکومت ہے جو حزب ِ اختلاف میں رہ کر ایک سو پچاس روپے فی لٹر پیٹرول پہ دھمال ڈالا کرتی تھی کہ سابقہ وزیراعظم نااہل، عوام دشمن ہے۔ اب پیٹرول 282روپے فی لٹر ہوچکا ہے اور شاید جلد تین سو روپے کا ہندسہ عبور کرتا دکھائی دیتا ہے۔ دوسری جانب ایک اسسٹنٹ کمشنر سے لے کر وفاقی وزیر تک کی تنخواہوں اور مراعات کا حساب لگایا جائے تو رونا آتا ہے۔ بے شرم نظام کی ڈھٹائی دیکھئے کہ اِن سب مراعات و سہولیات کے باوجود ملک میں سڑکوں کا برا حال ہے۔ بازاروں میں ساہوکاروں نے اشیاء کی من مرضی کی قیمتیں مقرر کرکھی ہیں۔ شہروں اور دیہاتوں میں اشیائے خوردو نوش سمیت پیٹرول کا نرخ مختلف ہے۔ سرکاری سکول ویران پڑے ہیں۔ سرکاری ہسپتالوں کا کوئی پرسانِ حال نہیں۔ کئی طرح کے تعلیمی نظاموں میں حکومتی سرپرستی میں چلنے والا نظام سب سے کمزور اور غریب کے مستقبل کا سب سے بڑا دشمن ہے۔ سرکاری اداروں میں بیٹھے بڑے بڑے سرکاری افسران پیشہ ورانہ کارکردگی دکھانے اور بڑھانے کی بجائے اپنے دوستوں اور رشتے داروں کے ساتھ تصاویر اور سیلفیاں کھچوانے تک محدود ہوچکے ہیں۔ ساہیوال، خانیوال، ملتان، وہاڑی، بہاولنگر، بہاولپور، رحیم یارخان، مظفر گڑھ، لیہ، ڈی جی خان اور جھنگ اضلاع کے شہر کی سڑکوں کی حالت ِ زار دیکھی جائے تو سابق آمر ریٹائرڈ جنرل مشرف کے دورِ حکومت کا بلدیاتی نظام یاد آتا ہے کہ اْس آمر نے ملک میں ایسا بلدیاتی نظام شروع کیا تھا جس کی بدولت شہروں میں پکی سڑکیں اور دیہاتوں میں سولنگ کا جال بچھ گیا تھا۔ عام شہری کی انصاف تک رسائی آسان تھی۔ تھانہ کچہری کا نظام ضلع ناظم کے ماتحت کیا گیا تھا جس کی بدولت ضلعی پولیس افسر اور ضلعی کوارڈی نیشن آفیسر کی اے سی آر ضلع ناظم لکھا کرتاتھا۔ دوسرے لفظوں میں ضلعی حکومت انتہائی فعال ہوچکی تھی اور جس کے ثمرات براہِ راست عوام کو میسر تھے۔ مگر آج ملک کے خود ساختہ عوامی نمائندے بلدیاتی نظام اِس لئے بحال نہیں کرنا چاہتے کیونکہ اِنہیں ایک طرف اپنے اختیارات کی کمی کا خدشہ ہے اور دوسری جانب اْنہیں سرکاری فنڈز کی براہِ راست عوام کے دروازے تک منتقلی سے خوف آتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مشرف کے دورِ حکومت کے بعد جمہوریت کے ثمرات صرف حکمرانوں، اْن کے رشتے داروں، نمک خواروں، وفاداروں اور چاپلوس افراد تک پہنچ رہے ہیں۔ یہ شتر ِ بے مہار حکمران ملک ِ پاکستان کو قارون کا خزانہ سمجھ کر لوٹ رہے ہیں۔ اختیارات و مراعات و سہولیات کے نشے کی لت میں مبتلا حکمرانان ِ پاکستان کو شاید محسوس اور خبر تک نہیں ہورہی کہ ایک خونی انقلاب اِن کے دروازوں پہ دستک دے رہا ہے۔ وہی خونی انقلاب جس کے متعلق موجودہ وزیراعظم پاکستان نے (تیسری بار)بطور وزیراعلیٰ پنجاب دوران ِ تقریر انکشاف کیا تھاکہ وہ عوام کی آنکھوں میں خون دیکھ رہے ہیں۔ یہ وہ انقلاب ہے جسے خود حکمران دعوت دے رہے ہیں۔ یہ انقلاب کسی باہرکے ملک کی معاونت کی مرہون ِ منت نہیں ہوگا بلکہ یہ انقلاب عوام کی آنکھوں میں اْس اْبلتے لاوے کے گارے سے اْٹھایا جائے گا جس کی حدت لعل خان کی تقریروں میں محسوس کی جاسکتی ہے۔ شاید عوام اِس قدر باشعور ہوچکی ہے کہ وہ اپنے ساتھ ہونے والے مظالم کاحساب حکمرانوں اور دیگر ذمہ داران سے اِسی دنیا میں لے گی اور روزِ قیامت اللہ تعالیٰ ظالموں کی پکڑ کرے گا۔