کیا پاکستان سیکولر ملک ہے کیا قائد اعظم سیکولر تھے ۔پون صدی بعد یہ بحث کیا معنی رکھتی ہے ؟ہمارے بعض اینکرز جان بوجھ کر ایک حقیقت کوجان بوجھ کر متنازعہ بناتے ہیں ۔ اب پون صدی بعد ایک نئی بحث سننے کو مل رہی ہے کہ قائد اعظم ؒ ایک سیکولر انسان تھے ۔قائد اعظم کی ساری زندگی شفاف اور قابل رشک ہے ۔ ایسے فرد کی زندگی اور کردار پر تنقید تو وہی کر سکتا ہے جس کا اپنا کردار اور عمل اس نابغہ روز گار سے بہتر ہو۔ یہ لوگ ان آقائوں کی زبان بولتے ہیں جن کے ساتھ قائد ساری زندگی جنگ لڑتے رہے ۔ سوال یہ ہے کہ حصول پاکستان کی یہ جنگ اگر سیکولر معاشرے کی تعمیر کے لیے تھی تو سیکولر بھارت کیا براتھا؟ذرا ملاحظہ فرمائیے قائد اعظم کے وہ اقوال اور فرمودات جو عقل کے اندھوں کو نظر نہیں آتے۔ 21نومبر1945ء کو آپ نے فرنٹیئر مسلم لیگ کے کارکنان کے ایک جم غفیر سے خطاب کیا ۔ قائد کے خطاب سے قبل چند مقررین نے اسلام اور اسلامی نظام حیات کی برکات پر بات کی تو آپ نے اس کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا۔ ’’ ہم مسلمان ایک ایسے پاکستان کا مطالبہ کرتے ہیں جہاں وہ اپنے ضابطہ حیات ‘ اپنے تہذیبی ارتقاء اپنی روایات اور اسلامی قانون کے مطابق حکمرانی کر سکیں ۔ ہمارا دین ‘ ہماری تہذیب اور ہمارے اسلامی تصورات وہ اصل طاقت ہیں جو ہمیں آزادی حاصل کرنے کے لیے متحرک کرتے ہیں ۔‘‘ ستمبر1944ء میں آپ نے گاندھی کو ایک تاریخی خط لکھا ۔یہ خط کوئی خفیہ دستاویز نہیں تھی ۔ آج بھی ریکارڈ کا حصہ ہے ۔ اس خط میں آپ نے گاندھی کو مخاطب کرتے ہوئے لکھا۔ ’’ ہمارا دعویٰ ہے اور ہم اس کے قائل بھی ہیں کہ مسلمان اور ہندو دو بڑی قومیں ہیں جو قوم ہونے کے ہر معیار اور تعریف پر پورا اترتی ہیں ۔ مسلمان دس کروڑ کی ایک قوم ہیں جو ایک مخصوص اور ممتاز تہذیب و تمدن ‘ زبان و ادب ‘ آرٹ اور فن تعمیر احساس اقدار و تناسب قانونی احکامات و اخلاق ضوابط ‘ رسم و رواج ‘ کیلنڈر ‘تاریخ ‘ رحجانات و عزائم کی مالک ہے۔ مختصر یہ ہے کہ زندگی اور اس سے متعلق مسلمانوں کا ایک امتیازی زاویہ نگاہ ہے جس کی بنا پر بین الاقوامی قوانین کی ہر دفعہ کے لحاظ سے مسلمان الگ قوم ہیں۔‘‘ آپ نے 11اکتوبر1947ء کو کراچی میں مسلح افواج کے افسروں سے خطاب فرمایا۔ ’’ قیام پاکستان کے لیے ہم دس برسوں سے کوشاں تھے اﷲ کے فضل و کرم سے آج پاکستان ایک مسلمہ حقیقت ہے۔الگ مملکت کا حصول دراصل ایک مقصد کے حصول کا ذریعہ ہے ۔ یہ بذات خود کوئی مقصد نہیں ۔ہمارا تصور یہ تھا کہ مسلمانوں کی ایک الگ ملکیت ہونی چاہیے جس میں ہم آزاد فرد کی حیثیت سے سانس لے سکیں جس میں اپنی صوابدید کے مطابق ترقی کر سکیں اور اس میں اسلام کے معاشرتی انصاف کے اصولوں کو جاری کر سکیں ۔‘‘ پاکستان کی جدوجہد مسلمانوں کے لیے تھی۔ یہ بات بھی قائداعظم نے اتنی تکرارکے ساتھ کہی کہ اس کا انکار تاریخ کاانکار ہے۔ اس کا مفہوم یہ ہے کہ مسلمان اگراپنے تہذیبی وجود کا اظہارکرنا چاہیں توکوئی دوسرا عقیدہ یا نظریہ ان کی اس خواہش کے راستے میں مزاحم نہ ہو؛ تاہم اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ کوئی دوسرا مذہبی یا تہذیبی گروہ مذہبی آزادی کے فطری حق کو استعمال کرنا چاہے تواس کو روک دیا جائے۔ اس سے البتہ یہ واضح ہوتا ہے کہ ریاست کا غالب رنگ اسلامی ہوگا۔ قائداعظم اگر سیکولراور لادین ذہن کے مالک تھے تو علامہ اقبالؒ جیسے دردِ دل رکھنے والے مسلمان کی نظرِ انتخاب اُن پر کیوں پڑی؟ کیا علامہ محمد اقبالؒ جیسا راسخ العقیدہ مسلمان کہ جس کا ہاتھ تاریخ کی نبض پر تھا، وہ مسلمانوں کی قیادت کے لیے ایک سیکولرکا انتخاب کرتا؟ ہرگز نہیں! تحریکِ پاکستان کے دوران قائداعظم کی تقاریر جہاں پاکستان کو نظریاتی اَساس فراہم کرتی ہیں، وہاں ان کے ذہن تک رسائی کا بھی ایک وقیع ذریعہ ہیں۔یہی وجہ ہے کہ قیام پاکستان کے فوری بعد قائد اعظم ؒ کی حکم پرسیدابوالاعلیٰؒنے ایک حقیقی اسلامی ریاست کے خد وخال واضح کرنے کے لیے تقاریر کا ایک سلسلہ شروع کرایا گیا۔ قائداعظمؒ اگر سیکولراور لادین خیالات کے مالک ہوتے توعلامہ شبیر احمد عثمانی رحمۃ اللہ علیہ جیسے جید عالم دین ان کی نمازجنازہ کیوں پڑھاتے؟ یہ سچ ہے کہ وہ جبہ ودستارجیسے مذہبی انسان نہیںتھے جس کا تصور ہمارے ہاں پایا جاتا ہے، لیکن بہرحال وہ ایک راسخ العقیدہ اور پکے مسلمان تھے۔ جن دانشوروں اور مولویوں نے نے ایڑی چوٹی کا زور لگا کر انہیں سیکولر ثابت کرنے کی کوشش کی ہے، اس سے بھی قائداعظمؒ کے پختہ ایمان کی تصدیق ہوتی ہے کہ اگر کسی زمانے میں ان پر سیکولر خیالات کا سایہ رہا بھی ہے تو وہ اسلام اور قرآن کے مطالعے کے بعد ان فرسودہ خیالات سے دستکش ہوکر شعوری طور پر اسلامی تعلیمات پر عمل پیرا رہے اور ایک سچے مسلمان اور امت کے ایک فردکی حیثیت سے اپنے رب کے حضور پیش ہوئے۔اب سوال یہ ہے کہ اس ساری کہانی کے پیچھے کون ہے؟وہی طبقہ جو جن کے لیے پاکستان ایک ڈرائونی جگہ ہے جہاں انہیں کثیر مسلم آبادی میں کھل کھیلنے کا موقع نہیں ملتا اور وہ قائد اعظم ؒ کوایک سیکولر انسان ثابت کر کے پوری ریاست کے نظام کو سیکولرازم بنانا چاہتے ہیں۔پون صدی گزر گئی ان کی خواہش پوری نہیں ہوئی لیکن یہاں سوال تو یہ ہے کہ بھارت ایک سیکولر ملک ہے ،کیا اس کے قائدین ہندوازم سے باہر ہیں کیا؟اور اگر واقعی بھارت سیکولر ہے تو پھر پاکستان کیوں بنایا گیا تھا؟ پون صدی کا طویل سفر کرنے کے بعد احمقوں کا یہ ٹولہ بائیس کروڑ لوگوں کو بتا رہا ہے کہ جس راستے پر وہ چل کر یہاں پہنچے ہیں وہ راستہ قطعاً غلط تھا،یعنی اب واپس پلٹیں اور دوبارہ سفر کا آغاز کریں ۔ا ن کو پوچھنے والا کوئی نہیں جو آج تک قائد کے بغض میں جناح کیپ پہننا گناہ خیال کرتے ہیں ۔کیا پدی کیا پدی کا شوربہ …!