لی ایچ ہیملٹن نے کہا تھا امداد وہاں کام کر سکتی ہے جہاں گڈ گورننس ہو، جہاں حکومتوں کی اپنے لوگوں کی زندگیوں کو بہتر بنانے میں دلچسپی ہی نہ ہو وہاں امداد کرپشن کے فروغ کا ذریعہ ہی بنتی ہے۔وزارت خزانہ نے اپنی تازہ ترین رپورٹ میں پاکستان کی معیشت کو درپیش 8 بڑے خطرات کی نشاندہی کی ہے،جس میں میکرو اکنامک عدم توازن،بڑھتے ہوئے قرضے،سرکاری اداروں کے خسارے، ماحولیاتی تنزلی،پبلک پرائیویٹ شراکت داری کو لاحق خطرات، صوبائی مالیاتی نظم وضبط اور گورننس کے مسائل شامل ہیں۔وزارت خزانہ کی جانب سے جاری کردہ رواں سال کے حوالے سے مالیاتی رسک کی رپورٹ میں کہاگیاہے کہ حالیہ برسوں کے دوران افراط ِزر میں اضافہ اور روپے کی قدر میں نمایاں کمی ہوئی ہے جبکہ مہنگائی میں اضافے کی بڑی وجہ توانائی کی قیمتوں میں اضافہ ہے۔قرضوں پر سود کی ادائیگی مالی خسارے میں کمی میں راہ کی سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ وزارت خزانہ کی اس رپورٹ سے ملک کو درپیش مالیاتی مشکلات کا اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔ جس نے قوم کی برداشت کا امتحان لیا ہے۔ آسمان کو چھوتی مہنگائی کے ساتھ، پاکستان کو درپیش معاشی مشکلات کثیر جہتی ہیں۔جس سے آبادی کی قوت خرید کم ہو رہی ہے اور گھریلو بجٹ دباؤ کا شکارہے۔ ملکی کرنسی کی قدر میں کمی سے معاشی تناؤ مزید بڑھ گیا ہے۔ آمدنی اور اخراجات کے درمیان یہ فرق ایک پیچیدہ چیلنج ہے۔ عالمی بینک نے بھی پاکستان میں مہنگائی کے حوالے سے اہم رپورٹ جاری ہے جس میںسوال اٹھایا ہے کہ دنیا بھر میں اجناس سستی اور پاکستان میں کیوں مہنگی ہیں۔ بینک نے یہ نکتہ بھی اْٹھایا ہے کہ ایسا کیوں ہوتا ہے کہ عالمی مارکیٹ میں اشیا سستی ہونے کا فائدہ صارفین کو نہیں پہنچایا جاتا جبکہ مہنگی ہونے پر فوراً صارفین پر بوجھ منتقل کردیا جاتا ہے۔ بینک کا خیال ہے کہ حکومت اگر قیمتوں میں کمی کا فائدہ صارفین کو منتقل کرانا چاہے بھی تب بھی مفاد پرست حلقے ایسا نہیں کرنے دیتے اور حکومت ایسے طبقے کے سامنے خود کو بے بس محسوس کرتی ہے ایسی حکومت پاکستانی عوام نے دیکھی نہیں جوانھیں حقیقی معنوں میں سہولتیں فراہم کرسکے۔ چنانچہ پاکستان میں پیٹرول مافیااور آٹا مافیا الگ الگ اور ایک دوسرے کے ساتھ اتحاد اور باہمی تعاون کے ساتھ کام کرتے ہیں۔مگر کسی ایک کے خلاف بھی کبھی کوئی موثر کارروائی نہیں ہوئی۔ نئی حکومت نے اقتدار کا مراحلہ مکمل کیا ہے۔ پاکستان کی 96 فیصد آبادی معیاری خوراک کے حصول کیاستعداد نہیںرکھتی۔ وزیراعظم میاں شہباز شریف کی حکومت اقتدار سنبھالنے کے بعدآئی ایم ایف سے چھ ارب ڈالر کے مزید پیکج کے لئے ہاتھ پیر مار رہی ہے ۔جبکہ ملک کے مجموعی قرضے اور واجبات بشمول داخلی اور بیرونی قرضوں کا مجموعی حجم 77.66کھرب روپے سے تجاوز کر چکا ہے۔پاکستان کا فی کس قرضہ سال دوہزار گیارہ میں 823 ڈالر فی کس سے بڑھ کر 2023 میں 1122ڈالر فی کس ہوا، جو بارہ سال میں مجموعی طور پر چھتیس فیصد اضافہ ہے، ملک کا قرض اس کی آمدنی کے مقابلے میں تیز رفتاری سے بڑھ رہا ہے۔ ان کثیر جہتی چیلنجوں کے پیش نظر، پاکستان ایک نازک موڑ پر کھڑا ہے، جس کا مقابلہ کرنے کے لیے معاشی استحکام کی بحالی، محصولات بڑھانے اور مضبوط مالیاتی پالیسیوں کے قیام کے لیے مشترکہ کوششوں کی ضرورت ہے۔ یہ اقدامات ملک کی اقتصادی بنیادوں کو مضبوط کرنے اور اس کے شہریوں کے لیے پائیدار ترقی اور خوشحالی کی راہیں متعین کرنے میں اہم ہیں۔ان پیچیدہ چیلنجوں کا مقابلہ ایک ایسی مضبوط اور مستحکم حکومت ہی کرسکتی ہے جسے عوام کیاور ہرطبقہ خیال کے لوگوں کی حمایت اور پشت پناہی حاصل ہو۔ منقسم اور متنازعہ مینڈیٹ کے ذریعے بننے والی مخلوط حکومت کوئی مضبوط اور قابل عمل معاشی اور اقتصادی پالیسی لانے میںکیونکرکامیاب نہیں ہو گی!۔سیاسی پنڈٹ اس کی بنیادی وجہ سیاسی انتشار بتاتے ہیں جس سے مختلف شعبوں میں عدم استحکام کی لہریں پیدا ہوتی ہیں۔ اس لئیملک میں سیاسی استحکام کے بغیر معاشی حالات ٹھیک نہیں ہو سکتے۔ اقتدار میں موجود جماعتوں پر بڑے پیمانے پر انتخابی نتائج میں دھاندلی کے الزامات میںمفاہمت کی کوشش کا کامیاب ہونا ناممکن لگتا ہے۔ سوال تو یہ بھی ہے کہ اس بگاڑ کو دور کرنے کے لئے حکومت سنجیدہ بھی ہے ؟ ۔ وزیراعظم نے تنخواہ نہ لینے کا فیصلہ کیا ہے جو اچھی بات ہے مگر کیا اس سے ملک کے مسائل حل ہو جائیں گے کیا وزیراعظم نہیں سمجھتے کہ ملک کو اس سے زیادہ کرنے کی ضرورت ہے؟۔ پاکستان کا مسئلہ قرض کا حصول ہے یا قرض سے نجات؟ وزیر اعظم قوم کو کب تک قرض کی مئے سے مست حال رکھ سکتے ہیں؟ اگر حکومت واقعی پاکستان اور پاکستانیوں کی بہتری چاہتی ہے تو کیا یہ ضروری نہیں کہ قرض کے حصول کی بجائے اپنے وسائل پر انحصار کیا جائے؟ صرف توانائی سیکٹر کا خسارہ پانچ ہزار ارب سے تجاوز کر چکا ہے۔ ریلوے، سٹیل ملز، پی آئی اے سمیت دوتہائی حکومت ادارے خسارے میں جا رہے ہیں جبکہ خسارے میں جانے والے اداروں کی افسر شاہی اربوں روپے کی مراعات لے رہی ہے۔ وفاقی حکومت آٹھ سو ارب پنشن دی رہی ہے جبکہ چاروں صوبوں کا یہ کلبل ایک ہزار ارب روپے سے بھی کم ہے ۔ حکومت اٹھارویں ترمیم میں صوبوں کو دیئے گئے محکموں کو ختم نہیں کر سکی اور قرض لئے کر افسر شاہی کی عیاشیاں برداشت کر رہی ہے اس صورت میں وزیراعظم کے نتخواہ نہ لینے کے فیصلے کو نمائشی نہ کہا جائے تو کیا کہا جائے۔ وزیراعظم اگرواقعی ملک کو بحرانوں سے نکالنا چاہتے ہیں تو کیا یہ ضروری نہیں کہ معیشت کو خون چوسنے والے اداروں اور افسر شاہی سے نجات دلائی جائے معاشی استحکام سیاسی استحکام سے مشروط ہے تو سیاسی جماعتوں کو نشان عبرت بنانے کے بجائے ان کے جائز خدشات دور کئے جائیں انتقام کی سیاست سے سیاسی استحکام آسکتا ہے نہ معاشی ۔کیونکہ بینجمن فرینکلن نے بہت پہلے کہہ دیا ہے کہ جو کچھ غصے سے شروع ہوتا ہے وہ شرمندگی پر ختم ہوتا ہے۔