کسی بھی ملک کو اپنے اوپر واجب الادا بیرونی قرضوں کو اصل زر کے ساتھ بمعہ سود واپس کرنا پڑتا ہے لہذا کوئی ملک قرضوں کے اصل زر اور سود کو کب اور کتنی مقدار میں واپس کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے قرضوں کی سروس کا مسئلہ کہلاتا ہے اندرونی قرضوں کی ادائیگی تو کوئی بھی حکومت بغیر گارنٹی نوٹ چھاپ کر پورا کر سکتی ہے جیسا کہ آج کل ہو رہا ہے مگر اس سے تیز رفتار افراط زر(Galloping Inflation) جنم لیتا ہے اور شدید مہنگائی سے لوگوںکی زندگیاں اجیرن ہو جاتیں ہیں۔ آج افراط زر کے حساس اشاریے SPI پر مہنگائی کی شرح 35 سے 40 فیصد پر پہنچ چکی ہے مہنگائی اور روپے کی بے قدری کی وجہ سے دو سالوں میں جہاں غربت کی شرح 41 فیصد پر جا پہنچی ہے اور تمام پاکستانیوں کی قوت خرید میں 50 فیصد سے زیادہ کمی ہو چکی ہے۔ غیر ملکی قرضوں کی ادائیگی سے قومی دولت میں کمی واقع ہوتی ہے کیونکہ قرضوں کی ادائیگی کرنے والے ممالک کے حقیقی وسائل قرضوں کی سروس کی مد میں غیر ممالک منتقل ہو جاتے ہیں تاہم اگر ان قرضہ جات کی رقومات ایسے ترقیاتی منصوبوں پر لگا ئی جائیں جہاں سے خالص وصولیوں کی شرح سود کی شرح سے بلند ہو تو ان وصولیوں سے حکومت کی آمدنی میں اضافہ ہوتا ہے اور برآمدات کی صورت میں زرمبادلہ بھی کمایا جا سکتا ہے مگر بدقسمتی سے ہم نے بیرونی قرضوں کی بڑی مقدار کو غیر ترقیاتی اخراجات پر خرچ کیا اور ان میں کرپشن اور کک بیکس حاصل کر کے اربوں روپے غیر ملکی کرنسی میں باہر منتقل کئے جس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ ہمارا ملک قرضوں کی سروس کا بوجھ اٹھانے سے مکمل طور پر پر مفلوج ہو چکا ہے ۔ وزیر خزانہ ڈاکٹر شمشاد اختر کا کہنا ہے کہ ملک پر واجب الادا قرضے اور انکی سروسز کے اخر اجازت غیر پائیدار سطح پر پہنچ گئے ہیں اور ان قرضوں پر محض سود کی ادائیگی 2.44 ارب ڈالر ز پر پہنچ گئی ہے اور اگر ہم ملکی قرضوں پر ڈیٹ سروسنگ کو بھی شامل کر لیں تو اس کا حجم 7302 ارب پر پہنچ گیا ہے جو ہمارے کل بجٹ آخراجات کا 50.5 فیصد ہے اور اس 30 جون 2024 تک اسکا حجم 8200 ارب روپے اور اگلے مالی سال تک9224 ارب روپے پر پہنچ جائے گا ملک پر واجب الادا قرضوں کی تاریخ کا جائزہ لیں تو پتہ چلتا ہے کہ 1947سے لے کر 2008 تک پاکستان پر مجموعی قرض محض 6127 ارب تھا اور آج بدقسمتی سے 6200 ہزار ارب پر جا پہنچا ہے اور اس میں غیر ملکی قرضے کا حجم 130 ارب ڈالرز ہے اور قرضوں کی سروس کی ادائیگی 2000 ارب کی تشویشناک سطح پر پہنچ چکی ہے عالمی بنک کے مطابق پاکستان ان دس ممالک میں شامل ہے جنہوں نے عالمی سطح پر سب سے زیادہ قرضہ لے رکھا ہے۔ ایشیائی ممالک میں آئی ایم ایف سے حاصل کردہ قرضوں کے لحاظ سے پاکستان پہلے نمبر پر ہے جبکہ جون 2006 میں پاکستان کا قابل ادائیگی غیر ملکی قرضہ 36 بلین تھا جن پر قرض کی سروس کا بوجھ محض 1666 ملین ڈالرز تھا یعنی پاکستان درمیانے درجے کا مقروض ملک تھا یعنی اس کا غیر ملکی قرضہ حاصل کرنے والے ترقی پذیر ممالک کے گروپ کے وسط میں نمبر آتا تھا مگر اس کے بعد عاقبت نا اندیش اور کرپٹ حکمرانوں کی سنگدلی اور نااہلی سے معاشی حالات قرضوں کے بوجھ کی وجہ سے اسقدر گھمبیر ہو چکے ہیں کہ ہم قرض تو دور کی بات اس پر سود ادا کر نے کے لئے بھی غیر ملکی قرضوں کے محتاج ہیں زرمبادلہ کے ذخائر سعودی عرب، چین اور گلف ممالک کے کے ڈپازٹس میں بار بار توسیع پر کھڑے ہیں جب تک افغان وار رہی پاکستان کو امریکہ اور اس کے اتحادیوں سے نرم شرائط پر قرضے اور امداد ملتی رہی بجائے ہم اس امداد کو ترقیاتی منصوبوں پر لگا کر ملک کو اقتصادی طور پر پر مضبوط بناتے مگر ہم اس فوجی اور اقتصادی امداد کو حلوائی کی دکان اور نانا جی کی فاتحہ سمجھ کر موج میلہ کرتے رہے۔ حکمرانوں اور ریاستی عہدیداروں نے بیرون ممالک اربوں ڈالرز کے اثاثے بنائے اور عام لوگ ملکی بنکوں سے قرض لے کر گاڑیاں اور گھر بنانے لگ گئے پوری سوسائٹی ہی consumer society بن کر آمدنی سے زائد خرچ کر نے لگ گئی اور سامان تعیش اور لائف سٹائل پر قرض لے کر خرچ کر نے کا چلن چل پڑا اور ابھی بھی شادی بیاؤں میں قائم ہے قرض کی پیتے تھے مئے اور سمجھتے تھے کہ ہاں رنگ لاوے گی ہماری فاقہ مستی ایک دن مگر آج ملک کے عوام اور بحیثیت ریاست پاکستان معاشی طور پر قابل عمل راستہ ہی نہیں پا رہا ہے کہ جس سے کوئی ایسی سمت کا تعین ہو جو اس ملک کی اشرافیہ کے استحصال سے عوام کو بجا لے اس ملک میں کالا دھن 3000 ارب سے زائد ہے اسکو ٹیکس نیٹ میں لانے کی بجائے ایف بی آر 15000 روپے بجلی کے بلوں والوں کو نوٹس دے رہا یعنی اگر ایک ان پڑھ غریب مزدور کو واپڈا والے 15 ہزار کا بل بھیج دیں گے یا ایک میٹر ایک شخص کے نام ہے اور گھر میں دو تین بھائیوں کا کنبہ آباد ہے اور وہ بل آپس میں شئر کرتے ہیں تو اسکا مطلب ہے کہ وہ اب ٹیکس نیٹ میں آنے کے لیے انکم ٹیکس وکیل کو فیس دے۔ فواد حسن فواد کا کہنا ہے کہ 86 فیصد ٹیکس ایف بی آر بغیر کسی کوشش کے وصول کر تا ہے محض 286 ارب اکٹھا کر نے کے لئے اتنا بڑا سفید ہاتھی پالا گیا ہے حالانکہ کہ زرعی آمدنی اور تاجروں کی رٹیل انکم پر ٹیکس لگا کر اور ادارے سے کرپشن ختم کر کے ایف بی آر پانچ ہزار ارب روپے ٹیکس اکٹھا کر سکتا ہے مگر کون ایسا کرے بقول اسحاق ڈار یہ ملک خدا کے آسرے پر چل رہا ہے چلتا رہے گا ہم یا تو قرض کے ہاتھوں ڈیفالٹ کر جائیں گے یا پھر کبھی چین، سعودی عرب او امارت ہم پر رحم کھا کر ہمارے قرضے معاف کر دیں تو شاید کچھ گزارا ہو جائے وگرنہ ہماری ریاستی اشرافیہ تو گدھوں کی طرح اس مردے کو نوچتی رہے گی اور تعفن شدہ لاش کو چھوڑ کر امریکہ لندن، دوبئی اور آسٹریلیا اور سپین کے ممالک میں اپنے اہل وعیال کے ساتھ راحت بھری زندگیاں گزار رہے ہیں اور گزارتے رہیں گے۔