ایک دو برس کی بات نہیں، ایسا مرض ہے جو وبا بنا، پھر بیمار ہوئے سب بیمار ہوگئے، اس خرابی بیسار کا کوئی حل تلاش کرنے کو تیار نہیں، جس نے جستجو کی ٹھانی باغی قرار دیدیا گیا اور آج اجتماعی حالت بد حال پر کوئی ترس کھانے والا نہیں، کسی ایک شعبہ کا نام بتا دیجیے جہاں قومی مریض موجود نہ ہوں؟ کسی ایک کا نام بتائیے جسکا مطمع نظر مسئلے کے سر اٹھانے سے پہلے اصلاح ہو، ہم زندہ درگوروں کو اتنا علم نہیں ہو پاتا کہ مسائل بحران میں تبدیل ہوچکے ہیں اور شومئی قسمت لنگوٹ کس کر بحران کی نفی کرنے پر تل جاتے ہیں، سچ پوچھیئے تو تمام روایت پسند سیاسی جماعتوں کے قول و فعل میں تضاد اور روزانہ نئے دعوؤں پر تالیوں کی گونج بازار سیاست سے بیزار کر چکی ہے لیکن کیا کریں، ہر معاملہ سیاست سے جڑا ہے، عوام کے ووٹ کی طاقت سے حکومتوں کے اتار چڑھاؤ کے علاوہ معاشرہ ترقی کرسکتا ہے نہ جمہوریت کا سبق پڑھنے سے کچھ حاصل ہونے والا ہے، کم از کم 76 برس کی کہانی اسی داستان غم پر محیط ہے، ہم نے معیشت، معاشرت، ثقافت، تہذیب و تمدن غرضیکہ سب کچھ ڈھا دیا ہے اور اب بھی سبق لکھنے میں صداقت کا عنصر شامل کرنے کو تیار نہیں، ان گنجلوں نے عام پاکستانی کی سوچ کو تباہ و برباد کر دیا ہے، قوم کو سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سے کبھی فیض یاب نہ ہونے دیا گیا ، جذبات سے لبریز لوگ جن کی گفتگو میں دلیل ڈھونڈے نہیں ملتی، یہی المیہ ہر لمحہ بحرانوں کو جنم دیتا ہے، آئی ایم ایف نے پاکستان میں پبلک انویسٹمنٹ سے متعلق ایک تازہ رپورٹ جاری کی ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ پاکستان موسمیاتی تبدیلیوں کے انتہائی رسک والے ممالک میں شامل ہے، سال 2022 کے سیلاب سے پاکستان میں 3کروڑ لوگ متاثر ہوئے جبکہ سال 2000 سے پاکستان میں ہر سال موسمیاتی تبدیلی 2 ارب ڈالر کا نقصان کررہی ہے، اس کے علاوہ ہر سال 500 افراد قدرتی آفات اور موسمیاتی تبدیلیوں سے ہلاک ہو رہے ہیں، پاکستان میں ہر سال 40 لاکھ افراد موسمیاتی تبدیلیوں سے متاثر ہورہے ہیں، پاکستان میں موسمیاتی تبدیلیاں زراعت اور انفرااسٹرکچر کو تباہ کررہی ہیں، سال2050 تک پاکستان کی معیشت قدرتی آفات سے 9 فیصد تک متاثر ہوسکتی ہے، رپورٹ میں تجویز کیا گیا ہے کہ پاکستان میں موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے بجٹ انتہائی ناکافی ہے، پاکستان ترقیاتی بجٹ میں موسمیاتی تبدیلیوں کے پروجیکٹس کو ترجیح دے، آئی ایم ایف کا کہنا ہے کہ پاکستان میں 10ہزار ارب سے زائد کے ترقیاتی منصوبے ہیں، پاکستان کے ترقیاتی منصوبے بجٹ سے 14 گنا زیادہ ہیں، سوال ہے کہ اس خوفناک صورتحال کے تریاق کیلئے ہم کچھ کر رہے ہیں؟ جواب ہے: نہیں! پھر سوال اٹھتا ہے: کیا پاکستان کو ترقی کرنے کا حق نہیں، کیا پاکستانی انسان نہیں، کیا ہم حالات 2050 تک حد سے زیادہ خطرناک ہونے کا انتظار کر رہے ہیں؟ اس بابت بہت کچھ لکھا اور کہا جاسکتا ہے مگر سیدھی بات ہے کہ کام کیا جائے، کتنی دیر ہم قومی مریض بنے رہیں گے؟ ہمارے اقدامات کا جائزہ لیجئے؛ گورنر اسٹیٹ بینک نے 5 سالہ اسٹریٹجک پلان ایس بی پی وژن 2028 جاری کردیا، جس کا مقصد مہنگائی اور دیگر مسائل پر قابو پانا ہے، گورنر اسٹیٹ بینک کے مطابق وڑن 2028 قیمتوں، مالی استحکام کے فروغ اور معاشی ترقی کے عزم کی عکاسی کرتا ہے، زیر نظر کالم سے متعلق اس پلان میں موسمیاتی تبدیلی، ڈیجیٹل جدت ،سائبر سیکورٹی خطرات کو پیش نظر رکھنے کا ذکر نشاندہی کا متقاضی ہے لیکن عام فہم نقط ہے؛ کس نے 2028 دیکھا ہے اور اس وژن پر عملداری کیلئے آنے جانے والی حکومتیں اور سول بیوروکریسی کس قدر توجہ دینے کیلئے رضا مند ہوگی؟ افسوس اسموگ چند سالوں سے گھمبیر ہوتے ہوتے ماحولیاتی آلودگی کی صورت میں جان لیوا ہوچکی ہے، اس پر بیانات داغنے اور عدالتی احکامات لینے کے سوا کچھ نہیں کیا گیا، اب نگران صوبائی وزیر ماحولیات پنجاب بلال افضل نے چینی قونصل جنرل زہو شائرن سے ملاقات کر کے اسموگ تدارک کیلئے چینی ماہرین کی خدمات سے استفادے حاصل کرنے کا تقاضا کیا ہے، دراصل ائیرکوالٹی انڈکس 400 کی خطرناک شرح پرجائے توشارٹ ٹرم حل مصنوعی بارش ہے، پانی سر سے گزر چکا ہے لہذا دیرینہ دوست سے مدد طلب کی ہے، چین کے ماہرین ماحولیات کے وفود جلد پنجاب کا دورہ کریں گے، چینی قونصل جنرل نے لاہور میں ایئر پیوریفکیشن ٹاور بنانے کی تجویز پیش کی اور کہا کہ ٹاور فضائی آلودگی کے خاتمے میں معاوں ثابت ہوگا، ہم قومی مریضوں کی قابل رحم حالت یہ ہے کہ ڈیفنس میں کم عمر ڈرائیور کے ہاتھوں 6 بیگناہ افراد زندگی کی بازی ہار گئے تو لاہور میں پولیس نے کم عمر ڈرائیوروں کے خلاف کارروائیاں شروع کردیں اور میڈیا کے روبرو دعویٰ کیا: کم عمر ڈرائیوروں کی گرفتاریوں سے تھانے بھر گئے ہیںکیا پنجاب کے دیگر شہروں اور ملک کے دیگر صوبوں میں کارروائی شروع کرنے کیلئے مزید کسی ڈیفنس جیسے حادثہ کا انتظار ہے؟ ہم قومی مریضوں کی تو یہ حالت ہے کہ لوگ بھوک سے مر رہے ہیں، مادر وطن میں ایک ہفتے کے دوران مہنگائی کی شرح میں 9.95 فیصد کا تاریخی اضافہ سامنے آچکا ہے، ادارہ شماریات کے جاری اعداد و شمار کے مطابق ہفتہ وار مہنگائی 40 فیصد سے تجاوز کر گئی، جس کے مطابق مہنگائی کی سطح 41.90 فیصد ریکارڈ کی گئی جبکہ ہماری سیاسی جماعتوں کے رہنما 76 برس بعد بھی ڈھکوسلے دے رہے ہیں کہ اقتدار میں آئے تو غربت، مہنگائی ختم کردینگے، ملکی زرمبادلہ ذخائر میں 11کروڑ 50 لاکھ ڈالر کی بڑی کمی ریکارڈ کی جا چکی ہے، اسٹیٹ بینک ا?ف پاکستان کی جانب سے جاری اعداد و شمار کے مطابق ذخائر میں کمی کے بعد ڈالر کے مجموعی ذخائر 12.53 ارب ڈالر رہ گئے، گزشتہ ہفتہ کے دوران ملکی زرمبادلہ کے ذخائر میں 115ملین ڈالر کی کمی ریکارڈکی گئی تھی اور اسٹیٹ بینک 2028 تک کے پروگرام کی رام کہانی سنا رہا ہے، سونے پر سہاگہ بلاول بھٹو زرداری کہتے ہیں: ایک بار پھر کسی کو مسلط کیا جاتا ہے یا سلیکشن ہوئی تو عوام نقصان اٹھائیں گے، ہم قومی مریض جائیں تو جائیں کہاں! توانائی کے شعبے کیلئے ایشیائی ترقیاتی بینک نے پاکستان کو 25 کروڑ ڈالر قرض دینے کا اعلان کیا ہے، خوشی منائیں یا ماتم کریں، دو عشروں بعد بھی توانائی بحران سے نہیں نکل سکے، ایک دو برس کی بات نہیں، ایسا مرض ہے جو وبا بنا، پھر بیمار ہوئے سب بیمار ہوگئے!!