آصف علی زرداری نے عندیہ دیا ہے کہ آئندہ الیکشن کے نتیجے میں قومی حکومت بنے گی مگر وہ ایسی قومی حکومت کا مجوزہ نقشہ پیش کر رہے ہیں جس میں مائنس عمران خان ہوگا مگر پی ٹی آئی کے منحرف دھڑے جہانگیر ترین اور پرویز خٹک کی قیادت میں حصہ بقدرِ جثہ حصہ پائیں گے اقتدار کی اس بندر بانٹ سے قائم ہونے والی حکومت کو ملک کا فہمیدہ طبقہ کیسے قومی حکومت تسلیم کر ے گا اسکا اندازہ بلاول بھٹو کو تو بخوبی ہو چکا ہے مگر شاید آصف زرداری، نواز شریف، شہباز شریف اور فضل الرحمن جیسے کو نہیں ہے کہ آج پاکستان کا نوجوان غلامانہ ذہنیت کا اسیر نہیں رہا ہے اگر اسے آپ الیکٹرانک میڈیا پر چئیرمین پی ٹی آئی کیجنسی تلذز کی کہانیاںکی سنائیں گے تو وہ گوگل پر سرچ کر کے غلام محمد سے لے کر یحییٰ خان، مشرف، بھٹو اور شریف خاندان کے مردوزن کے وہ وہ قصے کہانیاں سنا دے گا کہ نام نہاد شرفا کو منہ چھپانے کی جگہ نہیں ملے گی ۔ اگر آپ نے سیاست کے میدان میں مقابلہ کرنا ہے تو دوسرے کو لیول پلینگ فیلڈ دیں اور انتخابی میدان میں عوام کو فیصلہ کرنے دیں کیا کسی کو راسپوٹین ثابت کرنے سے ملک کو درپیش مسائل حل ہو جائیں گے۔ کون محب وطن اور سنجیدہ تعلیم یافتہ پاکستانی اس حقیقت کا ادراک نہیں رکھتا ہے کہ آج جو ملک کو جو سنگین مسائل درپیش ہیں ان کا مقابلہ کوئی ایک سیاسی جماعت یا گروہ یا ادارہ نہیں کر سکتا ہے اس کے لیے اندرونی، علاقائی، اور عالمی سطح پر مسائل کے حل کے لئے تمام سیاسی جماعتوں اور سلامتی کے تمام مراکز کے درمیان ایک وسیع البنیاد سوشل کنٹریکٹ پر اتفاق رائے قائم کر نا بے حد ضروری ہے جو میری ادنیٰ سوچ کے مطابق کچھ یوں ہے کہ اول،ہمارا سب سے سنگین مسئلہ معیشت کی دگرگوں صورتحال ہے ۔عالمی بنک کے گلوبل ڈائریکٹر فلپ لو پیز کلوا کے مطابق پاکستان غربت کی شرح 41 فیصد تک جا پہنچی ہے ۔معاشی ترقی اور تقسیم دولت کے میکانزم کو بہتر بنائے بغیر غربت اور معاشی، سماجی عدم مساوات میں کمی لانا ناممکن ہے اس کے لیے ضروری ہے کہ مالیاتی اور ادارہ جاتی حکومتی ڈھانچے میں تبدیلی لائی جائے۔ ہم عالمی مالیاتی اداروں کے 44 فیصد، جی ممالک کے 35 فیصداور کمرشل اداروں کے 14 فیصدمقروض ہیں ، ضروری ہے کہ پائیدار طویل المدتی ڈھانچہ جاتی اصلاحات کی جائیں، امرا زیادہ شرح سے ٹیکس دیں اور اگر متوسط طبقے کی آمدنی کم ہو رہی ہے تو ان پر کم شرح سے ٹیکس لگے، براہ راست ٹیکسوں کی شرح میں اضافہ ہونا چاہئے ہمارے ہاں دن بدن بالواسطہ ٹیکسوں میں اضافہ ہو رہا ہے جسکی وجہ سے عام آدمی کی معاشی مشکلات بڑھ جاتی ہیں اور امرا کو ریلیف ملتا ہے۔کیا 8 فروری کے بعد قائم ہونے والی حکومت امرا سے زیادہ ٹیکس لے کر غریبوں کی فلاح وبہہود پر خرچ کر ے گی، کیا وی آئی پی کلچر اور اشرافیہ کی تنخواہوں اور مراعات میں کوئی کمی لائے جائیگی۔ عدلیہ، انتظامیہ اور اسٹیبلشمنٹ کے اخراجات کم ہونگے ۔ اگر کوئی ایسا ایجنڈا ہے تو نواز شریف، زرداری فضل الرحمن اس پر بات کریں مگر وہ کیوں کر سرکار ی موج میلوں کو چھوڑیں گے۔ دوئم،کیا آنے والی نئی حکومت اپنے دور میں قانون کی حکمرانی قائم کر پائے گی لاپتہ افراد کا مسئلہ حل ہو جائے گا ،کیا سیاسی وابستگی کی بنا پر مقدمات قائم کرنے ختم ہو جائیں گے کیا سپریم کورٹ کے فیصلوں پر عمل درآمد ہو گا ۔اگر اس مقصد کے لیے قومی حکومت قائم ہوتی ہے کہ امیر اور غریب کے لیے انصاف کا پیمانہ ایک ہو گا ، لوٹوں اور کرپٹ افراد کو معاف نہیں کیا جا ئے تو دیکھتے ہیں کہ طے شدہ قومی حکومت اس چیلنج کو قبول کرتے ہوئے قانون اور آئین کی حکمرانی ممکن بناتی ہے یا نہیں، مگر پی ڈی ایم اور الیکشن کمیشن نے تو سپریم کورٹ کے الیکشن کے فیصلے کی پرواہ نہیں کی ،کسی کو توہین عدالت پر نوٹس نہیں ہوا تو کیسے کوئی مستقبل میں آئین اور قانون کی حکمرانی قائم کرے گا۔ سوم،بے لاگ، منصفانہ اور بے رحم احتساب جو ہمارے ملک کی بقا کے لیے ضروری ہے وہ قائم ہو گا یا نیب کو سیاسی انتقام کے لیے مہرہ بنائے رکھا جائے گا ،مگر ایسا وہی کر سکتا ہے جس کے اپنے ہاتھ صاف ہوں پاکستان میں قومی سطح پر کرپشن جرم رہا ہی نہیں ہے جب چاہیں آپ کو این آر او مل جائے اور جب چاہیں آپ کو صادق امین کا سرٹیفکیٹ مل جائے: جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے لہذا پاکستان کے ان مسائل سے نبرد آزما ہونے کے لیے اجتماعی بصیرت کو بروئے کار لانا بے حد ضروری ہے اور اگر قومی حکومت آصف علی زرداری کی خواہش پر بنا نی ہے تو زرداری صاحب اس کے لیے کچھ بنیادی شرائط بھی پیش کر دیتے کہ اول، سیاسی معاشی اور قومی سلامتی کو جن خطرات کا سامنا ہے اسکو تمام سیاسی فریقین اور اسٹیبلشمنٹ تسلیم کر ے اور ماضی کی غلطیوں کو فراموش کر کے اس کا واضح لائحہ عمل قوم کے سامنے رکھا جائے، ٹروتھ کمیشن قائم کیا جائے اور ٹیسٹ ٹیوب سیاسی جماعتوں کی نرسری بند کی جائے۔ دوم سیاسی جماعتوںکی کٹ ٹو سائزکی پالیسی ختم ہو ۔سوم ،تمام سیاسی اور طاقت ور کردار اپنے گروہی اور ذاتی مفادات کو بالاتر رکھنے ہوئے ملک اور عوام کے مفاد میں ملک کو درپیش مسائل سے چھٹکارا دلانے کا روڈ میپ واضح کریں ۔چہارم، تمام طرح کی سیاسی کنفیوڑن اور بے یقینی کو ختم کیا جائے اور تمام سٹیک ہولڈز الیکشن سے پہلے درپیش مسائل کے حل کے لیے مطلوبہ خطوط پر بنیادی اتفاق رائے قائم کریں۔ اگر مذکورہ شرائط کی تکمیل کے بغیر الیکشن ہوئے قومی حکومت کے نام پر پی ڈی ایم کی جھولی میں اقتدار ڈال دیا گیا تو اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا بلکہ شدید داخلی تضادات اور طاقتور شخصیات کے باہمی تصادم کی وجہ سے ملکی حالات الیکشن کے چند ماہ بعد ہی بگڑ جائیں گے اور عوام کے تعلیم یافتہ اور باشعور عوام کی مایوسی بڑھ جائے گی اور قومی اداروں کی محترم شخصیات کے خلاف خوامخواہ طوفان بدتمیزی سوشل میڈیا پر برپا رہے گا جو ملک و قوم کے لیے اچھا نہیں ہوگا۔