تحریک انصاف نے وزیراعظم کی دعوت پر آل پارٹیز کانفرنس میں شرکت پر غور شروع کردیا ہے۔ آل پارٹیز کانفرنس پشاور میں خودکش حملے کے بعد سکیورٹی کی صورت حال پر تمام جماعتوں کی مشاورت سے لائحہ عمل ترتیب دینے کے مقصد سے بلائی جا رہی ہے۔ حکومت نے پہلے 7 فروری کا دن مقرر کیا لیکن تحریک انصاف سے رابطوں اور پس پردہ مفاہمتیسر گرمیوں کے لیے مہلت کی غرض سے 9 فروری کو کانفرنس کے لیے موزوں سمجھا۔ حکومت آل پارٹیز کانفرنس کو پی ڈی ایم کا اجلاس بنانا چاہتی تھی جس میں مولانا پردھان ہوتے ، بلاول جمہوری دانشور کا کردار نبھاتے اور شہبا ز شریف سب کے متفقہ سرپر ست بن کر جلوہ افروز ہوتے۔جماعت اسلامی کو تھوڑی سی عزت دی جاتی لیکن خیال رکھا جاتا کہ اس کی کوئی تجویز تسلیم نہ ہو ۔ایم کیو ایم تو خیر اب کاٹھ کا گھوڑا ہے جو بڑا چھوٹا چاہے سواری کر لے لیکن اب صورت حال بدلتی نظر آتی ہے۔ ایک حکمت عملی کے تحت وفاقی و زرا ایسے بیانات جاری کر رہے ہیں کہ تحریک انصاف مشتعل ہو کر کانفرنس میں شرکت سے انکار کردے۔ یوں حکومت دنیا کو دکھا سکے گی کہ دیکھیں ہم نے خلوص دل سے قومی مفاد کی خاطر بلائی گئی کانفرنس میں مدعو کیا لیکن پی ٹی آئی نے انکار کر دیا۔ ممکن ہے عہد حاضر کے دانا اسے سیاست قرار دیں مجھے تو چھچھورے لوگوں کا طرز عمل لگتا ہے جو ہر جگہ دوسرے کو نیچا دکھانے کی فکر میں رہتے ہیں۔ مجھے ذاتی طورپر فواد چوہدری کی تجویز دلچسپ لگی۔ انہوں نے عمران خان سے کہا ہے کہ تحریک انصاف شیخ رشید اور اعظم سواتی کو اپنا نمائندہ بنا کر کانفرنس میں بھیج دے۔ ظاہر ہے یہ دونوں جب ان تمام لوگوں کے سامنے بیٹھیں گے جو ان پر مقدمات‘ ان کی گرفتاری اور بدبودار مہم کا حصہ رہے ہیں تو دونوں اپنے ہاتھ چُلو بنا کر ان کے سامنے رکھ دیں گے کہ اس میں ناک ڈبو دیں۔ صرف شرمسار نہیں۔ شیخ رشید اور اعظم سواتی اپنی اپنی جگہ ون مین آرمی بن چکے ہیں۔ ان کی موجودگی میں وزیراعظم اور ان کے رفقا پر دبائو رہے گا۔کوئی تعجب نہیں کہ کوئی معافی کا طلب گار ہو جائے۔لیکن سب سے قابل دید منظر یہ ہو سکتا ہے کہ خود عمران خان آل پارٹیز کانفرنس میں جا بیٹھیں ۔حکومت کو ڈر یہی ہے کہ عمران خود یا ان کے نمائندے کانفرنس میں شریک ہو کر کس طرح کا رد عمل دیتے ہیں۔ حکومت چاہتی ہے کہ تحریک انصاف اس کی ولادت کو جائز مان لے۔ تحریک انصاف اس پر تیار نہیں۔ عمران خان اب بھی شہبازشریف حکومت کو امپورٹڈ حکومت کہہ رہے ہیں۔ حکومت نے اب تک جبر و تشدد کے ذریعے مخالفین کا بازو مروڑنے کے سوا کوئی کام کیا ہے نہ اس کی قابلیت سامنے آ سکی ہے۔ پھر بھی حکومت چاہتی ہے تحریک انصاف اسے جائز ہونے کاسرٹیفکیٹ دے دے۔ پی ٹی آئی آل پارٹیز کانفرنس میں شریک نہ ہو تو اس کانفرنس کی افادیت باقی نہیں رہتی۔ تحریک انصاف کی یہی وہ سیاسی طاقت ہے جس نے پی ڈی ایم کا سر گھٹنوں میں کر رکھا ہے۔ اس سے قیاس کر لینا چاہیے کہ تحریک انصاف کو دھاندلی کے زیر غور منصوبے سے ہرایا گیا تو نظام جامد ہو جائے گا۔ کچھ ہوشیار لوگوں نے پی ٹی آئی سے رابطہ کر کے اسے کانفرنس میں شرکت کا کہا ہے۔ ظاہر ہے کہ پی ٹی آئی سے حکومت کے سوا اگر کسی دوست نے رابطہ کیا ہے تو تحریک انصاف نے بھی جواب میں کچھ فرمائش کی ہوگی۔ تحریک انصاف کے لیے یہ بہتر ہو گا کہ کانفرنس اور کانفرنس سے باہر بات کرنے کا لہجہ اور نکات الگ الگ رکھے۔ ان نکات کو ایک نکتہ اتصال کے ذریعے کسی مشترکہ مقصد سے جوڑا جا سکتا ہے۔ آل پارٹیز کانفرنس میں پی ٹی آئی کو ریاست اور پاکستان کے عوام کے مفادات و سلامتی کے تحفظ کے لیے ٹھوس نکات پیش کرنے چاہئیں۔ اس کی معروضات کی سنجیدگی میں یہ بات جھلکنی چاہیے کہ اگر اسے سکیورٹی‘ سیاسی عدم استحکام اور معیشت کی خرابی جیسے بحران حل کرنے کی ذمہ داری دی جائے تو وہ حکومت سے بہتر منصوبہ ترتیب دے سکتی ہے۔ کانفرنس سے باہر تحریک انصاف اپنے خلاف سیاسی انتقام‘ حکومت کی بری کارکردگی اور معاشی تباہی کا بیانیہ زور سے اٹھا سکتی ہے۔ آل پارٹیز کانفرنس کا انعقاد اس لحاظ سے مناسب ہے کہ ملک بیک وقت کئی نوع کے بحرانوں کا شکار ہو چکا ہے۔یہ صورت حال باعث تشویش سمجھی جا رہی ہے ‘ سیاسی قوتوں کے درمیان شدید مخالفت نے جمہوری مشاورت اور سیاسی روابط کا روائتی نظام برباد کر دیا ہے۔نظام کے سٹیک ہولڈروں کا تقسیم ہونا ریاست کی سلامتی کے لئے خطرات کا باعث بن رہا ہے۔آل پارٹیز کانفرنس کے ذریعے اگر مخالف سیاست دان ایک میز پر بیٹھ سکیں تو انہیں کسی مشترکہ حکمت عملی پر آمادہ کیا جا سکتا ہے تاہم ایک میز پر بٹھانے سے قبل ان جھگڑوں کو نمٹانا ضروری ہے جن کی وجہ سے قوم اور اس کے لیڈر باہم دست و گریباں ہیں۔ پاکستان کے مسائل خطرناک سطح پر آ پہنچے ہیں‘ ان مسائل کو حل کرنے کی ذمہ دار قوتیں اور شخصیات اپنا بنیادی فریضہ ادا کرنے کے بجائے ان امور میں الجھی ہوئی نظر آتی ہیں جو ان کی کارکردگی کو متاثر کر رہے ہیں۔ وزیر اعظم کی جانب سے وسیع تر مکالمے اور مشاورت کا عمل شروع ہونا قابل قدر ضرور ہے لیکن اس سے پہلے اپوزیشن تحریک انصاف کے خلاف پکڑ دھکڑ کا جاری سلسلہ ختم کرنا ہو گا۔ جنگ کا اصول ہے کہ بات چیت کا وقفہ لینے کے لئے عبوری طور پر سہی سیز فائر کرنا ہوتا ہے۔تحریک انصاف کو مختلف سروے ملک میں 52فیصد حمایت کا حامل قرار دے رہے ہیں۔گویا عوام کی اکثریت تحریک انصاف کی حمایت کر رہی ہے۔ایسی جماعت کو ریاستی امور سے لاتعلق کر کے آل پارٹیز کانفرنس تو کیا کوئی بھی مشاورتی و مفاہمتی عمل پروان نہیں چڑھایا جا سکتا۔