یوم اقبالؔ پر میں یہ کام لکھنا چاہتا تھا لیکن نہ لکھ سکا۔ کچھ چیزیں ہیں جو معمولات پر اثرانداز ہو رہی ہیں۔ خیر کہنا یہ تھا کہ یہ بھی عجیب وقت ہے کہ اقبالؔ کو پہلے گم کیا گیا اور پھر اسے تلاش کرنے والے اقبال شناس ڈھیروں ڈھیر پیدا ہوئے۔ہمارے بزرگ رفیع الدین ہاشمی کی تحقیق کے مطابق دنیا کی 41زبانوں میں ڈاکٹر علامہ محمد اقبال پر کام ہوا ہے۔ خود پاکستان میں ہزاروں کتابیں اقبالؔ کے تصورات‘ فلسفہ اور تفہیم کے موضوعات پر شائع ہو چکی ہیں۔ اقبالؔ شناسی ایسا منافع بخش کام ہے کہ اس کے لئے کئی ادارے کام کر رہے ہیں۔ ہر بڑی لائبریری میں بے شمار کتابیں ہیں۔ سال بھر تقریبات ہوتی رہتی ہیں لیکن پھر بھی گلہ یہی کہ لوگ اقبالؔ کو نہیں جان پائے۔ برادرم احمد اعجاز کی یوم اقبال پر ایک بہت خوبصورت تحقیقی تحریر بی بی سی اردو پر شائع ہوئی ہے۔ علامہ اقبال کے خادم علی بخش کی ذاتی زندگی کے بارے میں تفصیلات ہیں۔ اقبالؔ کا خاندان جہاں جہاں علی بخش اور اس کے خاندان سے ملتا ہے وہ لمحات اس تحریر میں قلمبند ہوئے ہیں۔اقبال کے کچھ نوادرات علی بخش کے پوتے کے خاندان کے پاس ابھی تک محفوظ ہیں۔ اقبال شناسی کا یہ پہلو بہت عوامی اور ہر دلعزیز ہے۔ لوگ اقبالؔ سے جڑی چیزوں‘ افراد اور معاملات کو جاننا چاہتے ہیں لیکن اقبالؔ پر قابض لوگ یہ رخ چھپا دیتے ہیں۔ کوشش کی جاتی ہے کہ اقبالؔ مولویوں کے خطبات‘ مقررین کی تقریروں اور سیاستدانوں کی منافقانہ گفتگو میں سے نکل کر عام آدمی تک نہ پہنچ پائے۔ گزشتہ دنوں کچھ کرم فرمائوں سے بات ہو رہی تھی۔ میں نے اقبالؔ کی روزمرہ زندگی‘لاہور میں گزارے وقت، ثقافتی دلچسپیوں اور گراس روٹ سیاسی رابطوں کی تفصیلات جمع کرنے کی خواہش ظاہر کی۔ میری نظر سے وہ تفصیل گزر چکی ہے کہ لاہور میں جاوید منزل والا سات کنال کا پلاٹ ایک ہندو نے خرید کر اقبال کو تحفہ دیا۔ اقبال اجین کے بادشاہ بھرتری ہری کے اشعار سے متاثر تھے۔ بھرتری ہری نے تخت و تاج اپنے بھائی بکرما جیت کے حوالے کر کے سنیاس لے لیا تھا۔اقبال رام چندر کے استاد وشوامتر ۔ رام چندر،کرشن، گوتم بدھ اور اپنے زمانے کے سوامی رام تیرتھ کی خوبیوں کے معترف تھے۔ان کی نظموں میں ان شخصیات کی فکر اور ہنر کے اشارے نظر آتے ہیں۔۔ اقبالؔ اگرچہ پنجابی میں شعر نہیں کہتے تھے لیکن انہوں نے گورو نانک کو خراج تحسین پیش کیا ہے۔ اقبال اتنے پنجابی تھے کہ گھر میں دھوتی اور بنیان پہننا سہولت سمجھتے ۔ وہ ایک عظیم اردو و فارسی شاعر ہونے کے باوجود فالودے کو پھلودہ کہتے اور اس پر فخر کرتے کہ یہ ان کی ماں بولی کا لفظ ہے۔اقبالؔ رائے بہادر میلہ رام اور ان کے فرزند رائے بہادر سرن داس کے ہاں ہونے والی محفلوں کا حصہ ہوتے۔ موسیقی کے دلدادہ تھے۔ اقبالؔ کی شخصیت کو ہمارے اقبال شناسوں نے کتر بیونت کر کے کچھ کا کچھ بنا دیا۔ اقبالؔ کو اتنا مسخ کیا گیا کہ پاکستان بننے کے 76برس بعد بھی ان کی شخصیت کے انسانی پہلو سامنے نہیں آتے۔ مختلف اخبارات ‘ جرائد اور کتابوں کی صورت میں اقبالؔ پر جو لکھا گیا میں نے اس کے چند نمونے گوگل کئے ہیں۔یہ کام آپ بھی کر سکتے ہیں‘ نتائج سامنے آتے ہی آپ میری بات کے قائل ہو جائیں گے۔ ’’کلام اقبالؔ میں تصور دانش نورانی اور دانش برہانی‘تحفظ بشراور علامہ اقبال۔ علامہ اقبال کی آفاقی فکر‘ کلام اقبالؔ اور قرآن ۔اقبالؔ بحیثیت شاعر اور فلسفی۔ علامہ اقبال کی نظم۔ اقبالؔ کا مرد مومن‘ علامہ اقبال کی شاعرانہ خصوصیات‘ اقبالؔ کی شاعرانہ عظمت‘‘ بس ایسے ہی مقالات کی کثرت ہے۔ ایک دو اچھے کام بھی ہوئے جیسا کہ اقبالؔ کا گھر کے لوگوں سے سلوک‘ اقبال کی بیگمات اور اولاد کے متعلق منیر سلیچ کی کتاب لیکن اس میں بھی اقبالؔ پورا دکھائی نہیں دیتے۔ ستم تو یہ کیا گیا کہ اقبال کے بچپن اور سکول کے متعلق معلومات چھپا کر بس وہ واقعہ بیان کر دیا گیا جب وہ سکول تاخیر سے پہنچے او استاد نے تاخیر کی وجہ پوچھی تو وہ بولے :اقبال ہمیشہ دیر سے ہی آتا ہے۔ اقبالؔ جیسا فطین بچہ کسی طور پر سزاوار نہیں کہ اس کے بچپن کے صرف ایک دو واقعات بیان کر دینا کافی سمجھا جائے۔ اقبال کی شخصیت اور فکر میں ارتقا کا مطالعہ اگر زندگی کے روز مرہ معاملات میں سے جھانکے تو اقبالؔ کی تفہیم کی روشنی بڑھ سکتی ہے۔یہ کیوں نہیں بتایا جاتا کہ اقبال کے بچپن کے دوستوں میں سید تقی اور خوشیا بھی تھے۔سید تقی آپ کے استاد سید میر حسن کے فرزند تھے۔ ان دونوں کی وجہ سے اقبالؔ کو کبوتر بازی اور شطرنج کا شوق ہوا۔ یہ کیوں نہیں بتایا جاتا کہ اقبالؔ لال دین پہلوان کے اکھاڑے میں کسرت کے لئے جایا کرتے۔ اقبالؔ سیالکوٹ جاتے تو لال دین پہلوان سے ضرور ملاقات کرتے۔ لاہور میں رہائش کی تو اکھاڑے میں جانے کی نوبت نہ آئی لیکن گھر پر مگدر گھماتے اور ڈنڈپیلتے۔ اردو کے شعری ناقدین ‘ ادبی مورخین اور اقبالؔ شناس اس جدوجہد میں رہے ہیں کہ ان کی ثقیل اور تصوراتی مباحث جیتے جاگتے‘ گوشت پوست کے اقبالؔ کو چھپا دیں۔ اقبال شناسی کی اس سے زیادہ توہین اور مضحکہ خیز حالت کیا ہو گی کہ آج یہ بات سبھی مانتے ہیں کہ اقبالؔ کے اشعار ظالم و مظلوم ہی نہیں مسلمان و کافر تک کے بیانئے کو درست ثابت کرنے کے لئے استعمال ہوتے ہیں۔ اقبالؔ شناسوں کی تشریح نے آج اقبالؔ کو ایسا مفکر بنا دیا ہے کہ جو کسی ایک فکر پر ٹک کر نہیں بیٹھا۔ اس اعتراض کا جواب یہ کہہ کر دیا جاتا ہے کہ اسے فکری تضاد کی بجائے فکری ارتقا سمجھا جائے۔ کیا اس کی بجائے اقبالؔ کے شارحین یہ مانیں گے کہ اقبالؔ ان لوگوں کا تختہ مشق بن کر رہ گیا ہے ورنہ تو بچوں کے لئے نظمیں لکھتا تھا ۔ بڑوں کے لئے غزلیں کہتا۔ اچھی موسیقی کا قدردان تھا‘قومی مسائل پر بات کرتا تھا، کوئی بت نہیں‘ فرشتہ نہیں‘ ایک انسان تھا جو ایک خوبصورت زندگی جیا،کروڑوں لوگوں کو متاثر کیا اور آنے والی نسلوں کے لئے فنی و فکری سرمایہ چھوڑا۔