اگر ہم بھارت سے مقابلہ کر رہے تھے تو مان لیجیے ہم معاشی جنگ ہار گئے ۔چند ہفتے پہلے قطر میں کوئی جی ایٹ‘ جی 20وغیرہ کا اجلاس نہیں تھا بلکہ دنیا کے غریب ترین ممالک جمع ہوئے تھے۔اکثریت افریقی ممالک کی تھی۔ان میں ایٹمی پاکستان کا وزیر اعظم کھڑا کہہ رہا تھا کہ ترقی یافتہ ممالک اور مالیاتی ادارے غریب ملکوں کے ساتھ امتیازی سلوک روا رکھتے ہیں۔پاکستان کی ضرورت کیا ہے ، یہاں تخفیف غربت کے لئے حکومت کے پاس کیا منصوبہ ہے ،وزیراعظم اس پر دو لفظ نہ کہہ پائے ۔ اس میں حیرت کیسی کہ ہر عالمی فورم پر ہم دنیا کا لیڈر بننے کی کوشش کرتے ہیں۔ عمل ہمارے پاس ہوتا نہیں۔قطر میں بھی وزیر اعظم شہباز شریف نے ترقی یافتہ ملکوں پر غیر ضروری تنقید کی۔انہوں نے کہا کہ ترقی یافتہ ملک ہماری مدد نہیں کرتے ، بھائی صاحب کتنی مدت تک مدد کریں ۔جو امداد ملی حکمران اشرافیہ اٹھا کر بیرون ملک لے گئی ۔میں سوچتا ہوں کہ جب کل وہ کسی ملک کے پاس مدد کی درخواست لے کر گئے تو وہ ان کے سامنے ان کے کہے الفاظ کا آئینہ نہیں رکھے گا؟ ایک عوامی ماہر معیشت نے بتایا تھا کہ بدعنوانی غربت کو جنم دیتی ہے اور اس سے تخفیف غربت کی کوششیں متاثر ہوتی ہیں۔بدعنوانی افراد کو ہی غریب نہیں بناتی، ریاستیں بھی افلاس زدہ ہو جاتی ہیں۔افراد اور ریاستوں کے دیوالیہ ہونے کی وجوہات میں گہری مماثلت ہے۔دونوں کو اپنے وسائل کا استعمال سوچ سمجھ کر کرنا ہوتا ہے ، دونوں اپنی بچت کو چوروں سے بچاتے ہیں ۔کرپشن معاشی نشوو نما کی حوصلہ شکنی کرتی ہے‘ غربت کو بڑھاتی ہے اور اداروں کو کمزور کرتی ہے۔ایک نظر اپنے گرد ڈالیں۔ادارے اس قدر کمزور ہیں کہ ان سے اب سیاستدانوں کے جھگڑے تک نہیں نمٹائے جا رہے ہیں۔ کرپشن ایک ہی ملک کے شہریوں کی آمدن میں بہت بڑا تفاوت ڈال دیتی ہے۔ ایم اے پاس چپڑاسی بھرتی ہوتا ہے، 30ہزار ماہوار تنخواہ پاتا ہے۔میٹرک پاس وزیر لگ جاتا ہے‘ وزیر نہیں بن پاتا تو وزیر اعظم اپنی کابینہ کا دسترخوان پھیلا کر اس کی جگہ بنا دیتا ہے۔پی ڈی ایم کے دسترخوان کی خیر ہو۔آدھے وزیر مشیر مہینوں سے بے محکمہ ہیں۔کام کے نہ کاج کے دشمن اناج کے۔اوپر سے انگلیاں اٹھا اٹھا کر ،منہ پکا سا بنا کر سبسڈی سکیموں کا اعلان کرتے ہیں ، جب سوال اٹھتے ہیں تو کسان پیکج و تیل سبسڈی سکیم واپس لے لیتے ہیں۔ سامنے کی مثال ہے۔ہر کسی نے دیکھا ہو گا کہ ایک ٹیچر جب طلبا کی اچھے طریقے سے رہنمائی نہیں کر پاتا تو اس سے کلاس واپس لے کر مینجمنٹ کسی دوسرے ٹیچر کو موقع دیتی ہے۔کوئی کارخانہ خرابیوں کا شکار ہوتا چلا جائے تو منیجر بدل دیا جاتا ہے۔کمپنی خسارے کے کنویں میں گرتی ہی جا رہی ہو تو انتظامیہ بدل جاتی ہے‘ کئی بار تو مالکان کاروبار بیچ دیتے ہیں۔پاکستان کے حکمران اس کے مفادات کا تحفظ نہیں کر سکے۔ہمارے رہنمائوں کے پاس مستقبل کے اہداف‘ قوم کو متحرک کرنے اور وسائل کے بندوبست کی اہلیت نہیں۔سوچتا ہوں اگر عمران خان سیاست میں نہ آیا ہوتا تو یہ لوگ کس کو خرابی کا ذمہ دار ٹھہراتے۔ممکن تھا بھٹو خاندان اور نواز شریف کو بچانے کے لئے سارا ملبہ بے چارے قائد اعظم پر ڈال دیا جاتا۔ مجھے دنیا کے نئے لیڈروں کی سیاسی و جمہوری جدوجہد سے متعلق لٹریچر پڑھنے کا موقع ملتا رہا ہے۔نریندر مودی کو آپ لیڈر نہ مانیں‘ اس کی اٹھان اور بھارت کو بدلنے کا اعتراف نہیںکرنا ، لیکن کچھ اور لوگ بھی ہیں۔برازیل کی سابق صدر دیلما روسیف ہیں۔دیلما برازیل کی پہلی خاتون صدر تھیں۔ وہ ماہر اقتصادیات ہیں۔جوانی میں سوشلسٹ گروپ میں شریک ہوئیں۔1964ء کی بغاوت کے بعد فوجی آمریت کے خلاف لڑنے والے مارکسی گروپوں کا حصہ رہیں۔دیلما کو 1970ء میں گرفتار کیا گیا۔دو سال کی حراست کے دوران تشدد کیا گیا۔اس تشدد میں ان کی ٹانگ متاثر ہوئی۔رہا ہونے کے بعد انہوں نے اپنے شوہر کے ساتھ نئی زندگی شروع کی۔ڈیمو کریٹک لیبر پارٹی کو ازسر نو منظم کیا اور انتخابی مہم چلائی۔لوگوں نے ان کی جدو جہد کا اعتراف کیا ۔ انجیلا مرکل 17جولائی 1954ء کو پیدا ہوئیں۔بنیادی طور پر سائنسدان تھیں جو سیاست میں آئیں اور جرمنی کی چار بار چانسلر منتخب ہوئیں۔لوگوں کی خواہش کے باوجود مزید اس عہدے پر برقرار رہنے سے معذرت کر لی۔ ان کے دادا ایک عام پولیس کانسٹیبل ‘ والد ایک استاد اور پادری تھے‘ انجیلا مرکل نے کوانٹم کیمسٹری میں پی ایچ ڈی کر رکھی ہے۔انجیلا مرکل نے سوشلسٹ پارٹی میں شمولیت اختیار کی۔دوران تعلیم ہی سوشلسٹ پارٹی یوتھ کی سیکرٹری پروپیگنڈہ و ایجی ٹیشن منتخب ہوئیں۔مغربی اور مشرقی جرمنی کے اتحاد کے بعد 1991ء میں وفاقی جرمن پارلیمان کی رکن منتخب ہوئیں۔ان کے دور میں جرمن معیشت مستحکم رہی اور امریکہ و یورپ کے دیگر ممالک جب کساد بازاری کا شکار ہو رہے تھے جرمنی محفوظ رہا۔ان دنوں بنا نوکر شوکر ایک چھوٹے سے گھر میں میاں بیوی رہ رہے ہیں ۔ جوکوودودوانڈونیشیا کے صدر ہیں۔انڈونیشیا پاکستان سے آبادی اور رقبے کے لحاظ سے بڑا اسلامی ملک ہے۔ انڈونیشیا کے صدر جون 1961ء میں ایک لکڑ ہارے کے گھر پیدا ہوئے۔بچپن میں خود جنگل میں مزدوری کرتے رہے۔مزدوری اور تعلیم کا سلسلہ ساتھ ساتھ چلتا گیا۔ فارسٹری کی اعلیٰ ڈگری لینے کے دوران فرنیچر کا کاروبار شروع کیا۔ درختوں کی کٹائی ضرورت تھی لیکن ہر شجر کاری کے موقع پر اپنی ہمت کے مطابق نئے درخت لگاتے۔پہلے اپنے شہر کے میئر منتخب ہوئے۔پھر ریاست کے گورنر بنے اور آخر صدر منتخب ہو گئے۔جوکوودودو دوسری مدت صدارت پوری کر رہے ہیں۔انڈونیشیا میں مذہبی آزادی اور توازن قائم رہنا‘ باوقارمعاشی حیثیت ، ترقی کی جدوجہد اور اپنی قوم کی ترقی میں ان کی شراکت سے واقف ہوں لیکن میری فہم کو اس وقت گرہ لگ جاتی ہے جب میں پاکستان کے باصلاحیت نوجوانوں کو چند خاندانوں کی غلامی میں خوار ہوتا دیکھتا ہوں۔کیا عجیب و غریب لوگ ہیں جو لیڈر بن کر سامنے آ رہے ہیں۔