اب تو استحکا م پاکستان پارٹی نے بھی میاں نواز شریف کو لاڈلا کہہ دیا ہے اور الزام لگایا ہے الیکشن کمیشن پر ۔ پارٹی کے سینئر رہنما اور سندھ کے سابق گورنر عمران اسماعیل نے کمیشن کے کردار کو نہ صرف سندھ بلکہ ملک بھر میں "متنازعہ" قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس اپنی ساکھ اور غیر جانبداری دونوں کھو دیں ہے۔ ایک میڈیا کانفرنس میں اسماعیل نے دعویٰ کیا کہ چیف الیکشن کمشنر ایک غیر جانبدار سرکاری ملازم کے بجائے سیاسی کارکن کی طرح نظر آتے ہیں، جس سے انتخابی نگران ادارے سے متوقع آزادی پر شکوک و شبہات کی ایک نئی پرت شامل ہو گئی۔ اس سے پہلے تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی الیکشن کمیشن کے کردار پر انگلیاں اٹھا چکی ہیں۔ استحکام پاکستان کا الیکشن کمیشن پر تنقید کے حوالے سے دیگر پارٹیوں کا ہم آواز ہو نیکا فیصلہ پہلے سے چارج شدہ سیاسی ماحول میں پیچیدگیاں پیدا کرسکتا ہے ۔ سپریم کورٹ کی مداخلت سے فروری میں ہونے والے عام انتخابات ،جو کہ اصولی طور نومبر میں ہونا تھے ، کا ماحول تنازعات کا ایک مرکزی نقطہ بن گیا ہے۔ سیاسی تجزیہ نگار اور سیاسی جماعتیں انتخابی عمل کو شفافیت کے تناظر میں پرکھ رہی ہیں۔چونکہ الیکشن کمیشن کے خلاف اٹھنے والی آوازیں آئندہ انتخابات کی شفافیت پر سوال اٹھارہی ہیں اور انتخابی عمل میں عدم اعتماد کے احساس کو گہرا کر رہی ہیں ، عدالتی مداخلت اس مسئلے کا ایک ممکنہ حل ہے۔ سپریم کورٹ ممکنہ طور پر سیاسی پارٹیوں کے تحفظات کو دور کرنے اور انتخابی نظام پر اعتماد کو تقویت دینے کے لیے از خود نوٹس لے سکتی ہے۔ متبادل کے طور پر، خود الیکشن کمیشن سیاسی پارٹیوں میں اپنے بارے میں پائی جانے والی غلط فہمیوں کا ازالہ کرنے کے اقدامات اٹھا کر انتخابات میں شفافیت کے لیے اپنی آئینی ذمہ داریاں ادا کرسکتا ہے۔ ن لیگ کا معاملہ بھی قابل غور ہے۔ میاں نواز شریف جو جیل سے بغرض علاج سیدھے لندن گئے تھے ، واپسی پر جیل جانے کی بجائے ج انہوں نے جلسے سے خطاب کیا اور سیاسی اتحاد بنانے کی مہم میں جت گئے۔ ان کی راہ میں حائل ہر قانونی رکاوٹ ریت کی دیوار ثابت ہوئی۔ یہ ایسا معاملہ نہیں ہے جسے حریف پارٹیاں نظر انداز کردیں۔ مثلاً پیپلز پارٹی کو امید تھی کہ تحریک انصاف کی عدم موجودگی سے پیدا ہونے والے خلا کو وہ پر کرے گی۔ میاں نواز شریف ملک میں غیر موجودگی کی وجہ سے ن لیگ کمزور پڑگی تھی ۔ انکی واپسی کی راہ میں قانونی پیچیدگیا تھیں۔ لیکن سب اندازے غلط ثابت ہوئے۔ ماضی میں ہونے والے میثاق جمہوریت اور بعد ازاں ان پر کیے گئے پیپلز پارٹی کے احسانات کے برعکس انہوں نے سندھ میں اسکے مخالفوں سے ہاتھ ملالیا۔ بلوچستان گئے تو وہاں پر جھاڑو ہی پھیر کر رکھ دیا۔ پیپلز پارٹی کو اپنا چھپنواں یوم تاسیس کوئٹہ میں منا نا پڑا۔ پیپلز پارٹی نے عوامی سیاست کو اپنانے کا فیصلہ تو ٹھیک کیا ہے لیکن اس حوالے سے مقامی حکومتوں کی افادیت کو نظر انداز کردیا ہے تو اشرافیائی گٹھ جوڑ کے خلاف اس کی حکمت عملی بھی ڈانواں ڈول ہی رہے گی۔ ممکن ہی کہ دوبارہ مفاہمت کی پڑیا سے ہی اپنا کام چلائے۔جس طرح کی سیاست پاکستان میں ہورہی ہے ، مخالفین کو گلے لگالینا کوئی معیوب بات نہیں ہے۔ اگر نہ بھی بنا تو انتخابی نتائج کو ناراض جماعتوں کی جانب سے سخت چیلنجوں کا سامنا ہوگا۔ اصلاحی اقدامات کی عدم موجودگی انتخابات کے بعد ایک افراتفری کا ماحول پیدا کرسکتی ہے جو کہ معاشی بحران اور ٹیکسوں کی بھرمار کے تناظر میں سنگین ہوسکتا ہے۔ ایک تو مہنگی توانائی کی وجہ سے بند صنعتیں لوگوں کو روزگار مہیا نہیں کر رہیں دوسرے اتحاد ی حکومت کے قیام سے لیکر آج تک یہ رحجان ابھی تک جاری ہے کہ ریاست معاشی بدحالی کا بوجھ عوام پر ڈالے جارہی ہے ۔مقامی حکومتوں کا نظام اپاہج ہے جبکہ صوبائی حکومتیں تعلیم اور صحت جیسے اہم شعبوں کو نجی شعبے کے رحم وکرم پر چھوڑ بیٹھی ہیں۔ یوں سرکار کی ساکھ عوام کی نظروں میں بہت زیادہ گر چکی ہے۔ ایسے میں اگر انتخابات غیر مسابقتی ماحول میں ہوتے ہیں اور کسی مخصوص پارٹی کو تھونپنے کی کوشش کی جاتی ہے تو یہ ممکن نہیں ہے کہ متاثرہ سیاسی پارٹیاں خاموش رہیں۔ ایک صورتحال وہ ہے جس کا اشارہ آصف علی زرداری کی اپنے فرزند کو کی جانے والی اس تنبیہ سے بخوبی ہوتا ہے کہ وہ نہ تو انتخابی ماحول خراب نہ ہی کوئی ادارہ اسکا ذمہ دار۔ یعنی پیپلز پارٹی کو کوئی شکوہ یا شکایت نہیں۔ ہوسکتا ہے کہ عمران اسماعیل کا غصہ بھی لمحاتی ثابت ہو اور جہانگیر ترین کو مقتدر قوتیں رام کرلیں۔ تحریک انصاف کا عروج زوال سامنے کی بات ہے۔ جس طرح اور جس طور سے یہ ابھری اور سیاسی افق سے غائب ہوئی سب جادوئی لگتا ہے۔ ستم یہ ہے کہ اشرافیہ صرف اپنی پیٹ پوجا نہیں کرتی بلکہ ہر اس سہولت کا بھی راستہ روکتی ہے جسے عوام کے معیار زندگی میں اضافہ ممکن ہو۔ اسکی زندہ مثال مقامی حکومتوں کا نظام ہے جسکی خدمات کی عوام کی دہلیز تک پہنچانے کی صلاحیت دنیا بھر میں مسلم ہے لیکن پاکستان میں جب جب سول حکومتیں اقتدار میں آئیں انہوں نے اس نظام کو آمریت کی یادگار قرار دے کر نظر انداز کردیا۔ نوے کی دہائی میں نجکار ی کا اصول اپنایا گیا تو قومی اثاثوں کی آپس میں بند ر بانٹ کرلی گئی۔ یوں الیکشن کمیشن کے خلاف بد اعتمادی کی فضا کو سنجیدہ لینے کو ضرورت ہے۔ نہ صرف عدالتی مداخلت بنتی ہے بلکہ کمیشن خود بھی اپنی ساکھ بحال کرنے کے لیے اقدامات کرے۔ سیاست کو کھیل سمجھنے والے اپنی غلطی کا نہ صرف اعتراف کریں بلکہ ازالہ بھی۔ سیاسی پارٹیوں کو تسلیم کرنے کی ضرورت ہے کہ انہیں اپنی ساکھ کی بحالی کے لیے مقامی جمہوریت کا آسرا لینا پڑے گا۔ یہی وہ راستہ ہے جس سے وہ عوام کے قریب ہوسکتی ہیں اور اجارہ داریوں کے اثرورسوخ سے دور۔ سیاست ملکی سلامتی سے وابستہ عمل ہے کہ اسکی درست سمت اندرونی استحکام کے لیے ضروری ہے۔ ایسے میں جب جنگیں مہنگا سودا بن چکی ہیں، دشمن کے پاس سب سے بڑا ہتھیار فتنہ ہے۔ اگر سیاست ہی معاشرتی عدم استحکام کا باعث ہو ، جیساکہ اشرافیائی سیاست ، تو پھر ستے خیراں۔ بقول میر تقی میر: لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام آفاق کی اس کارگہِ شیشہ گری کا