اکتیس اکتوبر سے برطانیہ کے شہر گلاسگو میں اقوام متحدہ کے زیراہتمام ماحولیاتی تبدیلیوں سے متعلق تیرہ روزہ عالمی کانفرنس منعقد ہورہی ہے،جسے سرکاری طور پر کانفرنس آف پارٹیز (سی او پی) کہا جاتا ہے۔ موجودہ اجلاس کو سی او پی 26 کا نام دیا گیا ہے۔چھ برس پہلے ہونے والے پیرس سمجھوتہ میں شامل تمام ممالک خاص طور سے بڑے ممالک نے عہدکیا تھا کہ وہ دنیا کے درجۂ حرارت کو بڑھنے سے روکنے کیلیے ایسے اقدامات کریں گے کہ جو عالمی درجۂ حرارت صنعتی عہد کی ابتدا سے پہلے تھا آج کا عالمی درجۂ حرارت اس سے ڈیڑھ سنٹی گریڈ آگے نہ بڑھے۔تاہم معاہدہ کرنے والے ملکوں نے کاربن کے اخراج میںکمی کرنے کے جو اہداف مقرر کیے تھے،وہ پوری طرح حاصل نہیں کیے۔ اب ماحولیات کے ماہرین کااصرار ہے کہ دنیا کے تمام مالک بالخصوص بڑے ممالک گلاسگو میں عہد کریں کہ وہ اگلے دس برسوں (2030) میں دنیا میں مجموعی طور پر کاربن کے اخراج کوآج کی سطح سے آدھا کردیں گے۔اسی مقصد کو حاصل کرنے کی خاطر چین نے کوئلہ سے چلنے والے بجلی گھر بند کرنا شروع کردیے ہیں۔اس نے یہ بھی اعلان کیا ہے کہ وہ کوئلہ کے بجلی پلانٹس میں دنیا میں کہیں بھی سرمایہ کاری نہیں کرے گا۔ جاپان اور جنوبی کوریا نے بھی ایسا ہی اعلان کیا ہے۔ پاکستان کے وزیراعظم عمران خان نے بھی حال میں کہا ہے کہ ہمارا ملک آئندہ کوئلے سے چلنے والا بجلی گھر نہیں لگائے گا۔ دنیا کے چوالیس ممالک یہ عزم کرچکے ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ ان بیانات پر کتنا عمل کیا جاتا ہے۔ ایک روز پہلے (تیس اکتوبر) اٹلی کے دارلحکومت روم میں دنیا کے بیس بڑی معیشتوں کے حامل ممالک (جی 20)کا سربراہی اجلاس بھی ہوا۔ جی20 بین الاقوامی معاشی تعاون کا سب سے بڑا پلیٹ فارم ہے۔اگر یہ ممالک ایک دوسرے کے ساتھ مربوط کوششوں پر متفق ہوجائیں تو ماحولیاتی کانفرنس کے مقاصد حاصل کرنے میں آسانی ہوگی۔ بیس بڑے ممالک دنیا کی ماحولیاتی آلودگی اور موسمیاتی تبدیلیوں کا سب سے بڑا سبب ہیں کیونکہ دنیا میں مجموعی طور پر جتنی کاربن فضا میں خارج ہوتی ہے اسکا اسیّ فیصد اخراج ان ملکوں میں ہوتا ہے۔ امریکہ اور چین دنیا میں سب سے زیادہ کاربن خارج کرتے ہیں۔ امریکہ اور یورپ کے ترقی یافتہ ممالک ڈیڑھ سو سال سے فضا کو کاربن سے آلودہ کررہے ہیں جبکہ چین اور ترقی پذیر ملکوں نے یہ کام صرف تیس برس پہلے شروع کیا ہے۔ تاہم گزشتہ پندرہ برسوں سے چین دنیا میں سب سے زیادہ کاربن خارج کرنے والا ملک بن چکا ہے۔ امریکہ کا دوسرا اوربھارت کا تیسرا نمبر ہے۔ بھارت میں کاربن کے اخراج سے پاکستان بھی شدید متاثر ہورہا ہے۔تمام تر عالمی معاہدوں اور ماحولیا ت سے متعلق شور شرابہ کے باوجود عالمی درجہ حرارت کم نہیں ہورہا۔بین الاقوامی موسمیاتی تنظیم کے مطابق گزشتہ ایک دہائی دنیا کی تاریخ کے ریکارڈ میں گرم ترین دس سال تھے۔2019 میں درجہ ٔحرارت سب سے زیادہ تھا۔ان برسوں میں عالمی درجۂ حرارت 1990 کے مقابلہ میں 62 فیصد زیادہ تھا۔ اسکی وجہ تھی فوسل ایندھن(پیٹرول‘ ڈیزل وغیرہ) اور جنگلات کی آگ۔ پچھلے برس ( 2020) امریکہ‘ کینیڈا‘ رُوس اوربحر منجمد شمالی میں جنگلات کی آگ سے اتنی کاربن فضا میںخارج ہوئی جو بھارت میں ایک پورے سال کے دوران میں خارج ہوتی ہے۔ ماحولیات کے ماہرین کا موقف ہے کہ جنگلات میں آگ لگنے کے بڑھتے ہوئے واقعات کا سبب درجۂ حرارت میں اضافہ ہے۔عالمی معاہدوں کے باوجود حالیہ برسوں میں دنیا کے بیس بڑی معیشتوں کے حامل ممالک میں کاربن کا اخراج کم ہونے کی بجائے زیادہ ہوگیا ہے۔ دنیا کے امیر‘ ترقی یافتہ ممالک اور ترقی پذیر ممالک میں ماحولیاتی مسائل پر شدید اختلافات ہیں۔ امریکہ اور اسکے اتحادی چاہتے ہیں کہ ترقی پذیر ممالک بھی انہی کی طرح کاربن کا اخراج کم کرنے کی خاطر اہداف حاصل کریں۔ یہ انکی چالاکی ہے کہ ماحول کو آلودہ کرکے خود تو زبردست ترقی کرلی لیکن پسماندہ ملکوں پر فوری طور پر سخت پابندیاںلگانا چاہتے ہیں۔ ظاہر ہے اگر ترقی پذیر ممالک ایسا کریں گے تو انکی معاشی‘صنعتی ترقی متاثر ہوگی۔چین اور انڈیا پر خاص طور سے دباؤ ڈالا جارہا ہے جو یہ ماننے کیلیے تیار نہیں۔بھارت نے یہ مطالبہ مسترد کردیا ہے کہ وہ اپنے لیے ہدف مقرر کرے کہ فلاں فلاں سال تک کاربن کا اخراج بالکل صفر ہوجائے گا۔ بھارت اگر ایسا کرتا ہے تو اسکی صنعتی ترقی کو شدید جھٹکا لگے گا۔ دوسری طرف حالت یہ ہے کہ امریکہ خود کئی بار ماحولیات پر معاہدے کرکے منحرف ہوچکا ہے۔ 1992 میں صدر کلنٹن نے ماحولیات کے کیوٹومعاہدہ پر دستخط کیے تھے لیکن انکے بعد آنے والے صدرجارج بش نے اس معاہدہ سے علیحدگی کا اعلان کردیا تھا۔ اسی طرح صدر اوبامہ نے پیرس معاہدہ کیا تھا لیکن صدر ٹرمپ نے اسے ختم کردیا۔صدر بائیڈن کی انتظامیہ سے توقع کی جارہی ہے کہ وہ گلاسگو کانفرنس میں وعدہ کرے گی کہ امریکہ سنہ دو ہزار تیس تک کاربن کا اخراج پندرہ سال پہلے کی نسبت آدھا کردے گا۔تاہم اس بات پر کون یقین کرے کہ صدر بائیڈن کے بعد آنے والا صدر اس عہدنامہ کی پاسداری کرے گا۔ ترقی پذیر ممالک چاہتے ہیں کہ اگر انہیں کاربن کے کم اخراج کا پابند کیا جاتا ہے تو یہ اہداف حاصل کرنے کی خاطرترقی یافتہ ممالک انہیں مالی امداد اور جدید ٹیکنالوجی جیسے شمسی توانائی وغیرہ فراہم کریں۔ 2015 میں پیرس سمجھوتہ کے وقت دنیا کے ترقی یافتہ ممالک نے وعدہ کیا تھا کہ وہ ترقی پذیر ممالک کو ماحولیاتی تبدیلیوں کا مقابلہ کرنے اور کاربن کے اخراج میں کمی کیلیے پانچ برسوں میں ایک سو ارب ڈالر عطیہ کریں گے لیکن انہوں نے پوری رقم فراہم نہیں کی۔ گلاسگو میں دیکھنا ہوگا کہ دنیا کی دو سپر طاقتیں یعنی امریکہ اور چین کس حد تک اپنے اختلافات اور مقابلہ بازی پسِ پشت ڈال کر ماحولیاتی مسائل پر تعاون کیلئے آمادہ ہوتے ہیں۔ بدقسمتی ہوگی اگر ماحولیات ایسے اہم مسئلہ کو عالمی سیاست کی نذر کردیا جائے۔