چند دن پہلے وفاقی وزیر برائے اطلاعات مریم اورنگزیب صاحبہ نے اللہ تعالیٰ کے بابرکت نام سے چمکتی دمکتی تختی لگا کر اور فیتہ کاٹ کر اسلام آباد کے ایچ نائن علاقے میں ملک کی پہلی میوزک فلم پالیسی کا اعلان کرتے ہوئے ریڈیو پاکستان اور پی ٹی وی میں پہلے سینما گھر کا سنگ بنیاد رکھا۔ ان کے خیال سے اس نیک کام کی بنیاد رکھ کر انہوں نے جو ثواب دارین حاصل کیا ہے اور جو اجر عظیم اپنے نام کیا ہے وہ قابل تحسین اقدام ہے اور میرے خیال سے ترقی پذیر بلکہ تنزلی پذیر قومیں ایسے ہی کام کر کے خوشی محسوس کرتی ہیں۔ جہاں دلوں پہ غفلت کی دبیز تہہ ہو اور عقلوں پر پردے پڑے ہوں وہاں ایسے چھوٹے ، بے مقصد اور لایعنی کام کر کے ہی دلی خوشی حاصل کی جاتی ہے اور اپنے سوئے ہوئے ضمیر کو تھپکیاں دے دے کر مزید سلا دیا جاتا ہے کہ چل سو جا شاباش سو جا۔۔۔۔۔ راوی چین ہی چین لکھتا ہے۔ حکومت کے ایسے اقدامات سے انکی ترجیحات اور ذہنی پسمانگی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔براہ مہربانی قارئین کرام! میری باتوں سے یہ نتیجہ اخذ مت کیجیئے کہ میں خدانخواستہ فنون لطیفہ کے خلاف ہوں یا قوم کو مثبت تفریح کے مواقع فراہم کیے جانے پر مجھے اعتراض ہے۔ ایسا ہر گز نہیں ہے ، تفریح کے مواقع فراہم کیے جانے پر مجھے کوئی اعتراض نہیں لیکن یہی کام اگر کسی اور نہج پر کیا جاتا تو زیادہ اچھا ہوتا اور اسکے نتائج بھی مثبت اور تعمیری ہوتے۔ جہاں ہر فرد کے ہاتھ میں ٹچ موبائل ہو ، گھر گھر ٹی وی ،کیبل، انٹرنیٹ ہوں وہاں کیا واقعی سینما ہال کی ضرورت تھی؟؟ سوشل میڈیا کے ہاتھوں نوجوان نسل پہلے ہی تباہی و بربادی کا شکار ہے۔ ہر ذی شعور پاکستانی اپنی نوجوان نسل پر سوشل میڈیا اور اسکے منفی اثرات دیکھ کر خون کے آنسو روتا ہے کہ وہ ملک جسکی اکثریت نوجوانوں پر مشتمل ہے اور یہی نوجوان آگے بڑھ کر اس ملک کی باگ ڈور سنبھالیں گے، وہ نوجوان کن لایعنی اور بے مقصد کاموں میں اپنا وقت برباد کرتے ہیں۔سوشل میڈیا میں نجانے کون کون سے پلیٹ فارمز ہیں جہاں تفریح اور سستی شہرت کے حصول کی خاطر نوجوانوں کی اکثریت دن رات اپنا وقت برباد کرتی ہے۔ مثبت ، تعمیری اور علمی نوعیت کا کام بہت کم اور تفریح کے نام پر بے حیائی ، عریانی، فحاشی اور بے حسی کو فروغ دیا جارہا ہے اور اب اس کارخیر میں سرکار نے بھی اپنا حصہ ڈالا ہے۔ مجھے آج تک اس بات کی سمجھ نہیں آئی کہ ہمارے وطن عزیز اسلامی جمہوریہ پاکستان میں صرف ناچ گانے، فلم ڈرامے اور سینما کو ہی تفریح کا واحد ذریعہ کیوں سمجھا جاتا ہے؟ دنیا بھر میں اپنا سافٹ امیج اجاگر کرنے کے لیے ہمارے پاس فلم، میوزک اور ڈرامے کے علاوہ کچھ نہیں ؟؟ کیا تعلیم، تحقیق اور سائنس کے شعبے میں کام کرکے ہم دنیا کو اپنا سافٹ امیج نہیں دکھا سکتے؟؟ کیا ذہنی اور جسمانی تفریح کے اور کوئی ذرائع نہیں ہیں؟ کیا اپنی نوجوان نسل کی تعلیمی، تحقیقی اور علمی قابلیت بڑھانے کے لیے اور انہیں سائنس و ٹیکنالوجی کے میدان میں آگے بڑھانے کے لیے ایسے اقدامات نہیں اٹھائے جانے چاہئیں ؟ اسلام آباد کے علاقے ایچ نائن میں پی ٹی وی سینٹر کے قریب انتہائی سرسبز و شاداب اور وسیع و عریض ہرے بھرے میدان کو سینما کی بجائے اگر کسی کھیل کے میدان میں تبدیل کیا جاتا تو زیادہ بہتر ہوتا کہ وہاں برسوں پرانے درخت بھی قائم و دائم رہتے، سبزہ زاروں پر بلڈوزر نہ چلانے پڑتے اور یہی ہری بھری زمین پاکستانی نوجوانوں کے کھیل ، ذہنی و جسمانی تفریح کیساتھ ساتھ صحت کی ضمانت ہوتے۔ پاکستان کے تمام چھوٹے بڑے شہروں میں کوئی کھیل کے میدان موجود نہیں ہیں اور اگر کہیں ہیں بھی تو انکی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے۔ نوجوانوں کے لیے اگر یہاں کرکٹ ، فٹ بال ، ہاکی وغیرہ کا میدان بنایا جاتا تو یقیناً مریم اورنگزیب صاحبہ کا اپنی قوم پہ احسان عظیم ہوتا۔ کھیل کے میدانوں کیساتھ اوپن ائیر جم بنائے جائیں، جہاں ہر طرح کی ورزش اور جسمانی بھاگ دوڑ کے تمام لوازمات فراہم کیے جائیں۔ پاکستانی نوجوانوں کو مثبت اور تعمیری تفریح کے مواقع فراہم کیا جانا اشد ضروری ہے۔ بطور ماہرعمرانیات ، میں نہیں سمجھتا کہ سینما ہال تعمیر کرکے ہم کوئی زیادہ اچھی تفریح فراہم کر سکتے ہیں۔ چند گھنٹوں کی فلم دیکھنے کے بعد ہر کوئی اپنے گھر کی راہ لیتا ہے اور حقیقت تو یہ ہے کہ پہلے سے موجود سینما گھر بھی قوم کو مثبت تفریح دینے میں خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں کر سکے۔ اس ضمن میں حکومت وقت سے اور آنے والے ہر صاحب اقتدار طبقے سے میری گزارش ہے کہ خدارا اپنی نوجوان نسل پہ رحم کھائیں۔ دوراندیشی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان کاموں پر پیسہ خرچ کریں جو واقعی آنے والے وقت میں ہمارے نوجوانوں کی ترقی کا باعث بنیں۔ اسوقت انتہائی ضروری ہے کہ پاکستانی نوجوانوں کی تعلیم اور صحت پر پیسہ خرچ کیا جائے۔ ایسے پراجیکٹس اور طویل مدتی منصوبے بنائیں جائیں جنکا مقصد پاکستانی قوم کو آگے لے جانا ہواور یہ تعلیم و صحت کے بناء ممکن نہیں۔ قوم کاپیسہ سینما گھروں کی بجائے اسی قوم کے بچوں کا مستقبل سنوارنے پر خرچ کیا جائے۔زیادہ سے زیادہ یونیورسٹیز ، سائنسی تحقیق کے ادارے کھولے جائیں۔ مختلف کھیلوں کے میدان تعمیر کیے جائیں جہاں تمام سہولیات مفت یا انتہائی کم قیمت میں میسر ہوں تاکہ نوجوان فارغ اوقات میں اپنی پسندیدہ کھیلوں سے اپنی ذہنی و جسمانی طاقت کو بڑھا سکیں۔ تیراکی، نشانہ بازی اور مارشل آرٹس وغیرہ کے سینٹرز قائم کیے جائیں۔ دنیا بھر کے ترقی یافتہ ممالک میں سب سے پہلے تعلیم اور صحت پر پیسہ خرچ کیا جاتا ہے کیونکہ صحت مند اور تعلیم یافتہ افراد ہی ایک ترقی یافتہ قوم کی ضمانت ہوتے ہیں۔ لیکن افسوس صد افسوس کہ وطن عزیز میں کبھی کسی حکومت اور مقتدر حلقوں نے ان باتوں کو ترجیح نہیں دی۔ تعلیم اور صحت کبھی بھی ہماری ترجیحات میں شامل نہیں رہے یہی وجہ ہے کہ آج ہم دوسروں سے بہت پیچھے ہیں۔ اللّٰہ تعالیٰ کا بابرکت نام لے کر ، بسم اللّٰہ پڑھ کر ، دعا کے لیے ہاتھ اٹھا کر اگر ہمارے حکمران ایسا کام کریں جو واقعتاً انکے دنیا و آخرت کے لیے بہترین صدقہ جاریہ ہوں اور اپنی نوجوان نسل کی اصلاح کے لیے ہوں تو ہم شانہ بشانہ انکے ساتھ ہیں۔ بالی وڈ اور ہالی وڈ سے مقابلہ کرنا تو ہمارے بس میں نہیں کہ وہ پہلے اپنی قوم کی تعلیم وصحت پر خرچ کرتے ہیں پھر کسی اور کام پر۔۔۔ لہذا خدارا اپنی زبوں حال معیشت اور غربت وافلاس کی ماری ہوئی قوم کا پیسہ بیکار اور لایعنی پراجیکٹس پر لگانے کی بجائے مثبت، تعمیری، تعلیمی، تکنیکی، تحقیقی اور صحت کے منصوبوں پر خرچ کریں تاکہ آنے والی نسلیں ہمیں دعا دیں جو حقیقتاً ہمارا قیمتی سرمایہ ہیں۔