سیدنا شماس بن عثمان مخزومی قریشی ر ضی اللہ عنہ السابقون الاولون کی عظمتوں کے حامل تھے ۔ مکہ مکرمہ کے معروف رئیس ربیعہ کے نواسے اورشَیبہ و عُتبہ (سرداران مکہ جو غزوہ بدر میں مارے گئے تھے ) کے بھانجے تھے ۔ عتبہ معاملات دنیا میں بہت دانا جانا جاتا یہ اپنی دا نشمند ی کی بدولت اسلام سے بھی بہت قریب تھا۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ اس نے متعدد بار اسلام کے متعلق گفتگو بھی کی ۔ میدان بدر میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے سرخ اونٹ پرسوار دیکھا تو فرمایا:’’میری قوم اگر کسی کے پاس خیر ہے تو سرخ اونٹ والے کے پاس ہے ‘یہ خود تو مسلمان نہ ہوا مگر اس کا بیٹا سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ مسلمان ہوگئے اور بدر میں مسلمانوں کی طرف سے شریک بھی ہوئے ۔ ابھی عہد طفلی تھا کہ شفیق باپ کا سایہ سر سے اٹھ گیا آپ کے ماموں عتبہ بن ربیعہ نے بیوہ بہن اور یتیم بھانجے کو اپنے ساتھ رکھ لیا اور ان کو عثمان بن شرید کی کمی چنداں محسوس نہ ہونے دی آپ اپنے ماموں اور ماں حضرت صفیہ بنت ربیعہ کے سایہ ہی میں عنفوان شباب کو پہنچے ۔ اہل خانہ شماس پر سو جان سے فداتھے اور انہوں نے ان کو بڑے ناز ونعم سے پالاتھا۔ آپ کا اصل نام اپنے والد کے نام پر عثمان تھا ۔شماس کے سیاہ چمکیلے بال، موتیوں جیسے دانت، گوراچٹارنگ، ستواں ناک، غلافی آنکھیں، کتابی چہرہ۔ ایسے خدوخال نہیں تھے کہ دیکھنے والوں کو مسحورنہ کردیتے ۔ آپ کو شماس کہنے کہ وجہ تسمیہ مورخین یہ بیان کرتے ہیں کہ عیسائیوں کے بعض پادری مکہ مکرمہ آئے ۔ ان میں ایک پادری نہایت خوبصورت تھا۔ مکہ کے لوگوں نے اسے دیکھا تو اس کی خوبصورتی پر بڑے متعجب ہوئے اس پادری کا نام شماس تھا۔ عتبہ بن ربیعہ جو کہ آپ کا ماموں تھا کہنے لگا ٹھہرو!میں تم لوگوں کو اس سے بھی زیادہ خوبصورت نوجوان دکھاتا ہوں وہ اپنی بہن صفیہ کے گھر گیا اور اپنے بھانجے عثمان کو لے آیا۔ لوگوں نے جب اسے دیکھا توکہا واقعی یہ نوجوان اس عیسائی شماس سے زیاد ہ خوبصورت ہے چنانچہ مکہ کے لوگ عثمان مخزومی کے اصل نام کو بھول گئے اور اسے شماس بن عثمان مخزومی کے نام سے یاد کرنے لگے ۔ آپ کے بیٹے کا نام حضرت عبداللہ اور صاحبزادی کا نام ام حبیب تھا آپ کی دونوں اولاد لاولد فوت ہوئی۔ جس کی وجہ سے آپ کی نسل آگے نہ بڑھ سکی مگر تاریخ کے صفحات پرآج بھی آپ کا نام دوپہر کے سورج کی طرح چمک رہا ہے ۔ ان کے کان جونہی دعوت توحید سے آشنا ہوئے انہوں نے بغیر کسی تامل کے اس پر لبیک کہا ماں بھی نہایت نیک بخت خاتون تھیں، وہ بھی اپنے فرزند سعید کے ساتھ نعمت اسلام سے سرفراز ہوگئیں۔ عتبہ بن ربیعہ نے بہن ا ور بھانجے کوبہت سمجھایا کہ آبائی مذہب ترک نہ کرو، لیکن وہ دونوں جس جادہ مستقیم پر گامزن ہوچکے تھے اس سے منہ موڑ نا انہوں نے کسی صورت میں گورا نہ کیا بس پھر یہی لوگ جو ناز اٹھاتے تھے جانی دشمن بن گئے ان کے دست تظلم سے کوئی بھی محفوظ نہ رہ سکا جب کفار کے مظالم حد سے بڑہ گئے تونبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مشورہ پر جن لوگوں نے حبشہ کی طرف ہجرت کی ان میں سیدنا شماس بن عثمان مخزومی بھی اپنی والدہ اور اہلیہ حضرت ام حبیب بنت سعید کے ساتھ شامل تھے ۔حبشہ سے واپسی پر آپ نے مدینہ کی طرف ہجرت کی اس طرح ان کو ذوالہجرتین (دوہجرتیں کرنے والے ) کا شرف حاصل ہو گیا۔ مدینہ منورہ آمد کے بعدشہید بدر حضرت مبشر بن عبد منذر کے ہاں قیام کیا اور حضرت مبشر بن عبدالمنذر جب تک زندہ رہے یہ ان کے ہاں مقیم رہے ۔ ہجرت مدینہ کے بعد مواخاۃ مدینہ کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت شماس بن عثمان اور غسیل الملائکہ حضرت حنظلہ بن ابی عامررضی اللہ عنہما کے درمیان مؤاخات قائم کروائی تھی۔ رمضان المبارک 6 ھ میں غزوہ بدر پیش آیا تو حضرت شماس ان تین سو تیرہ سرفروشوں میں شامل تھے جو کفر و طاغوت سے محض اللہ کے بھروسے پر میدان جنگ میں اترگئے ۔ اسی میدان جنگ میں آپ کے دو حقیقی ماموں عتبہ بن ربیعہ اور شیبہ بن ربیعہ مخالف سمت میں تھے جن کے آپ کی ذات پر بچپن سے بہت احسانات تھے لیکن آپ کے نزدیک راہ حق میں دنیاوی رشتے کوئی حقیقت نہیں رکھتے تھے ۔ وہ مشرکین کے خلاف اس جوش اور وارفتگی سے لڑے کہ جانبازی کا حق ادا کر دیا۔ کچھ ہی عرصے بعد احد کا معرکہ وقوع پذیر ہوا آپ غزوہ اُحد میں بھی بہت جانفشانی سے لڑے جب بھگڈر مچی تو اس کٹھن وقت میں جو صحابہ کرام اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ساتھ رہے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا بھرپور دفاع کرتے رہے ، ان میں سیدنا شماس بن عثمان بھی شامل تھے اسی لئے ان کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا ’’مَا وَجَدْتُ لِشَمَّاسٍ شَبَھًا إِلَّا الْجُنَّۃَ ‘‘ میں نے احد کے دن شماس کو اپنے لئے ایک ڈھال کی طرح دیکھا۔ ایک ر وایت میں ’’الجُنۃ‘‘ کی بجائے ’’الجُبۃ‘‘کا لفظ ہے جس کے معنی ’’زرہ‘‘ کے ہیں یعنی میں شماس کے لیے زرہ کے سوا کوئی تشبیہ نہیں پاتا۔ ایک اور مقام پہ یوں بھی زبان رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے خراج تحسین عطا ہوا کہ ’’مجھ پر جس طرف سے بھی حملہ ہوا(شماس نے ) آگے بڑھ کر میری حفاظت کی اور اس کی گواہی خود رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی زبان اقدس سے دی کہ فرمایا ! میں نے شماس بن عثمان کو ڈھال کی مانند پایا ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دائیں یا بائیں جس طرف بھی نظر اٹھاتے شماس کو وہیں پاتے جو جنگ اُحد میں اپنی تلوار سے مدافعت کر رہے تھے یہاں تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر غشی طاری ہو گئی جب آپ پر حملہ ہوا اور پتھر آکے لگا۔ سیدنا شماس نے اپنے آپ کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے ڈھال بنا لیا تھا یہاں تک کہ آپ شدید زخمی ہو گئے اور آپ کو اسی حالت میں مدینہ اٹھا کر لایا گیا۔ آپ میں ابھی کچھ جان باقی تھی۔ آپ کو سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے ہاں لے جایا گیا۔ حضرت اُمّ سلمہ نے کہا کہ کیا میرے چچازاد بھائی کو میرے سوا کسی اور کے ہاں لے جایا جائے گا؟ اس پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ انہیں ام سلمہ کے گھر لے جاو‘ پس آپ کو وہیں لے جایا گیا اور آپ نے انہی کے گھر ایک دن اور رات گزرنے کے بعد صرف 34 سال کی عمر میں آپ مقام شہادت پر فائز ہوگئے ۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ آپ کی تدفین کے حوالے سے دو طرح کی روایات ہیں ایک روایت کے مطابق آپ کو بقیع الغرقد میں دفن کیا گیا اور دوسری روایت کے مطابق رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حکم ان کو میدان احد میں لے جایا گیا اور ان کو انہی خون آلود کپڑوں کے احد کے گنج شہیداں میں دوسرے شہداء کے ساتھ سپرد خاک کردیا گیا۔ ان کی شہادت کے بعدسیدنا حسان بن ثابت اور ان کی بہن فاختہ نے اپنے اشعار میں انہیں بھرپور خراج تحسین پیش کیا ۔ لا تحسبوہ مات شخص واحد فممات کل العالمین مماتہ