حالات پریشان کن ہیں‘ عوام امید باندھتے ہیں اور اسے توڑ دیا جاتا ہے‘ کیا معاشر ے اس طرح کی کیفیت میں ترقی کرسکتے ہیں؟ انسان بنیادی طور پر امید کے سہارے جیتا ہے اور ستم ظریفی قوم سے امید چھین لی گئی‘ یہ آج کی بات نہیں‘ پون صدی کا قصہ ہے۔ کسی سرکاری محکمے کو کھنگال لیں‘ مسائل در مسائل لمبی قطار نظر آتی ہے‘ اس سے بڑا المیہ اور کیا ہوسکتا ہے کہ ہر محکمہ جس مقصد کیلئے قائم کیا گیا ہے‘ وہ اسی شعبے میں مزید بگاڑ کا سبب بنا ہوا ہے۔ مایوسی پھیلا نے والے معاملات کی ایک طویل فہرست ہے‘ جس کی ورق گردانی کرنے بیٹھیں تو شاید وقت کے ضائع علاوہ کچھ حاصل نہیں ہوگا‘ اندازہ کیجئے کہ ہمارے پاس ترقی کا واحد فارمولا قرضوں کا حصول رہ چکا ہے۔ کیا اندرون ملک افراد کو بروئے کار لا کر ملک و ملت تعمیر کا بندو بست نہیں کیا جاسکتا؟ غیر ملکی سرمایہ کاری کی ترقی یافتہ ممالک میں کوئی حدود وقیود ہوا کرتی ہیں ہمارے ہاں اس کا بھی فقدان ہے‘ جو جتنی رقم سرمایہ کاری کی مد میں لگاتا ہے اس سے زیادہ منافع سمیٹ کر لے جاتا ہے لیکن بحران زدہ ذہنوں کے مالک ہمارے ارباب اختیار محض وقتی سرمایہ کے حصول کی پالیسی سے آگے نہ بڑھتے ایسے میں مایوسی کا پھیلنا جلتی پر تیل ڈالنے کے مترادف ہے۔ 1948ء میں بانی پاکستان حضرت قائد اعظم محمد علی جناح کی رحلت کے بعد دوسرے گورنر جنرل خواجہ ناظم الدین کے دور سے اٹھنے والا بحران آج بھی تھمتا دکھائی نہیں دیتاہے۔ انصاف کی عدم فراہمی اور سیاست سے نمایاں ہونیوالا انصاف کا دہرا معیار ہر دور کی طرح آج بھی عوام کو منہ چڑھاتا ہے ۔ عام پاکستانی سوچنے پر مجبور ہے کہ آخر اس کا مستقبل کیا ہے؟ یہی وجہ ہے کہ بیرون ملک جانے والے پاکستانیوں کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے‘ اس سے بڑھ کر یہ کہہر پاکستانی اندرونی و بیرونی قرضوں کے اعتبار سے ڈھائی لاکھ روپے کا مقروض ہے۔ وفاقی حکومت نے جب اگست 2023ء میں 2 ہزار دو سو اٹھارہ ارب روپے کے قرضے لئے تھے اس وقت حکومت نے اگر کام کیا ہوتا تو نگران حکومت کے دور میں قرضے نہ لینے پڑتے۔ تاہم وطن عزیز پر مقامی قرضوں کا حجم 24 فیصد سے زائد بڑھ چکا ہے جبکہ بیرونی قرضوں کا بوجھ 39 فیصد بڑھ چکا ہے۔ ان دنوں چیئرمین پی ٹی آئی پابند سلاسل ہیں‘ ہر کوئی سوال کرتا ہے حتی کہ چھوٹے بچے بھی پوچھتے ہیں کہ ایون فیلڈ کیس میں نواز شریف کی بریت ہوگئی‘ زبان زد عام ہے کہ نواز شریف باقی کیسز سے بھی بری ہوجائینگے‘ وہ ملک کے چوتھے وزیر اعظم بن کر رہیں گے۔ سوال یہ اٹھایا جاتا ہے کہ ریاست اس بات کی کھوج نہیں لگا پائی کہ ایون فیلڈ اپارٹمنٹس کس کی ملکیت ہیں اور آف شور کمپنی کا بینیفشنری کون ہے؟ اس ضمن میں نیب کا ’’ٹھنڈا کردار‘‘ عدالت میں خبروں کی صورت میں جس انداز میں سامنے آیا‘ عوام ازسر نو سوالات کرر ہے ہیں‘ دوسری طرف چیئرمین پی ٹی آئی جو آئندہ چند روز میں چیئرمین پی ٹی آئی بھی نہیں رہینگے‘ان سے نیب القادری یونیورسٹی اور 190 بلین پاؤنڈ مبینہ کرپشن سکینڈل کیس میں لمبی لمبی نشستوں پر اڈیالہ جیل میں تفتیش کرنے میں مصروف ہے‘ انہیں عدالت کے حکم پر بھی پیشی کے موقع پر عدالت نہیں لایاجاتا اور نواز شریف مسلسل خود سے لاڈلے کا ٹیگ ختم کروانے کی کوششوں میں مگن ہیں جبکہ پورے ملک میں سیاست کے میدان میں ناہمواری اور اس پر ن لیگ کی طرف سے مسلسل لیول پلینگ فیلڈ کا مطالبہ ایک لطیفے کے طور پر لیا جارہا ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ کا ر زار سیاست لطیفوں سے بھری پڑی ہے مگر ان لطیفوں نے عوام کا منہ چڑھانا شروع کررکھا ہے۔ کیا 41 فیصد کے قریب مہنگائی کوئی مذاق ہے؟ عوام جب دو وقت کی روٹی کو ترس رہے ہیں‘ موسم قدرے ٹھنڈا ہونے کے باوجود بجلی کے بلوں کو عوام ادا کرنے سے قاصر ہیں۔ گیس کے بل بڑھتے چلے جارہے ہیں اور گیس گھریلوں صارفین کو بھی دستیاب نہیں۔ نواز شریف کی ن لیگ کے کئی سپاہی تاحال میڈیا پر آکر پوری ڈھٹائی سے فرماتے ہیں کہ ایون فیلڈ کیس میں بریت کے باوجود ن لیگ کو لیول پلینگ فیلڈ نہیں مل سکی۔ اس پر اب عوام بے چاری کیا کرے‘ ایک سابق وزیر اعظم سزا یافتہ ہوتے ہوئے جیل سے علاج کی غرض سے بیرون ملک جاتا ہے اور 4 سال بعد پورے پروٹوکول میں وآپس آکر جلسے سے خطاب کرتا ہے۔ اس کی حفاظتی ضمانتیں منظور ہوجاتی ہیں‘ جن کیسز میں سزا یافتہ ہے ان میں بریت ہونے لگتی ہے‘ اس کے بعد بھی اگر وہ لیول پلینگ فیلڈ نہ ملنے کا گلہ کرتا ہے تو وہ واقعی جھوٹ سے کام نہیں لے رہا کیونکہ اس سے زیادہ کسی کو علم نہیں کہ سیاسی میدان میں اس کے پاس اصل فیلڈ ہے۔ وہ اپنا نام لئے بغیر سیاست پر نظر ڈالتے ہوئے کہتا ہے کہ ہمارے پاس لیول پلینگ فیلڈ نہیں‘ ان سے کوئی پوچھے کہ آپ نے پنجاب میں آخر الیکشن لڑنا ہے تو کس کیخلاف؟ پی ٹی آئی کا سیاسی وجود تاحال پورے دم خم سے برقرار ہے۔ 12 کروڑ 56 لاکھ 26 ہزار تین سو نوے رجسٹرڈ ووٹرز میں سے قریبا پونے سات کروڑ وہ ووٹرز جن کی عمریں 18سال سے 42 سال تکچیئرمین پی ٹی آئی کے ہیں۔انہیں سیاسی شعور دے کر اپنا ایسا ہمنوا بنا رکھا ہے کہ اس اکثریت کا اظہار عام انتخابات میں زیادہ تر پنجاب میں ہوگا اور اسی صورتحال نے ن لیگ کو خائف کررکھاہے لہذا وہ لیول پلینگ فیلڈ اسے کہہ رہے ہیں کہ جس کے تحت انتخابات 1985ء یا 1988ء کی طرز پر ہوں‘ اسی لئے سیاست کے ماہر ہونے کے دعویدار ہونے کے باوجود عوام کو بھی تنقید کا نشانہ بناتے ہیں کہ انہیں علم ہے یہ پی ٹی آئی کے ووٹرز ہیں‘ اسی کشمکش میں نواز شریف مینار پاکستان کے بعد کسی عوامی اجتماع سے گھبرا رہے ہیں۔ ن لیگ ہر طرح کے ریلیف کے باوجود عوام کے بدلے تیور سے خوفزدہ ہے۔ حالات پریشان کن ہیں‘عوام امید باندھتی ہے اور اسے توڑ دیا جاتا ہے‘ کیا معاشرے اس طرح کی کیفیت میں ترقی کرسکتے ہیں؟