تحریک پاکستان کی ایک اہم ترین بنیاد جمہوریت تھی اور جمہوریت کی بنیاد منصفانہ انتخابات ہوتے ہیں تاکہ پارلیمنٹ میں عوام کے حقیقی نمائندے ان کے جائز حقوق کا تحفظ کریں۔ قائداعظم بر صغیر کی سیاسی قیادت میں آئین، قانون اور جمہوری اقدار سے وابستگی کے لحاظ سے ایک نمایاں مقام کی حامل شخصیت تھے وہ جب تک قبل آزادی کی مرکزی مجلس قانون ساز کے رہے تو انہوں نے ہر مسئلے پر وہی مؤقف اختیار کیا جو دستور، قانون اور جمہوریت کے ارفع اصولوں کا تقاضا تھا۔ قائد اعظم کہا کرتے تھے کہ جمہوریت ہمارے خون میں ہے اور ہمیں اس سے سیکھنے کے لیے کسی اور طرف دیکھنے کی ضرورت نہیں ہے مگر ہم نے اس جمہوریت کے ساتھ کیسا شرمناک سلوک کیا فوجی ڈکٹیٹرز مارشل لاء کے ذریعے ملک کے سیاہ و سفید کے مالک بنے رہے اور اس کے بعد اقتدار پر گرفت کمزور ہوتے دیکھ کر عوامی غیض و غصب سے بچنے کی خاطر اپنی اپنی برانڈز کی جمہوریت متعارف کراتے رہے ۔ قیام پاکستان کے ابتدائی 23 سال تک مسلم لیگی سیاست دان، سول اور ملٹری بیوروکریسی محلاتی سازشوں کے ذریعے حکومتیں بناتی اور بگاڑتی رہی ہے نو سال تک آئین نہ بنا یا جا سکا اور جب بن گیا تو آڑھائی سال کے عرصے بعد منسوخ کرنا پڑ گیا۔ 1958ء تک اس ملک پر مسلم لیگ کی نااہل اور سازشی قیادت مسلط رہی خواجہ ناظم الدین کو وزیر اعظم بنا کر بجٹ منظور کروایا گیا اور اس کے بعد ان کو برطرف کر کے امریکہ سے ایک سفارتکار کو بلا کر وزیر اعظم بنا دیا گیا۔ راتوں رات رپبلکن پارٹی وجود میں آئی۔ 1965ء میں ایوب خان نے اپنی برانڈ کی جمہوریت متعارف کرائی۔ 1965ء کے صدارتی انتخابات میں صرف 80 ہزار بی ڈی ممبرز نے ووٹ ڈالنے کے اھل تھے مگر جھرلو کے ذریعے اور بی ڈی ممبرز کو ڈرا دھمکا کر ایوب خان کو جتوا دیا گیا۔ ایوبی آمریت کے خلاف عوام نے ایجی ٹیشن شروع کی تو انہیں اقتدار چھوڑ نا پڑا مگر جاتے جاتے ایوب خان نے قوم کے تابوت میں آخری کیل ٹھونک دی اقتدار بجائے اس کے کہ اسمبلی کے سپیکر کے سپرد کر تے، ایک اور بدتر فوجی آمر یحییٰ خان کے حوالے کر دیا۔ ایوب خان نے اپنے شخصی اقتدار کی خاطر مشرقی پاکستان میں جو احساس محرومی کے بیج بوئے اسکی فصل یحییٰ خان کے نا اہل دور اقتدار میں مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی صورت میں وقوع پذیر ہوئی۔ یحییٰ خان نے عوامی لیگ کی 162 نشستیں ہونے کے باوجود اسے اقتدار سے محروم رکھا جس کی وجہ سے پاکستان دو لخت ہو گیا مگر ہمارے فیصلہ سازوں نے المیہ مشرقی پاکستان سے کچھ نہیں سیکھا۔ ضیاء الحق نے بھٹو کا تختہ الٹا حالانکہ اس کو آرمی چیف بنا کر بھٹو نے احسان عظیم کیا تھا اور پھر اس احسان کے بدلے انہیں پھانسی چڑھا دیا اور اس وجہ سے سندھ میں ایسی سیاسی عصبیت پیدا ہو چکی ہے کہ پیپلز پارٹی کی حکومت عوام کے لیے کچھ کرے نہ کرے عام سندھیوں سے لیکر پڑھے لکھے سندھی بھی بھٹو کی قبر کو ووٹ دیتے ہیں۔ 1985 میں ضیاء الحق نے غیر جماعتی الیکشن کروائے اور محمد خان جونیجو کو وزیر اعظم بنایا محمد خان جونیجو نے مارشل لاء ختم کیا سیاسی جماعتیں بحال کیں ان کا دور کئی حوالوں سے جمہوری اقدار کی بہتر پاسداری کا آئینہ دار تھا لیکن ضیاء الحق کو ان کی جمہوری اقدار سے وابستگی اور جنیوا اکارڈ پسند نہیں آیا تو انہیں اقتدار سے چھٹی کرا دی۔ 1988ء سے لے کر 1998ء تک دو دو دفعہ اسٹیبلشمنٹ نے اپنی شرائط پر اقتدار بے نظیر بھٹو اور نواز شریف کو دیا مگر دونوں کو ہی اقتدار کی مدت پوری ہوئے بغیر فارغ کر دیا گیا۔ 1999ء میں مشرف کارگل کی ناکامی کی خفت مٹانے کے لیے اقتدار پر قابض ہوگیا۔ میاں نواز شریف جلا وطن ہوئے بے نظیر بھٹو شہید کر دیں گئیں 2008ء سے لے کر 2024ء تک ہمیشہ انہی سیاسی جماعتوں اور شخصیتوں کو اقتدار کے ایوانوں میں آنے دیا گیا جو اسٹیبلشمنٹ کے چہیتے تھے۔ 2013ء میں اقتدار پر دوبارہ نواز شریف براجمان ہو ئے مگر بوجوہ 2017ء میں عدلیہ کے متعصبانہ فیصلوں سے اقتدار سے محروم کر دئیے گئے اور پھر ATS سسٹم بٹھا کر عمران خان کو مشروط اقتدار دیا گیا اور آج پھر EMS سسٹم بٹھا کر مثبت نتائج مرتب کرنے کے لیے رزلٹ جمعہ کی دوپہر اناؤنس ہونے شروع ہو ئے رات تک جیتنے والے صبح ہار گئے نواز شریف پہلے یاسمین راشد سے ہار رہے تھے۔ مگر جمعہ کی صبح جیت گئے مزے کی بات ہے کہ اگر دونوں امیدواروں کے مجموعی پول ہونے والے ووٹوں کو دیکھا جائے تو ان کی تعداد حلقے کے رجسٹرڈ ووٹرز سے زیادہ ہے۔ تحریک انصاف کے حمایت یافتہ امیدوار فارم 45 لیے پھر تے ہیں کہ جس میں گنتی سے وہ جیت رہے ہیں۔ پھر بقول چیف الیکشن کمشنر تمام پریزائڈنگ افسران اور عملے کو سیکورٹی اداروں نے حفاظتی تحویل میں لے کر آر او آفس پہنچایا ایک بھی رزلٹ 66 کروڑ کے EMS سسٹم سے نشر نہیں ہوا رات 2 بجے سیلیکر صبح پانچ بجے تک رزلٹ روک دئیے گئے۔ قوم کے 100 ارب اجاڑ دیے گئے پانچ سال لاکھوں کی تنخواہیں اور پنشن لینے والے الیکشن کمیشن کے ریٹائرڈ اراکین نے اس قوم کے درمیان مزید نفرتوں کی خلیج کو بڑا دیا ہے۔ سیاسی کشیدگی میں اضافہ کردیا ہے سیاسی غیر یقینی صورتحال سے سٹاک ایکسچینج 2300 پوائنٹس گر گئی ہے نااہلی، بدنیتی اور بے ایمانی سے جب عوام کے مینڈیٹ کا احترام نہیں کیا جاتا ہے نوجوان نسل کے ووٹ کی توہین کی جاتی ہے ایک سیاسی جماعت کے قائد کو جیل میں رکھ کر بغیر کسی فیئر ٹرائل سزائیں دی جاتی ہیں تو کیا ملک میں سیاسی اور معاشی استحکام آجائے گا ۔ سال سال کی نگران حکومتوں کا کردار انتہائی منفی رہا ہے وہ بس پروٹوکول اور مراعات انجوائے کرتے رہے وزیر اعلیٰ پنجاب تو نئے با اختیار عہدے پر دوبارہ براجمان ہو گئے ہیں۔ مگر ہمارے ملک کے عوام کے ووٹ کی کوئی عزت ہے اور نہ ہی ان کے کوئی حقوق ہیں اور نہ ہی ان کے لیے روزگار اور نہ ہی ان کے لیے سیاسی عمل کے ذریعے آگے بڑھنے کے کوئی راستے ہیں کیونکہ ان کے باپ دادا نہ تو نواز شریف ہیں اور نہ ہی آصف علی زرداری اور نہ ہی کوئی جاگیر دار، وڈیرے، صنعت کار یا لینڈ مافیا ٹائیکونز ہیں۔ مگر جس تیزی سے نوجوان نسل میں سیاسی بیداری پیدا ہو رہی ہے تو وہ وقت اب دور نہیں یہ دریا جو جھوم کے اٹھیں گے، تنکوں سے نہ ٹالیں جائیں گے۔ ٭٭٭٭