راقم الحروف کے دوست جنابِ احمد مفتی درست کہتے ہیں کہ اب دنیا کے حالات تیزی سے بدل رہے ہیں۔کئی ممالک نے اپنے عمل سے اپنی سَمت کا تعین کردیا ہے اور دنیا پہ بھی واضح کردیا ہے کہ اْن کے نزدیک سب سے پہلے اْن کا ملک ہے۔ سعودی عرب دنیا کی اْبھرتی ہوئی معیشت ہے۔ جہاں ایک جواں سال ولی عہد ِ سلطنت اور وزیراعظم سعودی عرب شہزادہ محمد بن سلمان یکسو ہوکر سعودی عرب کو معاشی، معاشرتی، سیاسی، سماجی، ثقافتی، مذہبی اور ترقیاتی حوالے سے بہت تیزی سے آگے لے جارہے ہیں۔ یقین جانئے کہ چند سال قبل کوئی تصور بھی نہیں کرسکتا تھا کہ سعودی عرب کی ایران کے ساتھ صلح ہوجائے گی اور صلح بھی اِس قدر گہر ی ہوگی کہ سعودی عرب ایران کو سعودی عرب کی سرزمین پر ایرانی سفارت خانہ کھولنے اور کچھ مزارات کی تعمیر کی اجازت بھی دے دے گا۔ سعودی عرب نے جہاں ایران کے ساتھ دوستی کا ہاتھ بڑھایا ہے وہیں یمنی حکومت کو بھی خاموش پیغام دیا گیا ہے کہ اَمن سے رہنا ہے تو سعودی عرب کے دروازے اْن کے لئے ہمیشہ کھلے ہیں۔ ملک ِ شام جسے امریکہ اور اْس کے اتحادیوں نے اپنے تئیں تباہ کرنے کی بھرپور کوشش کی ہے، سعودی عرب نے شام کے صدر بشار الاسد کو نہ صرف سعودی عرب میں مدعو کیا بلکہ جس انداز میں اْن کا والہانہ استقبال کیا گیا وہ مغربی دنیا کے لئے بذاتِ خود خطرے کی گھنٹی ثابت ہوئی ہے۔ شہزادہ محمد بن سلمان افغانستان کے ساتھ دوستانہ مراسم قائم کررہا ہے اور ساتھ ہی پاکستان اور افغانستان کے درمیان دوستانہ مراسم ہموار کرنے کی فضا پیدا کررہا ہے۔سعودی عرب چین کے ساتھ دوستانہ مراسم بڑھارہا ہے اور اپنی تجارت کا رخ مغرب کے ساتھ ساتھ مشرق کی طرف بھی موڑ رہا ہے۔ سعودی عرب نے دنیا پہ واضح کردیا ہے کہ سعودی شاہ سلمان بن عبدالعزیز اور سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کی قیادت میں سعودی عرب کے لئے سب سے اہم امر خود سعودی عرب کی سالمیت، خوشحالی اور جدید ترقی کی منازل طے کرنا ہے۔ حجاز ِ مقدس چونکہ دنیا بھر کے مسلمانوں کے لئے انتہائی مقدس سرزمین کا درجہ رکھتی ہے یہی وجہ ہے کہ سعودی عرب کی خاک سبھی پاکستانیوں کی آنکھوں کی ٹھنڈک کی مانند ہے۔ جس طرح ہمارے جرنیل اور حکمران گاہے بگاہے اپنے دشمنوں پہ واضح کرتے ہیں کہ پاکستان کی طرف میلی آنکھ سے دیکھنے والوں کی آنکھیں نکال دی جائیں گی بالکل یہی جذبات ہر پاکستانی بلکہ ہر مسلمان کے سعودی عرب کے حوالے سے ہیں کہ سعودی عرب کی طرف میلی آنکھ سے دیکھنے والی نگاہوں کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے جھکا دیا جائے گا۔ مسلمانوں کے یہ جذبات یک طرفہ نہیں ہیں بلکہ سعودی شاہ سلمان بن عبدالعزیز اور ولی عہد کے دوستانہ مراسم کی گہرائیوں کا جائزہ لیا جائے تو سعودی وزیراعظم ہمیشہ بین الاقوامی سطح پر مسلم اْمہ کے لیڈر کی حیثیت سے سامنے آئے ہیں۔یہاں سے اندازہ لگائیں کہ کچھ دن بعد پاکستان پہلی بار انٹرنیشنل مانیٹرنگ فنڈ کے بغیر اپنا بجٹ پیش کرنے جارہا ہے۔ یہ بات بین الاقوامی مالیاتی اداروں کے لئے کسی بھی طرح سے ہضم ہونے والی نہ ہے کیونکہ جب پاکستان کے وزیر خزانہ نے سینٹ میں یہ بیان دیا کہ پاکستان کسی بھی طور سے اپنے ایٹمی اثاثہ جات کی معلومات فراہم نہیں کرے گا تو کئی پاکستانیوں کے دل دھک دھک کرنے لگے تھے کہ ہماری معاشی زبوں حالی کی نوبت یہاں تک آگئی ہے کہ آئی ایم ایف قرض فراہم کرنے کے بدلے پاکستان کے ایٹمی ہتھیاروں کی معلومات تک رسائی چاہتا ہے۔ یقینی سی بات ہے کہ حکمراں اتحاد اورشاید سابق حکمران جماعت اور موجودہ حزبِ اختلاف کے سربراہ کو بھی اعتماد میں لے کر معاشی حوالے سے دوست ممالک سے مالیاتی امداد کی اپیل کی گئی ہو۔ شاید یہی وجہ ہے کہ سعودی وزیراعظم محمد بن سلمان نے ایک بیان دیا کہ وہ ہمیشہ کی طرح ہر مشکل وقت میں پاکستان اور پاکستانیوں کے ساتھ کھڑے ہیں۔ ملتے جلتے بیانات کے ساتھ متحدہ عرب امارات کے حکمران نے بھی حکومت ِ پاکستان کی دل کھول کر امداد کی اور یوں چین سمیت دیگر دوست ممالک کو پاکستان کی گرتی ہوئی معاشی صورت حال کو سنبھالا دینے کا حوصلہ ملا۔ اب صورت حال یہ ہے کہ پاکستان کئی دہائیوں کئے بعد بنا آئی ایم ایف کی امداد کے اپنا بجٹ پیش کرنے جارہا ہے۔ بلاشبہ ہماری معاشی حالت اس قدر اچھی نہیں مگر جو حالات چند ماہ قبل تھے وہ اب قدرے سنبھلتے نظر آرہے ہیں اور اگر سیاسی استحکام نصیب ہوا تو ہم بہت جلد بہترسے بہتری کی جانب گامزن ہوجائیں گے۔ سعودی عرب اور چین دو ایسے ممالک ہیں جو ہر صورت حال میں پاکستان کی سالمیت کے ضامن ہیں مگر ہمیں دیکھنا ہوگا کہ ہم کب تک دوسروں کے سہارے اپنا معاشی نظام چلاتے رہیں گے؟ سعود ی عرب کی مثال ہمارے سامنے ہے کہ ایک جواں سال شہزادے نے اپنی سمت کا تعین کرتے ہوئے عالمی برادری پر واضح کردیا ہے کہ اگر سعودی عرب کے ساتھ تجارتی، سماجی، سیاسی یا ترقیاتی تعلقات استوار رکھنے ہیں تو سعودی عرب کی شرائط پر رکھنے ہونگے۔ بالکل اِسی طرح ترکی کے سربراہ صدر رجب طیب ادرگان نے محض دو دہائیوں پر محیط اپنی دورِ حکومت یورپ کے مردِ بیمار کو دنیا کی ترقی یافتہ اقوام میں شامل کرالیا ہے۔ زیادہ دور جانے کی شاید ضرورت نہ ہو۔ ہمارے سامنے بنگلہ دیش کی مثال زیادہ موثر معلوم ہوتی ہے کہ بنگالی حکومت نے سب سے پہلے بنگلہ دیش کا نعرہ لگا کر اپنی معاشی حالت کو سدھار لیا ہے۔ خود بھارت کو دیکھا جائے تو بھارتی حکومت نے گزشتہ ایک دہائی سے اپنی معیشت پر فوکس کیا ہوا ہے۔ معاشی طاقت ہونے کے بل بوتے پر بھارتی حکومت نے مقبوضہ جموں اینڈ کشمیر میں جی 20ممالک کا اجلاس رکھ کے عالمی برادری کو یہ باور کرانے کی کوشش کی ہے کہ مقبوضہ خطہ میں حالات اْس قدر بھی خراب نہیں جتنے پاکستانی حکومت یا کشمیری عوام عالمی برادری پر آشکار کرتی آرہی ہیں۔ اگرچہ سعودی عرب، ترکی، چین، انڈونیشیاسمیت دیگر دوست ممالک نے اجلاس میں شرکت نہ کرکے جہاں عالمی برادری پہ بھارت کی سازش کا بھانڈا پھوڑ دیا ہے مگر پھر بھی ہمیں اپنی خارجہ پالیسی سمیت اپنی معاشی پالیسی کی سمت کا تعین کرنا ہوگا۔ ہمیں بھی سب سے پہلے پاکستان کا نعرہ لگاکر اپنی معیشت کو ٹھیک کرنا ہوگا۔