ہم سب نے اپنے والدین اور بڑے بزرگوں سے ایک جملہ بکثرت سنا ہو گا کہ " یا اللہ ہمیں کسی کا محتاج نا کرنا، اے اللہ ہمیں چلتے پھرتے اپنے پاس بلا لینا اور ہمیں کسی پہ بوجھ نا بنانا"۔ کم عمری میں تو ایسے جملوں کی کچھ خاص سمجھ نہیں آتی تھی لیکن جیسے جیسے شعور کی منزلیں طے کرتے گئے تو سمجھ میں آیا کہ محتاجی اور معذوری کتنا بڑا بوجھ ہے خود پہ بھی اور دوسروں پہ بھی، کتنا اذیت ناک امتحان ہے اپنا بھی اور اپنے پیاروں کا بھی۔ اب یہ محتاجی اور معذوری بھلے ذہنی ہو یا جسمانی، معاشی ہو یا معاشرتی ہر طرح سے انسان کو مفلوج و محکوم بنا دیتی ہے۔ ایک انسان سے اسکا سارا اعتماد چھین لیتی ہے اور خاص طور پہ پاکستان جیسے معاشرے میں جہاں اچھے بھلے ذہنی اور جسمانی تندرست انسان بھی زندگی کی تلخیوں کو سہتے سہتے طرح طرح کی ذہنی بیماریوں کا شکار ہو چکے ہیں۔ شوگر، بلڈ پریشر، ہائیپر ٹینشن، ڈیپریشن اور اعصابی کمزوری انسانوں کو اندر ہی اندر دیمک کی طرح چاٹ رہی ہے۔ ایسے حالات میں کیا ہم نے کبھی ان لوگوں کے بارے میں سوچا جو پیدائشی طور پہ یا حادثاتی طور پہ کسی نا کسی ذہنی و جسمانی معذوری کا شکار ہیں اور انتہائی تکلیف دہ زندگی گزار رہے ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے کسی ضروری کام سے میں بلیو ایریا میں نادرا کے ہیڈ آفس گیا، میری فیملی بھی میرے ہمراہ تھی ہم اپنا ٹوکن نمبر لے کر اپنی باری کے انتظار میں بیٹھے تھے۔ کچھ دیر بعد عجیب سا شور اور چیخ و پکار سنائی دی، میں نے پلٹ کر دائیں جانب دیکھا تو ایک فیملی اپنے ذہنی معذور بیٹے کو بمشکل قابو کر کے سیٹ پہ بیٹھانے کی کوشش کر رہی تھی۔ وہ غالباً اسکا شناختی کارڈ بنوانے آئے تھے، نادرا کے اہلکار کی مدد سے وہ لڑکا جو جسامت میں کافی اونچا لمبا تھا ، بمشکل کرسی پہ بیٹھا اور اسکے والدین نے اسے دائیں بائیں سے جکڑا ہوا تھا کہ پھر بھاگ نا جائے۔ کسی بھی حساس دل انسان کیلئے یہ بہت تکلیف دہ منظر تھا اور والدین تو ہوتے ہی حساس ہیں۔ ان والدین کے چہرے سے جو بے بسی جھلک رہی تھی وہ ناقابل بیان ہے۔ اگلا مرحلہ اس سے بھی مشکل تھا کہ وہ معذور بچہ کسی طور کیمرے کی جانب دیکھنے پہ راضی نہیں تھا۔ شناختی کارڈ کیلیے تصویر بنوانا لازمی ہے لیکن وہ مسلسل دائیں بائیں سر ہلا رہا تھا اور ہنسے جا رہا تھا جبکہ ماں باپ اسکے سر کو پکڑنے اور ایک جگہ فوکس کرنے کی سر توڑ کوشش کر رہے تھے۔ اس وقت میں نے سوچا کہ ہمارے ملک میں سرکاری سطح پر ایسا نظام ضرور ہونا چاہیے کہ ذہنی معذور افراد کو ڈیل کرنے کیلیئے الگ سے اسٹاف رکھا جائے۔ ایسے سرکاری دفاتر میں ذہنی امراض سے متعلق ڈاکٹرز اور ماہرین رکھے جانے چاہئیں جنکی باقاعدہ ٹریننگ کی جائے کہ ایسے معذور افراد کو کیسے دیکھنا ہے کیسے قابو کرنا ہے اور انکے ساتھ کس طریقے سے کام کرنا ہے۔ پاکستان میں صرف ذہنی ہی نہیں جسمانی طور پر معذور افراد بھی بے پناہ مشکلات کا شکار ہیں۔ ہمارے ملک میں ان افراد کو سہولیات مہیا کرنے اور معاشرے کا ایک کارآمد فرد بنانے کیلیے باقاعدہ طور کوئی نظام موجود نہیں۔ پاکستان میں ٹریفک کے مسائل پہ میں گاہے بگاہے لکھتا رہتا ہوں لیکن ہمارے معاشرے کا ایک محروم طبقہ ایسا بھی ہے جس پہ بات کرنا انتہائی ضروری ہے۔ چند دن پہلے ایک اہم شاہراہ پر سگنل کھلنے کا انتظار کر رہا تھا، رش بہت زیادہ تھا کہ ایسے میں ایک معذور بزرگ اپنی وہیل چیئر گھسیٹتا ہوا روڈ کراس کرنے کیلئے آگے بڑھا۔ وہ حسب استطاعت اپنی وہیل چیئر کو تیزی سے چلا رہا تھا لیکن ایک بوڑھے بزرگ کے ہاتھوں میں بھلا کتنی طاقت ہوسکتی ہے۔ اطراف میں تیزی سے بھاگ کے سڑک کراس کرتے افراد کی بے حسی پہ دل بہت دکھا کہ کسی کو توفیق نہیں ہوئی کہ ان بزرگ کی مدد کرتے اور وہیل چیئر کو تیزی سے چلاتے اور سڑک پار کرا دیتے۔ بہرحال سگنل کھلنے تک وہ بمشکل سڑک کے کنارے پہنچے ہی تھے کہ گاڑیوں نے بھاگنا شروع کردیا اور میں بھی بوجھل دل سے آگے بڑھا۔ تبھی سوچ لیا کہ آج اس محروم و مجبور طبقے پہ بات کی جائے۔ یو این ڈی پی کے مطابق پاکستان میں اس وقت آبادی کا لگ بھگ 6.2% طبقہ معذور افراد پہ مشتمل ہے۔ جبکہ ایچ آر ڈبلیو کے اعداد و شمار اس سے زیادہ سنگین ہیں کہ پاکستان میں معذور افراد کی تعداد 3.3 ملین سے بڑھ کر 27 لاکھ تک پہنچ گئی ہے بلاشبہ یہ ہماری ملکی معیشت پہ ایک بھاری بوجھ ہیں خاص کر اس صورت میں کہ وطن عزیز میں ان افراد کی دیکھ بھال، مالی معاونت، باقاعدہ تعلیم و تربیت کیلیے کوئی خاص اور قابل ذکر نظام موجود نہیں۔ نیز پاکستان میں اسپیشل ایجوکیشن کے ادارے کے مطابق ان میں 45 فیصد افراد اٹھارہ سال سے کم عمر بچوں پر مشتمل ہیں۔ مندرجہ بالا اعداد و شمار میں ان افراد کی تعداد زیادہ ہے جو کسی نا کسی حادثے کی صورت میں معذوری کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں جسکی بنیادی وجہ پاکستان میں ٹریفک کا نظام ہے۔ ہماری گاڑیوں ، مسافر بسوں ، ٹرینوں اور عوامی مقامات پر معذور افراد کیلیے سہولیات نا ہونے کے برابر ہیں۔ ہم سب نے بارہا یہ دیکھا ہے کہ مسافر بسوں اور ٹرینوں میں صرف گنتی کی چند سیٹیں ہی معذور افراد کیلیے مختص ہوتی ہیں اور ان پہ بھی عموماً صحت مند افراد قابض ہوتے ہیں۔ عوامی مقامات جیسے کہ ریلوے اسٹیشن ، بسوں کے اڈے، بازار اور پارک وغیرہ کہیں پہ بھی معذور افراد کیلئے الگ راستے، فٹ پاتھ، راہگزر اور ریمپ وغیرہ نہیں بنائے جاتے اور نا ہی پہلی سے دوسری منزل پہ جانے کیلئے لفٹ موجود ہوتی ہے۔ پاکستان کے چند بڑے شہروں کی چند بڑی اور جدید عمارتوں کے علاؤہ کہیں بھی ایسی سہولیات میسر نہیں ہیں۔ (جاری ہے)